Tanqeed Jugali Lafzan Di, Tash-heer Siyapa Lajjan Da
تنقید جگالی لفظاں دی، تشہیر سیاپا لجاں دا
سماجی میڈیا دن بدن ایک طاقت اور ناسور کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ طاقت ان لوگوں کے لیے جن کی آواز پہلے سسکیوں اور آہوں کے ساتھ مٹی تلے دبا دی جاتی تھی وہ آوازیں اب، توانا آوازیں بن کر اہلِ اقتدار کے ذہنوں پر ہتھوڑے برساتی ہے اور لاکھوں گواہ بناتی ہے ایک خالق ہوتے ہوئے ایک خاکی نے دوسرے خاکی پر خدائی کی۔
یہ ناسور ان لوگوں کے باعث ہے جن کا اوڑھنا بچھونا اور اپنی غلاظت کے اظہار یہ واحد ذریعہ ہے۔ اس جدت کہ آمد سے قبل بھی ظالم کا ظلم جاری تھا، کم عقلوں کی شعبدہ بازی عروج پر تھی، اخلاقی اقدار کی پامالی بھی ہوتی تھی مگر تب اسکو اتنی تشہیر میسر نہ تھی۔ نتیجتاً شر کا دائرہ کار محدود اور جز وقتی تھا۔ مگر اس سماجی میڈیائی ناسور کی بدولت اب ظالم، کم عقل، جاہل اور بد اخلاق شخصیات دن بدن نئے بچے جنم دے رہی ہے۔ جسکا عملی مظاہرہ آئے دن کسی نہ کسی اخلاقی و انسانی اقدار کی پامالی کے نتیجے میں نظر آتا ہے۔
گزشتہ روز لاہور کے نامی گرامی نجی سکول کے طلباء کی ایک منٹ پر محیط ویڈیو سماجی میڈیا پر وائرل ہوئی جس کے بعد سماجی میڈیا پر اخلاقی اقدار کی پامالی کو لے کر نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔ جس میں ایک جانب تو مجرم طلباء کو ان کے طاقتور اور مالدار ہونے کے زعم کے باعث، اس غیر اخلاقی حرکت کا ذمہ دار والدین کی تربیت کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب نجی سکول کے اساتدہ کی تربیت سوالیہ نشان بن رہی ہے۔
اول ہمیں ایک بات سمجھنا ہوگی کہ سکول کی سطح پر ہراسگی یا ذہنی و جسمانی زدوکوبی (Bully) بہت پرانا کلچر ہے۔ جس میں ہمیشہ کمزور انفراد یا گروپ کو طاقتور انفراد کی جانب سے ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم میں سے بیشتر بچپن میں اس ظلم کا شکار ہوئے ہیں۔ اسلیے ہراساں کرنا تعلیمی اداروں میں فیشن اور روایت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
جامعات کی سطح پر ہر سال نئی داخل ہونے والے بچوں کی ریگنگ ایک خوش آمدیدی کلچر سمجھا جاتا ہے۔ بلاشبہ اس کے تدارک پر انتظامیہ اور تعلیمی اداروں نے بہت اقدامات کیے ہیں مگر سب بے سود ہیں۔ اسلیے میری ناقص رائے میں گزشتہ روز کا واقعہ سکول کی سطح پر ہراسگی کا وہ عملی مظاہرہ ہے جو صرف کیمرہ کی آنکھ میں محفوظ ہو کر عوام الناس تک پہنچا۔
دوم ہم بحیثیت قوم اخلاقی گراوٹ میں اس درجہ تک دھنس چکے ہیں کہ ہم بطور والدین و اساتذہ اس فہم کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔
صحتمند سماج کی بنیادی اخلاقی اقدار کیا ہیں؟ انسانی احساسات کی تذلیل سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ انسانی رویوں میں اعتدال اور محبت کیسے فروغ دی جا سکتی ہے؟
یہ وہ پہلو ہیں جں پر کسی بھی صورت میں کمپرومائز نہیں کیا جائے گا۔ سماج میں اخلاقی اقدار کی پامالی اور ذہنی پستی کا عمومآ مظاہرہ طاقٹور اور سرمایہ دار طبقے کی جانب سے دیکھنے میں آیا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ Survival of The Fittest کا اصول ہے۔
نفریڈرک طشے نے ایک موقع پر والدین کو تربیت کا سنہری اصول فراہم کیا تھا: "ایک وجود کو پیدا کرنے سے قبل تم اپنے وجود کو ایسے سنوارو کہ تمہارا بچہ صرف تمہاری فطری جبلت کا اظہار اور تنہائی دور کرنے کا سہارا نہ رہے۔ نہ ہی تم اس سے اپنی شخصیت کے خلا کو پُر کرنے کا کام لو۔ ایک باپ کا یہ کارنامہ نہیں کہ وہ اپنے جیسا انسان پیدا کر لے بلکہ اسکو چاہیے وہ ایسا انسان پیدا کرے جو عظیم اور قیمتی ہو"۔
افسوس صد افسوس ہم بطور والدین سماج میں ایسے وجود تخلیق اور تشکیل دے رہے ہیں جن کا واحد مقصد ہماری وراثت اور شخصیات کو دوام بخشنا ہے۔ ان وجود کا بطور نسلِ انسانی سماج میں کیا کردار ہوگا یا ہونا چاہئے یہ ہماری ترجیحات کا حصہ نہ کبھی تھا اور نہ کبھی ہوگا۔ نتیجتاً ہم آئے روز کبھی کینولی کیفے اور سکارزڈیل سکول جیسے واقعات پر تف کرتے چلے جائیں گے۔
محترم جمشید علوی صاحب نے ایسے واقعات کے نتیجے میں ایک خوفناک امر کی نشاندہی اس انداز سے کی تھی: "ہر شخص خود کو معزز ثابت کرنے کے لیے دولت سرمایہ کی اچھل کود میں شامل ہو چکا ہے وہ مذہبی اعتبار سے اور معاشرتی معیار کے لحاظ سے خود کو ایسے خاندانوں کی قربت کا حصول چاہتا ہے جس سے اس کی احساس کمتری کو دبایا جا سکے۔
اس لیے وہ ایسے خاندان جو سیاسی و مذہبی اثر رسوخ رکھتے ہوں خود کو ان کا تابعدار ثابت کرنے میں جت جاتا ہے۔ اس کی آنا بری طرح مجروح ہوتی ہے لیکن کیوں کہ وہ اس عمل سے بار بار گزرتا ہے، ایسے خاندانوں کی وکالت خود پر فرض کر لیتا ہے لہذا اس آنا کی مجروح ہونے کا احساس تک ختم ہو جاتا ہے۔
وہ وفادار کتے کی طرح ایسے خاندان کی وفاداری پر معمور ہوتا جاتا ہے کہ اس خاندان کی عزت کو خود عزت اور اس کی تذلیل کو خود کی تذلیل سمجھتا ہے۔ کیوں کہ وہ خود نفسیاتی طور انہی معزز ین میں شمار کر رہا ہوتا ہے"۔
تازہ ترین پیشرفت کے مطابق اس غیر اخلاقی عمل میں شریک طلباء کو عدالت سے ضمانت کا پروانہ مل گیا ہے، جس پر اخلاقیات و انصاف کے علمبردار اور سماج کے ٹھیکیدار واویلا کر رہے ہیں۔ تو عرض یہ ہے آج تک انصاف کی دیوی سے انصاف ملا کس کو ہے؟ ہمارا نظامِ عدل جن کندھوں کے سہارے قائم و دائم ہے۔ وہ جسم اندر سے کھوکھلے اور بدعنوانی کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں سکول میں کسی طالبعلم پر تشدد قانونی سے زیادہ اخلاقی پہلو کا معاملہ ہے۔
ہمیں مل کر یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم نے اپنے سماج کو، ایسی پست اقدار اور معاشرتی سطح پر ہی قبول کرنا ہے۔ جس میں ہر طاقتور اور سرمایہ دار تمام اخلاقی اقدار کو پامال کرنے کے بعد بھی معزز رہے گا اور کمزور کو بارہا یہ باور کروایا جائے گا کے اسکی حثیت پاؤں میں کچلے جانے والے کیڑے مکوڑے سے بھی بدتر ہے یا پھر اس ناسور کے خاتمے کے عملی اقدامات و اصلاحات کا تعین کرنا ہوگا۔
اسکا واحد حل یہی ہے کہ ایسے واقعات کے مرتکب افراد کو نہ صرف قرار واقعی سزا دی جائے بلکہ تمام سماجی فورم پر حوصلہ شکنی کی جائے۔ تعلیمی اداروں کا بنیادی فرض تعلیم و تربیت ہی تھا مگر افسوس کے ساتھ سرمایہ داری کے ناسور نے ان اداروں کو تربیت سے دور کر کے صرف تعلیم تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اس لیے تعلیمی اداروں میں نابالغ اذہان کے لیے اخلاقی اقدار و انسانی اقدار سے آگاہی کے متعلق تربیتی ورکشاپس کا انعقاد لازم و ملزوم قرار دیا جائے، تاکہ مستقبل میں سماج کو ذمہ دار اور باخلاق شہری میسر ہو سکیں۔