Salasil e Sahafat O Danishwari
سلاسل صحافت و دانشوری
کچھ عرصہ قبل ریاض خٹک بھائی کی ٹرم قاسمیہ اور شامیہ سے متاثر ہوکر میں نے سلاسل صوفیاء کی طرز پر فکاہیہ انداز میں سلاسل صحافت و دانشوری پر لکھا تھا۔ مزید جمع و تفریق کے ساتھ پیش خدمت ہے۔
"سلسلہ قاسمیہ"
اس صحافت کے سلسلے میں سلوک کی منازل میاں خاندان کی انتھک مدح سرائی کے بعد حاصل ہوتی ہیں۔ مریدین کو چالیس روزہ اینٹی عمران چلہ کاٹنا لازم ہے۔ سرکاری مراتب حاصل کرنے کو نفس کی آزمائش سمجھ کر دو زانوں ہو کر قبول کیا جانا لازم ہوتا ہے۔
"سلسلہ شامیہ"
اس سلسلے میں معرفت اقتدار کے لئے میٹھی چھری کا بر وقت اور بر محل استعمال کیا جاتا ہے۔ مریدین کو چاپلوسی اور ڈھیٹ پن کا تا حیات چلہ اپنے ضمیر کے قبرستان میں الٹے ہو کر کاٹنا لازم ہے۔ ماضی میں پشت پر لگے کوڑے اور آزادی اظہار کی پابندیاں کیش کرانے کو آرٹ کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔
"سلسلہ خاکیہ خلیفیہ"
صوف کے اس سلسلے اپنا قبلہ مستقل طور پر راولپنڈی جی ایچ کیو کی طرف کرنا ہی سلوک و معرفت چیف آف آرمی سٹافیہ کی تکمیل کی واحد اہلیت ہے۔ تاحیات خلیفہ اور اس سلسلے کے بانی مارون الرشید نئے آنے والوں کی تاج پوشی کرتے ہیں۔ ہلکی آنچ پر مذہب، تاریخ و غیر ثقہ روایات کے ڈھول پر خاکی بانسری کا ملاپ کیا جاتا ہے۔ ، دجال، غزوہ ہند، شامل و فلسطین اور تیسری عالمی جنگ کے کھڑاک کی تسبیح کا 24/7 ورد لازمی ہے۔
"سلسلہ سیاپایہ"
اس سلسلے میں مرشد کی قربت کے لئے اپنے اور دوسروں کے متفقہ نکات پر کینفوزن کا چلہ کسی غیر ملکی کھوپڑی میں بیرونی ممالک اور بالخصوص انڈیا کا تیل ڈال کر، دنیا کے ہر غیرت کے قبرستان میں کیا جاتا ہے۔ چہرے پر سیاہی کی کثافت و کثرت، ملامت کے درجات میں بلندی کو ظاہر کرتی ہے۔
"سلسلہ نثاریہ"
اس سلسلے میں معرفت حاصل ہو بھی جائے تو بھی گندے، غلیظ پانی، ناپاک دودھ اور امت مسلمہ کے اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے تسلیم نہیں کی جاتی۔ اپنے آپ کو عقلی اور فکری جوتے مارنے کا چلہ کسی حد تک سلوک کی منازل طے کرا دیتا ہے۔ خیالات اور عملی شخصیت میں سو فیصدی مکروہ تضاد اسکی بنیادی شرائط ہیں۔
"سلسلہ لفافیہ"
اس شاخ میں مرشد، لفافے کی علامتی شکل میں متشکل ہوتا ہے جس کو ہر دم چوم کر جیب میں رکھنا ہی معرفت کی مشکلات کے خاتمے کا سبب بنتا ہے۔ ہر کچھ عرصہ بعد لفافے کے علامتی مرشد میں نفس کی آزمائش کے لئے تبدیلی کی جاتی ہے۔ تسلسل سے مرشد کو بغل میں رکھنا سالک ہونے کی لازمی شرط ہے۔
"سلسلہ لبرلیا"
سب سے منفرد اس سلسلے میں معرفت کے مختلف درجات ہیں۔ مذہب کو ہمزاد کی طرح قابو کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی لا مذہبیت کا کا چلہ کسی نوجوان ناری کی معیت میں کیا جاتا ہے۔ قائداعظم کی قبر پر بندر کی کھوپڑی اور الو کے خون کا حصار بنا کر تاریخ کی دھونی دیکر اپنی آنکھیں اور عقل بند کرکے ابتدائی چلہ کاٹا جاتا ہے۔ اسکے بعد پاکستان، روایات و ثقافت کو سبز کاغذ میں لپیٹ کر کالے بکرے کی قربانی ہر 14 اگست، 23 مارچ، 6 ستمبر، 9 نومبر اور 25 دسمبر کو دی جانا ہر صورت لازم ہوتا ہے۔
"سلسلہ عمرانیہ"
سلوک کی تمام منازل لفظ "دیکھو حامد" سے شروع ہو کر 92 کے ورلڈ کپ سے ہوتی ہوئی، شوکت خانم کینسر ہاسپٹل سے پرواز کرتی ہم کوئی غلام ہیں کے کھمبے پر اختتام پذیر ہوتی ہیں۔ مرید کی ترقی مرشد کی تصاویر پوسٹ کرنے اور دن میں 1111 بار مخالفین پر برہنہ گالیوں کے وظیفہ سے مشروط ہیں۔
" سلسلہ دلالیہ"
معرفت کی اس چوکھنڈی درگاہ میں اپنے ہی دلائل پر 180 ڈگری کے زاویے پر دندان شکن اور فخریہ واپسی ہی مرید کی کامیابی کی اولین دلیل ہے۔ دلیل ہی معرفت کی کنجی ہوگی۔ چلے اس سلسلے میں نہیں ہوتے۔ مرشد کے بجائے بس اپنے استاذ گرامی کا ذکرِ خیر پوسٹ صوفیت کے تناظر میں کیا جاتا ہے اور معرفت کا شاکلہ جمہوریت، روشن خیالی اور سویلین بالادستی کے مقبرے میں گاڑا جاتا ہے۔ نفس کی سخت آزمائش کے لئے ہمہ جہت ڈھٹائی مریدین کا خصوصی وصف تصور کیا جاتا ہے۔
مزید سلاسل آپ لوگ ایڈ کر سکتے ہیں۔