Taunsa Barrage
تونسہ بیراج
تونسہ بیراج پر کل شام دبایا جانے والا بٹن دوسال پہلے بھی دب سکتا تھا تاکہ سوئی کے علاقے کے غریب کسان معاشی مسائل کا شکار نہ ہوتے اور غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر دوبارہ نقل مکانی پر مجبور نہ ہوتے۔
بٹن دبتے ہی ڈھائی سال سے مُردہ کچھی کینال کے اندر دریائی پانی آبِ حیات بن کر بہنے لگا۔ سات آٹھ ماہ کی کوشش کے بعد آخرِکار وزیرِاعلیٰ بلوچستان نے بھی اپنے آبائی علاقے کے لیے یہ فلاحی منصوبہ مکمل کرالیا۔
کچھی کینال فیز 1 کے سیلاب سے متاثرہ حصوں کی مرمت واپڈا نے دو ماہ سے کم عرصہ میں مکمل کرکے اس میں تونسہ بیراج سے پانی چھوڑ دیا جس کے باقاعدہ افتتاح پر گزشتہ کل وزیراعظم نے تونسہ بیراج پر کینال کے گیٹ کا بٹن دباکراسے کھول دیا۔
2017 میں کچھی کینال کے فیز 1 کے مکمل ہونے سے 373 کلومیٹر لمبائی میں نہر مکمل ہوکر پنجاب سے سوئی پہنچ گئی تھی اور اس سے 72,000 ایکڑ رقبہ سیراب کیا جاسکتا تھا۔
زرعی آب پاشی سے بھی زیادہ بڑی ضرورت اس علاقے میں نہری پانی کا بلا روک ٹوک پہنچنا تھا جس سے علاقے کے لوگوں کو نہ صرف پینے کا پانی ملا بلکہ پہلی دفعہ ان کے جانوروں نے بھی سیر ہوکر پانی پیا۔
سوئی کے علاقے میں کچھی کینال سے زراعت شروع ہوئی تو لوگوں کی علاقے سے نقل مکانی بھی بند ہوئی۔ مقامی کسانوں نے زمینیں آباد کیں اور 2022 کے سیلاب سے پہلے کے سیزن میں اس نہر کے علاقوں سے دس لاکھ من گندم اور ایک لاکھ من تک سرسوں پیدا ہوئی تھی۔
تاہم سنہ 2022 کے سیلاب نے اس نہر میں کئی جگہ پر شگاف ڈالے جس کے بعد نہر میں پانی کی فراہمی رُک گئی۔ یہ شگاف دوسال تک مکمل طور پر پُر نہیں کئے جا سکے جس کی وجہ سے سوئی کے علاقے کی غریب کسان نہ صرف معاشی مسائل کا شکار ہوئے بلکہ غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر دوبارہ نقل مکانی پر مجبور تھے۔
سوئی سے نکلنے والی قدرتی گیس کا پورے ملک نے دہائیوں تک بے دریغ استعمال کیا حتٰی کہ پاکستان میں قدرتی گیس کا نام ہی سوئی گیس پڑ گیا۔ سوئی گیس سے پورے پاکستان کے گھروں کے چولہے جلے اور فیکٹریاں چلیں مگر سوئی کے علاقے کی اپنی قسمت نہ بدل سکی۔
کچھی کینال کا منصوبہ بلاشبہ اس علاقے کو پاکستانی عوام کی طرف سے علاقے کی قدرتی گیس استعمال کرنے کے بدلے میں ایک بہت زبردست تحفہ تھا۔
تاہم اس نہر کے پہلے مرحلے کی تعمیر میں انتہائی تاخیر ہونے دوسرے مرحلے کے جلد شروع نہ ہونے سے کچھی کا پورا علاقہ نہر کے اصل فوائد سے ابھی تک محروم ہے جوکہ 50 سال پہلے حاصل کیے جاسکتے تھے۔ اس نہر میں پانی چلتے رہنا اس علاقے کے لوگوں کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ہر ممکن کوشش کریں کہ اس نہر کے دوسرے مرحلے پر کام جلد از جلد مکمل ہو۔