1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asim Anwar/
  4. Justice Athar Minallah Aur Azadi e Izhar e Raye

Justice Athar Minallah Aur Azadi e Izhar e Raye

جسٹس اطہر من اللہ اور آزادی اظہارِ رائے

جسٹس اطہر من اللہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جج ہے۔ اطہر اللہ من اللہ صاحب بطور وکیل عدلیہ کے آزادی تحریک کا حصہ رہے، انہوں نے انسانی حقوق کے لئے آواز بلند کی اور ساتھ میں سول سپریمیسی کے بھی زبردست حامی رہے ہیں۔ بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انہوں نے بہترین کام کیا۔ تمام سیاسی جماعتوں کے اُن سے گلے شکوے رہے ہیں۔ جیسا کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی رات انہوں عدالت کا دروازہ کھولا۔ اب تک کوئی بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا تھا اور اس کے لئے آج بھی تحریک انصاف اس پر تنقید کرتی رہتی ہے۔

جب تحریک انصاف اور اُن کے حامی صحافیوں پر مشکل وقت آیا تو انہوں نے اسے بھرپور ریلیف فراہم کیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ تحریک انصاف کے سابق رہنماء شیریں مزاری کو جب اغواء کیا گیا۔ تو ان کی بیٹی اسلام آباد ہائی کورٹ گئی اور اطہر من اللہ صاحب نے ان کو بازیاب کرایا۔ اسی طرح ارشد شریف شہید، معید پیرزادہ، صابر شاکر، سمیع ابراہیم، اور عمران ریاض خان کے خلاف ملک بھر میں جھوٹے مقدمات بننا شروع ہوئے تو جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت سے ان کو ریلیف ملتا رہا۔ اس باوجود بھی ارشد شریف اور عمران ریاض خان کے ساتھ جو ہوا وہ ہمارے تاریخ کا ایک شرمناک باب ہے۔ مگر اطہر من اللہ صاحب سے جو ہوسکا وہ انہوں نے کیا۔

ہفتے کے روز سپریم کورٹ آف پاکستان میں کورٹ رپورٹرز کےلئے ایک تربیتی ورکشاپ کا انعقاد ہوا تھا۔ اسی ورکشاپ سے جسٹس اطہر من اللہ نے خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے آزادی اظہارِ رائے اور سچ کے حوالے سے کئی ساری اہم باتیں بتائیں جو میں آپ لوگوں کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بنتے ہی آزادی اظہار پر قدغنیں لگنا شروع ہوئی۔ اس کا آغاز قائداعظم کے گیارہ اگست والے تقریر کو سنسر کرنے سے ہوا اور اس کے بعد سنسر شپ کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ مشرقی پاکستان کے معاملے پر بھی مغربی پاکستان کے لوگوں کو ایک الگ تصویر پیش کیا گیا اور نتیجہ بنگلہ دیش کے صورت میں سامنے آیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر سچ بولا جاتا تو ملک دولخت ہوتا اور نا ہی لیڈر سولی پر چھڑتا۔

انہوں نے کہا کہ آجکل رپورٹرز وی لاگز کرتے ہیں اور اس سے ان کا کمرشل انٹرسٹ جڑا ہوتا ہے اس لئے ججز کو اس سے نہیں گھبرانا چاہئے۔ اور نا ہی اسے تنقید کا اثر لینا چاہئے۔ کیونکہ یہ ججز کے حلف کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا میرے اُوپر بھی تنقید ہوئی کہ یہ کسی کے ساتھ واٹس ایپ پر رابطے میں ہے، اِن کو پلاٹ ملے ہیں۔ اگر کسی نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے تو اسے گھبرانا نہیں چاہئے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سچ کے اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ سچ کو دباتے دباتے ہم یہاں تک پہنچ گئے۔ جب بھی اس ملک میں کوئی سیاسی لیڈر کمزور ہوجائے اس کو عدالت سزا دینے سے پہلے حکومت یا اس کا مخالف طاقتور گروپ سزا دے چکی ہوتی ہے۔ عوام عدلیہ پر تنقید کریں۔ مگر عدلیہ پر بھروسہ بھی رکھیں۔ اگر کسی نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے تو اسے گھبرانا نہیں چاہئے۔

جسٹس اطہر من اللہ صاحب نے ایک بہترین تقریر کی۔ انہوں نے جو باتیں کی وہ نا صرف قابل تعریف تھی۔ بلکہ اس مشکل وقت میں جب عدلیہ سیاسی جماعتوں، صحافیوں اور عوام کے تنقید کے زد میں ہیں۔ ایسے ماحول میں انہوں نے اپنے ساتھی ججز کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی اور کہا کہ اسے سچ کا ساتھ دینا چاہئے۔ آزادی اظہار پر پابندی لگانے سے مسائل حل نہیں ہوتے اور ناہی کوئی یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ کس نے کیا بولنا ہے اور کیا نہیں۔ بس اسے سچ کا ساتھ دینا چاہئے۔

اسی طرح انہوں نے جیسے کہا کہ جھوٹ کے وجہ سے ہم نے آدھا ملک گنوا دیا ہے اور اب مزید اس سلسلے کو بند ہونا چاہئے۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو اہل اقتدار ابھی بھی ان حرکتوں سے باز نہیں آرہے ہیں۔ اور مسلسل عوام کو جھوٹ بولا جارہا ہے۔ اسے دھوکہ میں رکھا جارہا ہے۔ وہ تو شکر ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگ حقائق سے باخبر رہتے ہیں۔ ورنہ حکومت نے تو اپنے کوشش سے ٹی وی چینلز اور اخبارات کو مضبوطی سے قابو میں رکھا ہے۔ اس طرح سے معاشرے نہیں بنتے اور نا ہی مسائل حل ہوتے ہیں آنکھیں بند کرنے سے کبھی مسائل حل نہیں ہوئے۔ بلکہ الٹا گھمبیر ہوجاتے ہیں۔ اس لئے ریاست کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ سچ کے سامنے رکاوٹ نہیں بنیں گے۔

Check Also

Saneha 9 May Ki Mafi?

By Tayeba Zia