Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Salahuddin
  4. Khamoshi Ki Deewarein, Awam Ki Lalkar

Khamoshi Ki Deewarein, Awam Ki Lalkar

خاموشی کی دیواریں، عوام کی للکار

آج پاکستان میں ایک حیرت انگیز منظر ہے۔ ایک ایسا دن جس میں نہ صرف مظاہرے ہو رہے ہیں بلکہ ایک پوری قوم کے جمہوری حقوق کی آزمائش بھی ہو رہی ہے۔ عمران خان، جو کبھی پاکستان کے سیاسی افق کے سب سے روشن ستارے تھے، آج قید میں ہیں، اور ان کے حامی سڑکوں پر اپنے حق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ یہ احتجاج ان کی رہائی کے لیے ہیں، لیکن اصل میں یہ جمہوریت، انصاف، اور بنیادی حقوق کی بحالی کی جنگ ہے۔ حکومت نے حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے ایسے اقدامات کیے ہیں جو خود جمہوری آزادیوں پر سوالیہ نشان بناتے ہیں۔

اسلام آباد کا حال کسی جنگ زدہ قلعے سے کم نہیں۔ سڑکوں پر کنٹینرز کھڑے ہیں، جیسے شہریوں کے حقوق کو راستے کے کنکر سمجھ کر بلاک کر دیا گیا ہو۔ پولیس، رینجرز اور حتیٰ کہ فوج بھی تعینات کی گئی ہے، تاکہ کسی کو یہ خیال تک نہ آئے کہ وہ اپنی آواز بلند کر سکتا ہے۔

انٹرنیٹ سروسز بھی معطل ہیں اور یوں عوامی رابطے کے تمام ذرائع بند کر دیے گئے ہیں۔ ایک دور جس میں معلومات کی رسائی سب سے بڑی طاقت سمجھی جاتی ہے، آج پاکستان میں وہی معلومات عوام سے چھپائی جا رہی ہیں۔ شاید حکومت سمجھتی ہے کہ خاموشی سے سب مسائل حل ہو جائیں گے، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ایسے اقدامات کبھی پائیدار نہیں ہوتے۔

عمران خان کے حامی یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کی بنیاد جمہوری اقدار پر رکھی گئی تھی؟ ایک ایسا ملک جہاں عوامی احتجاج کو خطرہ سمجھا جا رہا ہے اور جہاں حکومت کو اپنے شہریوں سے ڈر ہے؟ حکومت نے دفعہ 144 نافذ کر دی ہے، اور عوامی اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ پابندیاں کسی مسئلے کا حل ہیں یا صرف ایک عارضی خاموشی کی کوشش؟

عمران خان کی گرفتاری کو ایک سال سے زیادہ ہو چکا ہے اور ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ سب سیاسی انتقام کا حصہ ہے۔ ان پر کرپشن اور دہشت گردی کے الزامات لگائے گئے ہیں، لیکن ان کے حامی ان الزامات کو جھوٹا قرار دیتے ہیں۔

آج کے احتجاج نہ صرف عمران خان کی رہائی کے لیے ہیں بلکہ یہ ایک بڑی تحریک کا حصہ ہیں جو جمہوریت کی بحالی کے لیے لڑی جا رہی ہے۔ مظاہرین کے مطالبات میں صرف ایک لیڈر کی رہائی شامل نہیں بلکہ آئینی حقوق، عدالتی آزادی، اور جمہوری اداروں کی بحالی بھی شامل ہیں۔

حکومت کے یہ اقدامات بین الاقوامی سطح پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے ادارے اور دنیا بھر کے مبصرین اس صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیمیں پاکستان سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق کا احترام کرے۔

لیکن یہ سب کہانی کا ایک رخ ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ یہ احتجاج قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، اور وہ اپنی ذمہ داری ادا کر رہی ہے۔ لیکن عوام یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا جمہوری حقوق کا تحفظ بھی حکومت کی ذمہ داری نہیں؟

آج کے احتجاج پاکستان کے لیے ایک اہم موڑ ہیں۔ اگر حکومت نے عوام کے حقوق کو دبانے کا راستہ اپنایا تو یہ تقسیم کو اور بڑھا دے گا۔ لیکن اگر وہ عوام کی آواز سننے کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ پاکستان کی جمہوری تاریخ کے لیے ایک اہم قدم ہوگا۔

یہ صورتحال ایک آئینہ ہے جو پاکستان کے جمہوری نظام کی حقیقت دکھا رہا ہے۔ کیا پاکستان اس بحران سے مضبوط ہو کر نکلے گا یا مزید تقسیم کا شکار ہوگا؟ یہ سوال ہر پاکستانی کے ذہن میں ہے۔

حالات کچھ بھی ہوں، ایک بات واضح ہے۔ عوام کو خاموش کرنا کبھی بھی ایک مستقل حل نہیں ہو سکتا۔ جب عوام جاگ جاتے ہیں تو ان کی آواز دبانا ممکن نہیں رہتا اور آج کے مظاہرے یہ دکھا رہے ہیں کہ پاکستان کے عوام جاگ چکے ہیں۔

Check Also

Taunsa Barrage

By Zafar Iqbal Wattoo