Lebanon, Arab Ki Wahid Esaayi Riyasat
لبنان، عرب کی واحد عیسائی ریاست
شائد ہم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ آج کا موجودہ لبنان بحیرہ روم کے ساحل پر مغربی ایشیا کا ایک چھوٹا سا ملک اصلا عرب کی واحد مسیحی ریاست ہے، لبنان زمین کی ایک چھوٹی سی پٹی جس کی لمبائی تقریباً 250 کلومیٹر اور چوڑی 60 کلومیٹر سے زیادہ نہیں، اونچے پہاڑوں سے بھری ہوئی، عرب اسلامی دنیا کے مرکز میں اور مشرقی بحیرہ روم کے اندر ایک ماؤنٹ لبنان پہاڑی سلسلہ بھی ہے، جو مرونائی عیسائی ثقافت اور روحانیت کی شعاعوں کا مرکز اور مرکز ہونے کے لیے مشہور ہے، جو خود لبنانی شناخت کا محور ہے۔
اصلا لبنان ایک قدیم ملک ہے، جس کا تذکرہ بائبل میں ملتا ہے، اس کی وادی بکا سمندر کے قریب ایک شاندار پہاڑی علاقے کے طور پر مشہور ہے، یہ سنہء 1975 تک وہی لبنان تھا جو تاریخ میں بلاد الشام کی ثقافت سمجھا جاتا تھا۔ اس خطے کا موسم، ثقافت یہاں کے کھانے، ان کی مہمان نوازی، علم دوستی اور علمی مرکز، مہمان اور ان کی متنوع ثقافت کے رنگ جسے پوری تاریخ بلاد الشام کے نام سے جانتی ہے۔ جزائر عرب میں سنہء 1970 کی دہائی تک علاوہ اسرائیل کے یہ عرب خطے کا واحد غیر مسلم اکثریتی ملک تھا، اور یہ اس خطے کی دوسری جمہوریت تھی، جسے اس کی جمہوریت کی وجہ سے ہی بالآخر ایک عیسائی ریاست ایک مسلم ریاست میں ڈھل گئی۔
لبنان کے دارلحکومت بیروت کو مشرق کا پیرس اور سوئٹزلینڈ بھی کہا جاتا تھا، یہ وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ہمیشہ سے ایک عظیم تاریخی شہر تھا کیونکہ لبنان بلاد الشام کا ایک حصہ ہے، جو افریقہ، ایشیا اور یورپ کو جوڑتا ہے اور اس لیے یہ ہمیشہ تین براعظموں کے تجارتی سنگم پر رہا ہے، جو اس خطے کی حیثیت کو وسائل سے بھرپور اور متنوع بناتا ہے۔ اس کا ثقافتی تنوع بھی افسانوی تھا۔ یہ میرونائٹ عیسائیوں کا واحد مقام تھا، جو مشرقی شامی عیسائیت کی ایک قدیم شاخ تھی جسے انطاکیہ (جو اب ترکی میں مکمل طور پر مسلم شہر ہے) میں اپنے اصل حیثیت سے مٹا دیا گیا تھا۔ لبنان ایشیا میں چھوڑے گئے یونانی کیتھولک کا بھی آخری گھر تھا۔ آج دنیا میں یہ بہت کم ہیں اور اس مکتبہ فکر کی واحد ثقافت جس کی یونانی آرتھوڈوکس سے شناخت ہے۔ ورنہ ایشیا میں سلطنت عثمانی میں ترکی کی طرف سے ان کو تقریبا ختم کردیا گیا تھا۔
پھر سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد لبنان اور شام فرانس کی نوآبادیات بن گئے جو ایک متحدہ کمانڈ کے ساتھ ایک ہی ملک رہے، لیکن سنہء 1944 تک ڈی کالونائزیشن کا دور شروع ہو چکا تھا اور فرانسیسی ملک چھوڑنے کی تیاری کر رہے تھے، تو ان کو آزادی کی بنیاد پر شام کے سابق فرانسیسی مینڈیٹ کو دو آزاد ممالک میں تقسیم کر دیا گیا، جس میں لبنان عیسائی اکثریتی ملک بنا اور شام جو مسلم اکثریتی ملک مان لیا گیا، لبنان میں علیحیدہ ریاست کا آئینی ڈھانچہ جمہوریت کی بنیاد پر بنا، اورشام میں آمریت ہی رہی، لبنان میں سنہء 1943 کے غیر تحریری قومی معاہدے کے تحت ضروری ہے کہ اس کا صدر میرونائٹ عیسائی، اس کا پارلیمنٹ کا اسپیکر شیعہ مسلمان، اس کا وزیراعظم سنی مسلمان، اور پارلیمنٹ کا ڈپٹی اسپیکر اور نائب وزیراعظم یونانی آرتھوڈوکس ہونگے، یوں لبنان کا آزاد ہونا تھا کہ ہمسایہ ممالک جیسے شام و فلسطین اس پر اکثر حملہ آور کیفیت میں ہی رہے، اور یہاں کی آبادی کا تناسب تبدیل ہوتا رہا۔
یہاں عظیم انسانی بحران، جیسے کہ خانہ جنگی، یا ڈوبتی ہوئی معیشت کے مظاہر شروع ہوئے، خانہ جنگی ناقابل بیان مظالم اور عظیم انسانی المیے کے ساتھ بڑی تعداد میں لوگوں کو بے گھر کرتی رہی۔ آج لبنان کے مقامی دس فیصد لبنانی مسیحی اس وقت یورپ و امریکا میں ہجرت کرکے جاچکے ہیں۔
سنہء 1970 اور سنہء 1971 میں جہاں لبنان ایک مسیحی اکثریتی ملک تھا، وہاں اردن و شام کی کثیر مسلم ابادی کا تسلسل سے لبنان میں نقل مکانی ہونا جاری رہا، یوں ہر گئے برس کے ساتھ یہ خطے کا واحد عیسائی اکثریتی ملک اپنی مسیحی آبادی کی شرح تیزی سے تبدیل کرنے لگا۔
لبنان میں سنہء 1971 تک عیسائیوں کی تعداد بمشکل 52-54 فیصد تھی، سلطنت عثمانیہ کے خلاف تحاریک عرب قومیت ثقافت و لسان کا تحفظ بھی اس خطے میں سب سے زیادہ محرک رہا تھا، اور اسی وقت لیفٹسٹ آئیڈیالوجی بھی خطہ عرب میں سے زیادہ یہی پر متحرک ہوئی، یہ ایسا ملک جو ابھی حال ہی میں نازی فاشسٹ اتحاد کی طرف سے شروع کی گئی عالمی جنگ سے نجات پایا تھا وہاں پر باقاعدہ مسلمانوں کی شیعہ و سنی عسکریت پسند تنظیموں کو بھی پنپنے کا موقع ملا اور باقاعدہ آس پاس کی ریاستوں کی جانب سے اس خطے میں ان کی آبیاری کی گئی۔
شیعہ اور سنی تنظیموں نے وہاں پر مسلمانوں کو کلیدی سرکاری اداروں میں گھسنے اور کنٹرول حاصل کرنے کے لیے تحریک شروع کرنے کی باقاعدہ ترغیب دی۔ اور یہ ترغیب باقاعدہ لفٹیسٹ گروہوں کی شکل میں دی گئی، یہاں کے مقامی مسیحی ان کے مقابل دائیں بازو کا دھڑا بن گئے۔
چند لاکھ الگ تھلگ لبنانی عیسائیوں کی ایک "دائیں بازو" عیسائی "اکثریت" کو "بائیں بازو" کے "مظلوم" مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے خلاف "ظالم" کے طور پر پیش کیا گیا، عالمی میڈیا نے لیفٹسٹ حلقوں کے لئے لبنان کی عیسائی "اکثریت" کو شیطانیت کا نشانہ بتایا گیا، انہیں فاشسٹ قرار دیا گیا جو بائیں بازو کی مسلم اقلیت کے حقوق غصب کر رہے تھے۔ اس دوران لبنان کے قدیم عیسائی شہر جیسے سیڈون اور قدم tyre اور حالیہ صور شہر وغیرہ آبادی کے اعتبار سے مکمل طور پر اسلامائز ہو چکے تھے۔ مسلمانوں کی تعداد اب بڑھ کر مجموعی طور پر 44 فیصد تک پہنچ چکی تھی۔
لیکن "بائیں بازو" کے لیبل کے تحت لبنان میں مسلم عسکریت پسند جماعتوں کے لوگ بائیں بازو کے ساتھ کچھ کیے بغیر "لیفٹسٹ" بن گئے۔ سچ یہ تھا کہ لبنان میں 1971 تک عیسائیوں کی تعداد بمشکل 52-54 فیصد تھی اور لبنان میں تسلسل سے مسلمان پناہ گزینوں کی آمد جاری رہی یعنی مشرق وسطی میں واحد لبنان میں عیسائیوں کی تعداد صرف چند لاکھ تھی اور اس پاس یہ مسلمان ریاستوں میں گھرا ہوا تھا۔
سن پناہ گزینوں کی آمد کے بعد پناہ گزینوں کی جانب سے ہی خانہ جنگی شروع کی گئی، جبکہ ایک اور دعوی یہ بھی ہے کہ لبنان کی خانہ جنگی کو عیسائیوں نے شروع کیا تھا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مقامی پناہ گزینوں کی جانب سے حملے اس قدر کثرت سے ہو چکے تھے کہ عیسائیوں کے پاس جو بچا تھا اس کا دفاع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ لبنان میں شہر کے بعد شہر عیسائیوں سے خالی ہو گئے، انہوں نے اپنے علاقوں کا مسلح دفاع شروع کر دیا۔ جلد ہی ان پر ایک مکمل خانہ جنگی چھڑ گئی۔ عیسائیوں کو عسکری، جغرافیائی اور نظریاتی طور پر الگ تھلگ کر دیا گیا، ویسے عالمی میڈیا اب بھی انہیں جارح کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
لبنان کے مسلمان عالمی سطح پر تمام اسلامی ممالک کے ساتھ جڑے ہونے کے ساتھ اور جغرافیائی طور پر ایک مسلم ملک شام کے ساتھ جڑے ہوئے تھے، جو انہیں اسلحہ، عسکری افرادی قوت، اور مسلمان پناہ گزین فراہم کرنے کے لیے تیار تھا تاکہ توازن کو وہاں مسلمان اکثریتی آبادی کے حق میں مزید جھکایا جا سکے۔ خانہ جنگی 1991 تک دس سال جاری رہی اور اس کے ختم ہوتے ہی حالات پلٹ چکے تھے اور مسلمان اکثریت میں اور عیسائی اقلیت میں تبدیل ہو چکے تھے۔
ہر سال عیسائیوں کے امریکہ کی طرف ہجرت کے ساتھ صورتحال مزید تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ لبنان میں اب 63% مسلم اکثریت ہے موجودہ مسلمان پناہ گزینوں کے بحران کے بعد مزید اضافہ کیا ہے۔ ہر سال عیسائی جنوبی امریکہ کی طرف بھاگ رہے ہیں، جنہیں ان کے لیے پناہ گاہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ لبنا میں اس وقت حزب اللہ ایک سیاسی و عسکری بڑی قوت بن چکی یے۔ ویسے شائد یہ بھی کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ لبنان کی سرکاری فوج کی تنخواہیں امریکا اڈا کرتا ہے۔ اور آج عرب دنیا میں لبنان ایک مسلم ریاست سمجھی جاتی ہے۔
نوٹ: یہ فقط تاریخی حقائق ہیں، کسی کو اختلاف ہو تو اصولی طور پر رہنمائی کردے۔