Ustad Kaisa Hona Chahiye?
استاد کیسا ہونا چاہیے؟
5 اکتوبر عالمی سطح پر یومِ اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز یونیسکو نے 1994 میں کیا جس کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر اساتذہ کے حقوق، ذمہ داریوں اور ان کی ابتدائی تیاری اور مزید تعلیم، بھرتی، ملازمت، تدریس اور سیکھنے کے حالات کے معیارات کا تعین کرتا ہے۔
یہ اس بات کا جشن منانے کا دن ہے کہ اساتذہ کس طرح تعلیم کو تبدیل کر رہے ہیں بلکہ اس بات پر بھی غور کرنے کا ہے کہ انہیں اپنی صلاحیتوں اور پیشہ کو مکمل طور پر استعمال کرنے کے لیے اور عالمی سطح پر پیشے کے لیے آگے کے راستے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کا شمار تیسرے درجہ کے ترقیاتی ممالک میں ہوتا ہے۔ تیسرے درجہ کے ممالک صحت، تعلیم اور روزگار کے شعبوں میں درکار نتائج میں ناکامی کے باعث ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ ہونے سے قاصر ہیں۔
شعبہ تعلیم جو کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا بنیادی جزو ہوتا ہے اور ریاستی ڈھانچے میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتا ہے۔ دنیا میں تمام پسماندہ ممالک میں جو مشترک قدر پائی جائے گی وہ یہ کے ان کی ترجیحات میں جو سب سے نچلے درجے کے اقدامات ہوں گے وہ تعلیم و صحت سے منسلک ہوں گے۔ جسکا نتیجہ قومی بدحالی کی شکل میں موجود ہو گا۔
شعبہ تعلیم میں کے دو بنیادی جزو ہیں استاد اور طالبعلم۔ ان جزو کا باہمی میل جول اور ہدف کے تعاقب میں ٹھیک سمت کا تعین ہی اس شعبے کی بڑھوتری کی ضمانت ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم بطور استاد اور طالبعلم ابھی تک اپنی سمت اور منزل کے تعین میں ناکام ہیں۔
میں بطور منتظم شعبہ تدریس سے گزشتہ 5 سالوں سے منسلک ہوں میرے مشاہدے میں تعلیمی بحران اور بدحالی کی جو بنیادی وجہ ہے وہ ہمارے اساتذہ کا اپنی ذمہ داریوں کی سمت کے تعین میں پنہاں ہیں۔ اساتذہ ابھی تک طلباء میں سماجی، سیاسی و اقتصادی معاملات میں جدت، تنوع اور تحقیق کو فروغ دینے میں ناکام رہے ہیں۔
ایک بہترین استاد وہی کہلائے گا جو طالبعم کے لیے ایک سمت کا تعین کرے اور اس پر واضح کرے اس سمت میں کی جانے والے محنت، ہدف کے تعاقب میں زیادہ فائدہ مند رہے گی۔ ہمارے اساتذہ کو بطور استاد اپنی ذمہ داری کو قبول کرنا ہو گا۔
استاد طلباء میں ہمیشہ سیکھے ہوئے علم پر تحقیق کو فروغ دیتا ہے۔ جو علم استاد طلباء تک پہنچاتا ہے وہ ہمیشہ نامکمل ہوتا ہے، اس میں استاد کا مشاہداتی عکس موجود ہوتا ہے جو کہ ہمیشہ قابلِ اعتراض اور قابلِ سوال ہونا چاہیے۔ جب کوئی استاد اس نظریے اور جذبے کے ساتھ طلباء کو چیزیں سیکھائے گا تو طلباء کو ہمیشہ کسی بھی قسم کی معلومات، تاریخی حوالہ جات، مذہبی رسومات اور سماجی قوانین پر تحقیق کرنے اور ان میں موجود خامیوں کی نشاندہی کا موقع ملے گا۔
ہمارے اساتذہ کو تدریس اور کوچنگ کے فرق کو سمجھنا ہو گا۔ ایک استاد طالبعلم کے لیے بہترین نمونہ اسلیے ہوتا ہے کہ وہ طلباء کو نصابی یا طے شدہ ہدایات کے تناظر میں تدریس تک محدود نہیں رکھتا بلکہ وہ طلباء تک اپنے ذاتی مشاہدات کو منتقل کرتا ہے اور پھر ان کو اس پر سوال کرنے پر اکساتا ہے۔
جو شخص بطور استاد طلباء کو صرف نصابی معلومات تک محدود رکھتا ہے وہ استاد نہیں کوچ کہلاتا ہے۔ کیونکہ کوچنگ سے مراد پہلے سے طے شدہ اصول و ضوابط پر کاربند ہو کر اپنے فرائضِ سر انجام دیتے رہنا۔ کوچنگ میں ان اصولوں سے ہٹ کر سوال و جواب کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ کوچنگ کا مقصد صرف اور صرف ایک ہی کھونٹے کے گرد چکر لگانے والے سماجی حیوانات پیدا کرنا ہے۔
ایک شخص بحیثیت استاد ہر روز ایک نئے زاویے اور نئے انداز سے طلباء کو زندگی سے روشناس کرواتا ہے۔ نصابی معلومات استاد کے لیے صرف ایک سفر کے آغاز کا ایک مقام ہوتا ہے تاکہ طلباء کی عمر اور ذہنی نشوونما کو مدنظر رکھتے ہوئے ان تک معلومات پہنچائی جا سکیں۔ ایک بہترین استاد کا اپنے طلباء سے تعلق غیر نصابی معلومات کے تبادلے سے مضبوط ہوتا ہے۔
غیر نصابی طریقہ تدریس ہی تعین کرتا ہے کہ سماج کے لیے کیسا شہری تیار کیا جائے۔ ترقی یافتہ ممالک نے انہیں پالیسیوں کے بدولت اپنے معیار تدریس کو بہتر بنایا نتیجتا انہوں نے ہر شعبے میں ترقی کی اور جدید دور میں اپنا مقام پیدا کیا۔ کسی بھی ادوار میں خوشحال اور ترقی یافتہ اقوام کے نظام کا مطالعہ کریں تو یہی چیزیں مشترک نظر آئیں گی۔
ریاست اپنے شہریوں سے کیے گئے عمرانی معاہدے کے تحت ان کے تمام حقوق کی ضامن ہوتی ہے۔ یومِ اساتذہ ریاست کو ان ذمہ داریوں کے جائزہ لینے اور ان میں کوتاہیوں کو دور کرنے کا ایک موقع فراہم کرتا ہے۔ یومِ اساتذہ کے موقع پر ریاستی سطح پر تقریبات یا اشتہارات کی حد تک سلامی پیش کرنے سے مسائل کا حل ممکن نہیں۔ مسائل کا حل ان کی نشاندہی اور اسکے بعد ان کے تدارک میں مضمر ہے۔
یومِ اساتذہ کے موقع پر تمام اساتذہ اپنی ذمہ داریوں کا ازسرِ نو جائزہ لیں۔ ریاست اپنی ذمہ داری نصاب کی شکل میں ایک نقطہء آغاز فراہم کرنے سے مکمل کر چکی ہے۔ باقی یہ اساتذہ پر منحصر ہے کہ وہ اپنے طلباء کو اس نقطہء آغاز کے گرد چکر لگوائیں گے یا اس مقام پر کھڑے ہو کر طلباء کے لئے نئی سمت کا تعین کریں گے علاوہ ازیں طلباء کے اہداف کی نشاندہی بھی کریں گے۔ جب تک کسی قوم کے طلباء اپنے اہداف سے آگاہ نہیں ہوں گے، تب تک قوم تعلیمی شعبے میں اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو سکتی۔