Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asad Ur Rehman
  4. Ye Mulla Faqt Kharabi Hain

Ye Mulla Faqt Kharabi Hain

یہ مُلّا فقط خرابی ہیں

مذہب کا انسانی معاشرے میں کردار انسانی زندگی میں فلاح، ترقی، استحکام اور بہتری لانے کا ذریعہ ہے۔ چونکہ انسان ایک سماجی حیوان ہے، ایک سماج مختلف عقائد پر مشتمل انسانوں کا معاشرہ ہوتا ہے۔ اس لئے سماج ایسے قوانین اور اصولوں پر مزین ہو جن پر تمام مذاہب کا اجماع ہو۔ جدید ریاستی طرز حکمرانی میں آئین جیسا سماجی معاہدے کا ہونا ناگزیر ہے۔ کسی بھی ریاست میں آئین جیسے عمرانی معاہدے کے تحفط و ضمانت کی خاطر باقاعدہ طرز حکومت درکار ہے۔ جو آئین میں وضع اصول و ضوابط پر عمل درآمد یقینی بنائے۔

طرز حکومت اپنی حیثیت میں ایک باقاعدہ سیاسی عمل ہے، جس میں انتخاب سے لے کر عوام کی فلاح و بہبود کے لیے جز وقتی اور کل وقتی فیصلے شامل ہوتے ہیں۔ سیاسی عمل میں شریک ہونا ہر شہری کا بنیادی و آئینی حق ہے اس عمل کے ذریعے ہی وہ حکومت میں شراکت داری کا دعویدار ہو سکتا ہے۔ چونکہ کسی بھی ملک کا آئین اس ریاست کے تمام شہریوں کو مذہبی، سماجی و آئینی تحفظ فراہم کرتا ہے اس کے بعد کسی بھی مذہبی و سیاسی گروہ کو ریاست کے اندر نئی ریاست کھڑی کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔

مگر ترقی پذیر ممالک میں مذہب، قوم پرستی اور سیاست کے نام پر لٹھ بردار گروہوں کا سیاسی عمل کا حصہ بن کر اسی نظام کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا آئینی حق سمجھا جاتا ہے۔ جس سے نہ صرف ریاستی امور کا موجودہ کا استحقاق مجروح ہوتا ہے بلکہ شہریوں کے سیاسی عمل کا مذہب اور قوم پرستی کے نام پر استحصال بھی کیا جاتا ہے۔

"جدا ہوں دیں سیاست سے"

"تو رہ جاتی ہے چنگیزی"۔

اس نظریے کا لبادہ اوڑھ کر مذہبی ٹھیکیداروں نے سیاست کا علم بلند کیا۔ کبھی خلافت کی بحالی کی تحریک، کبھی نظام مصطفیﷺ کا نفاذ تو کبھی شریعت کا نفاذ کی آڑ میں انتشار و فساد کو دعوت دی۔ جب بھی کوئی گھٹیا سوچ، فاسق نیت، ذاتی مفاد کو مقدم جان کر سیاسی اسٹیج یا منبر پر براجمان ہوتا ہے تو وہاں سے "قال قال رسول اللہﷺ" کی بجائے کافر، مشرک، گستاخ، یہودی، اور قادیانی کی صدائیں ہی بلند ہوں گی۔

عقل و شعور سے عاری انسان کسی گروہ کا حصہ بنتا ہے تو وہ اس گروہ کی بدنامی اور بربادی کے تابوت میں کیل ٹھونک دیتا ہے۔ ہمارے ملک کے مدارس کا مجموعی نظام جدید نظام تعلیم اور طریقہ کار سے نابلد ہے۔ جدید دنیا میں رائج تعلیمی و سماج سے دوری کے نتیجہ میں ان مدرسوں میں پڑھنے والے بچوں کی ذہنی نشوونما بارہ سو سال قبل کے مسائل میں الجھی ہوئی ہے۔

جس کے نتیجہ میں کبھی لاؤڈ اسپیکر شیطان کا آلہ کار قرار پاتا ہے تو کبھی ٹی وی سکرین پر آنے والوں کو ابلیس کے حواری قرار دے دیا جاتا تھا۔ مگر پھر 21 وی صدی کی پہلی دہائی کے اختتام کے بعد تمام مذہبی ٹھیکیداروں نے ٹی وی سے لے کر سماجی میڈیا تک کو قبول کر کے وہاں تبلیغ کا آغاز کر دیا۔ جس کے نتیجہ میں جو قباحتیں، لغو افعال و اقوال صرف ایک مخصوص علاقے کی سطح تک پروان چڑھتے تو وہ علاقوں سے نکل کر قومی سطح پر اثرات دکھانے لگے۔

سیاسی و سماجی نظریات سے اختلافات کی صورت میں کسی بھی شہری کو زیادہ سے زیادہ غداری کی سند عطا ہوتی ہے اور سزا کے طور پر جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے یا جلا وطنی مقدر بنتی ہے۔ مگر ان مذہبی ٹھیکیداروں کے نظریات سے اختلاف کی صورت میں آپ کی کم سے کم سزا آپ کے والدین کے نکاح کی منسوخی (آپ کو حرامی النسل کہا جائے گا) اور زیادہ سے زیادہ سزا موت ہے۔

ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے ملائیت کو بطور پیشہ بے نقاب کرتے ہوئے کہا:

"دین سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے، مولوی بطور پیشہ اس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ "

ہمیں بطور ذمہ دار شہری زندگی کے ہر شعبے کی مانند دین سیکھنے اور اس کی تبلیغ کے لیے اپنی نسل میں سے اعلیٰ اخلاق و کردار افراد کو ترغیب دینی ہو گی۔ کسی بھی خاندان ست نالائق و نکما فرد جب اس شعبے سے منسلک ہو گا تو اس کا نتیجہ انتشار، فساد اور اخلاقی گراؤٹ کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔

ابن حیدر نے ملا کی عکاسی شاندار لفظوں میں بیان کی ہے:

یہ عقل و خرد کے بیری ہیں

یہ سچی بات کے دشمن ہیں

یہ اہلِ مدرسہ اہلِ ہوس ہیں

یہ تو اخلاق کے دشمن ہیں

انہوں نے بیچا دینِ رسولﷺ

انہوں نے حق کی تجارت کی

انہوں نے بویا تخمِ فساد

انہوں نے قتل و غارت کی

یہ مُلّا شر کے عادی ہیں

یہ مُلّا صرف فسادی ہیں

یہ مُلّا جڑ ہر جھگڑے کی

یہ ہر فتنے کی چابی ہیں

یہ حسنِ لطیف سے عاری ہیں

یہ شعر و سخن سے غافل ہیں

یہ رقص کا مرتبہ کیا جانیں

یہ عقل و ہوش سے پیدل ہیں

مُلّا سے بہتر غافلِ دیں ہیں

مُلّا سے اچھے شرابی ہیں

مُلّا سے افضل چوپائے ہیں۔

Check Also

Hamzad

By Rao Manzar Hayat