1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asim Anwar/
  4. Andher Nagri

Andher Nagri

اندھیر نگری

پاکستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ یہ جملہ ہم یعنی پاکستانی پچھلے 75 پچھتر سال سے سنتے آ رہے ہیں۔ وقت کہ ساتھ ساتھ یہ جملہ ہمارے سیاست دانوں اور صحافیوں کا تکیہ کلام بن گیا۔ لیکن آج واقعی پاکستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ پاکستان کی سیاست، معیشت اور معاشرہ سب کچھ ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ سیاست جس کی بنیاد رواداری اور برداشت پر ہے، ہماری سیاست سے اُس کا نام و نشان مٹتا جا رہا ہے۔ معیشت ڈوبتی جا رہی ہے۔ اور معاشرہ؟ معاشرہ نام کی تو کوئی چیز ہی باقی نہیں رہی معمولی باتوں پر لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے ہیں۔ اور عام لوگوں کے لئے یہ ایک نارمل سی بات بنتی جا رہی ہے۔

یہاں الفاظ کی چناؤ میں تھوڑی سی غلطی آپ کی جان لے سکتی ہے۔ میں کوئی مبالغہ نہیں کر رہا بلکے یہ سچ ہے اور میرے اِس سچ کا ثبوت مردان میں توہین مذہب کے الزام میں تشدد کے ذریعے ہلاک کیا گیا ایک شخص ہے۔ جس کو الفاظ کے معمولی سی اونچ نیچ پر اس قدر بدترین تشدد کے ذریعے قتل کیا گیا کہ انسانیت تو کیا حیوانیت تک کو شرم آ جائے۔ افسوس اِس بات کا نہیں ہے کہ ہم اس حال تک کیوں پہنچے کیونکہ اِس حال تک پہنچنے میں سب نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ افسوس مگر اِس بات کا ہے کہ ہم مسلسل اس گرداب میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ خدا جانے اِس نہ ختم ہونے والی بے وقوفیوں کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اور اس کا حل کیا ہوگا؟

9 مئی کو سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو رینجرز نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اندر سے گرفتار کر لیا تو ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے اور عمران خان کی اس گرفتاری کو تحریک انصاف کے مظاہرین نے فوج سے جوڑا جس کے بعد یہ پُرامن احتجاج تشدد میں بدل گیا اور مظاہرین نے فوجی مقامات پر حملے اور توڑ پھوڑ کرنی شروع کی۔ جس سے پوری ریاستی مشینری حرکت میں آئی۔

پولیس کے جانب سے لوگوں پر سیدھی فائرنگ کی گئی، ناقابل بیان شیلنگ اور لوگوں پر ڈنڈے برسائے اس کے ساتھ ساتھ پولیس نے لوگوں کو بھی گرفتار کرنا شروع کیا اور یہ گرفتاریاں بنا کسی مجرم اور معصوم کو دیکھ کر کی گئی۔ پولیس کو بس جو بھی ہاتھ آیا بنا کچھ سنے اور سمجھے اُس کو گرفتار کرلیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے پولیس کو ایک مخصوص نمبر کی گرفتاریاں کرنے کا ٹاسک ملا ہو اور وہ بنا کسی کا احساس کیے کہ یہ بچہ ہے، جوان ہے، یا بوڑھا ہے اس کو اِس پُرتشدد مظاہرے میں کوئی کردار ہے بھی یا نہیں۔ بس جو بھی ہاتھ لگا اُس کو اُٹھا کر سلاخوں کے پیچھے پھینک دیا۔

ایسے ہی ایک کہانی پشاور کے ایک علاقے غریب آباد کے رہائشی مناسب خان کی ہے جس کے چودہ سالہ حافظ قرآن بیٹے کو پشاور پولیس نے مدرسے سے واپس گھر آتے ہوئے گرفتار کر لیا۔ چودہ سال کے ایک معصوم حافظ قرآن اور آٹھویں کلاس کے طالبعلم کو صرف اس بات پر گرفتار کر لیا کہ وہ سڑک پر چلتے پی ٹی آئی کے مظاہرین کے ساتھ ساتھ چلتا رہا جس طرح بچے اکثر تماشہ کرنے کے غرض سے کرتے ہیں۔

وہ اِس مظاہرے میں ہرگز شریک نہیں تھا، بلکہ ایک تماشائی کے طور پر ان مظاہرین کے ساتھ چل رہا تھا۔ اور پولیس نے اپنا سارا غصہ اس بچے کو گرفتار کرنے پر نکال لیا۔ پولیس نے جو کیا اس کی تو کوئی جسٹیفیکیشن (justification) نہیں ہے۔ انہوں نے تو جو کیا سو کیا لیکن تحریک انصاف والوں نے بھی اُس خاندان سے کچھ کم نہیں کیا۔ اُس معصوم بچے کے نام پر خوب سیاست کی اور کر رہے ہیں۔

عدالت میں اپنے حقِ دفاع میں اس معصوم بچے کو آگے کر دیتے ہیں اور پھر اپنے ان شر پسندوں کی ضمانتیں کراتے ہیں جو واقعی میں اس شر پسندی میں ملوث ہے۔ جو پشاور میں پوری تخریب کاری کے ذمہ دار ہیں۔ وہ تو عدالتوں سے ضمانتیں لے کر اور وکیلوں کو بڑی بڑی فیس ادا کرکے اپنا کام نکال رہے ہیں مگر اُس بے قصور کا کوئی نہیں جس کا اس پوری تخریب کاری یا توڑ پھوڑ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے مگر پھر بھی پچھلے ایک ہفتے سے زیادہ عرصے سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔

بات یہ ہے کہ جس نے کوئی جرم کیا اُس کو اس کی سزا ملنی چاہئے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں مگر کم از کم اس معصوم بچے کو تو رہا کریں جس کا اس پر تشدد ہجوم سے کوئی تعلق بھی نہیں بس صرف اس بات پر پولیس نے گرفتار کر لیا کہ وہ راہ چلتے مظاہرین کے قریب کیا کر رہا ہے اور سب سے بڑھ کر ظلم یہ کہ پولیس نہ تو پولیس کو اس بات پر کوئی شرمندگی ہے اور نہ ہی تحریک انصاف کے رہنماؤں کو جن کی وجہ سے ایک بچہ پتہ نہیں کس اذیت میں اپنا وقت گزار رہا ہے۔

فوج ملٹری کورٹ بنائے یا سویلین کورٹس میں اپنا کیس لڑنا چاہتے ہیں جو کرنا چاہتے ہیں کرے لیکن کم از کم اِن جیسے بے گناہوں کے ساتھ تو انصاف کریں۔ جس کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں مگر کسی غلط فہمی کی وجہ سے جیلوں میں اذیت کی زندگی گزار رہے ہیں۔

Check Also

Zid Ke Shikar Imran Khan

By Javed Chaudhry