1.  Home
  2. Blog
  3. Asad Ur Rehman
  4. Jani Dushman Se Na Maloom Dushman Tak Ka Safar

Jani Dushman Se Na Maloom Dushman Tak Ka Safar

جانی دشمن سے نامعلوم دشمن تک کا سفر‎‎

ایچ بی او نے 2013 میں اسامہ بن لادن کی تلاش اور اسکے 1995 سے لے کر 2011 قتل تک کے تمام واقعات کو ڈاکومینٹری کی شکل میں عوام الناس کے لیے نشر کیا۔ اس ڈاکومینٹری کا بنیادی مقصد امریکی ایجنسی سی آئی اے کی جانب سے جاری اس 16 سالہ تلاش کی جدوجہد کو دستیاب مواد (تصاویر، تحاریر، بیانات اور ویڈیوز) کی شکل میں فلمانا اس عمل میں شریک تمام سی آئی اے تجزیہ کار و دفاعی ماہرین کی آراء کو سامنے رکھنا ہے۔ تاکہ امریکی عوام میں القاعدہ کی جانب سے جاری کردہ دہشت گردی و عالمِ کفر بالخصوص امریکہ کے خلاف جنگ کے پراپیگنڈے کا تدارک ممکن ہو سکے۔

اس ڈاکومینٹری میں سی آئی اے کی 5 رکنی زنانہ ماہرین کی آراء کو خصوصی طور پر فلمایا گیا جو کہ اسامہ بن لادن کی بطور دہشت گرد خطرہ قرار دینے اور 1995 سے اسکی تلاش پر کام کرنے والے اولین کرداروں میں سے تھی۔ علاوہ ازیں افغانستان میں 30 سال سے رپورٹنگ کرنے والے پیٹر برگن کے اسامہ بن لادن سے کئے گئے انٹرویوز بھی حصہ بنائے گئے۔

سنڈی سٹورر (سی آئی اے ماہر) کی جانب سے متعدد بار امریکی صدر کو اسامہ بن لادن کی جہادی تحریک اور اس خطرے سے آگاہ کیا گیا، مگر اسکو نظر انداز کیا جاتا رہا اور اسامہ بن لادن کو امریکہ یا دنیا کے لیے خطرہ سمجھنے کا تردد نہیں کیا گیا۔ مگر جب اسامہ بن لادن نے ویڈیو پیغام کے ذریعے 1990 امریکی ریاست کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تب جا کر امریکی انتظامیہ نے اسامہ بن لادن کو بطور خطرہ محسوس کیا اور اسکے تدارک کے لیے اقدامات کیے۔ مگر تب تک القاعدہ ایک مضبوط اور منظم دہشت گرد نیٹ ورک کا روپ دھار چکی تھی۔

اسامہ بن لادن نے 1989 میں القاعدہ کی داغ بیل ڈالی، جسکا مقصد بطور جہادی نیٹ ورک امریکہ مخالف کاروائیوں کا آغاز تھا۔ القاعدہ نے بین الاقوامی سطح پر کاروائی کا آغاز 1993 میں موگادیشو میں صومالی دہشت گردوں کی مدد سے امریکی ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنانے سے کیا۔ جس کے نتیجے میں 18 امریکی فوجی موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد انکی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی اور ان مناظر کو کیمرہ میں محفوظ کرنے کے بعد پوری دنیا میں نشر کیا گیا۔

اسکے بعد القاعدہ لاتعداد دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث رہی، 1993 میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر دھماکے، 1995 مصری صدر حسنی مبارک کا قتل، 1996 خوبار ٹاور دہران میں امریکی فوج کی رہائش پر حملہ، 1998 میں نیروبی کینیا امریکی سفارت خانے پر حملہ اور 2000 میں امریکی فوجی بیڑے پر حملہ یہ وہ تمام حملے تھے جو وقتاً فوقتاً القاعدہ نے امریکی تنصیبات اور امریکی ریاست پر جنگ مسلط کرنے کے بعد جاری رہے۔ 11 ستمبر 2001 میں امریکی سرزمین پر ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ اور اسکے نتیجے میں ہونے والی جانی و مالی نقصان کے بعد امریکی صدر نے اسامہ بن لادن کو سب سے بڑا اور اولین جانی دشمن قرار دے دیا۔

اس ڈاکومینٹری میں امریکی انتظامیہ کی جانب سے بروقت فیصلہ سازی کا فقدان، رکاوٹوں پر مبنی قانون سازی اور تحقیقاتی ایجنسی کی مسلسل رپورٹس کو نظر انداز کیے جانے کو 9/11 کی دہشت گردی کا مؤجب قرار دیا گیا۔ ایف بی آئی کے ماہرین نے اس دہشت گردی کی تمام ذمہ داری سی آئی اے پر تفویض کی۔ جن کے مطابق سی آئی اے کی بروقت معلومات نہ فراہم کرنے کے سبب دہشت گرد امریکہ میں داخل ہوئے اور انہوں نے اپنی سرگرمی کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

امریکی صدر جارج بش نے اپنی ایجنسی کی نااہلی و ناکامی کا بدلہ افغانستان پر حملے کی صورت میں پورا کیا۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف امریکہ کو 500 ارب ڈالر کی قیمت ادا کرنی پڑی بلکہ ایک کھرب ڈالر اپنی ریاست کی حفاظت پر الگ سے خرچ کرنا پڑا۔ اسکے علاوہ جانی نقصان جس میں بے گناہوں کا خون اور لوگوں کو گھروں سے بے دخل ہونے کا ذہنی عذاب الگ سے شامل ہے۔

2001 میں اسامہ بن لادن کی تلاش میں جاری ہونے والا جنگ کا جنون صرف افغانستان تک محدود نہ رہا بلکہ 2003 میں امریکہ نے اپنے پرانے دشمن صدام حسین کے ملک عراق پر ایک نام نہاد مفروضہ کی بنیاد پر حملہ کر دیا۔ عراق پر حملے سے قبل ہونے والے عوام سے خطاب پر بحث کے دوران سب لوگ ایران کو بطور ریاست امریکہ کا دشمن قرار دینے پر بضد تھے۔ مگر امریکی صدر اور جنگ کے دلدادہ سیکرٹری دفاع کا مؤقف تھا کہ عراق چونکہ ایران کا ہمسایہ ملک ہے اور مبینہ طور پر ویپن آف ماس ڈسٹرکشن کی اہلیت رکھتا ہے۔ اسلیے ایران سے قبل عراق پر حملہ ناگزیر ہے۔

عراق حملہ کے نتیجہ میں اسامہ بن لادن کی تلاش کا عمل قدرے سست و ماند پڑ گیا۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر کھڑے ہو کر اسامہ بن لادن کو سب سے بڑا دشمن قرار دینے والے جارج بش کی ترجیحات میں بھی اسامہ بن لادن کو پکڑنا اور 9/11 کے متاثرین کو انصاف دلانا شاید ممکن نہیں رہا۔ جبکہ اسامہ بن لادن کی جانب سے مسلسل ویڈیوز پیغامات کے ذریعے امریکہ کے خلاف جنگ کو جہاد عظیم قرار دینے کی ترغیب جاری رہی۔ 2006 میں بالآخر اسامہ بن لادن نے 9/11 حملے کی ذمہ داری بھی قبول کر لی۔

سنہ 2010 میں بالآخر گوانتا ناموبے کی جیل میں موجود قیدی الکویتی کی مدد سے اسامہ بن لادن تک رسائی کا سراغ میسر ہوتا ہے۔ جسکی پیروی کرتے سی آئی اے کو علم ہوتا ہے کہ اسامہ بن لادن 2002 سے تورا بورا پر حملوں کے بعد سے ایبٹ آباد میں مقیم ہے۔ سال بھر کی لگاتار جاسوسی اور تحقیق کے نتیجے میں یکم مئی 2011 کو موجودہ امریکی صدر باراک اوبامہ نیوی سیل کے ذریعے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن پر حملے کا حکم جاری کر دیتے ہیں۔

اس کامیاب مشن کے نتیجے میں امریکی ریاست اپنے سب سے بڑے دشمن یعنی اسامہ بن لادن کو قتل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور اپنی قوم سے خطاب میں امریکی صدر کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے 9/11 کے متاثرین کو انصاف دلوا دیا۔ اس ڈاکومینٹری کے اختتام پر تمام سی آئی اے و ایف بی آئی ماہرین نے اسامہ بن لادن کی موت کو ایک کامیابی اور سکون کے لمحے سے تشبیہ دی مگر ساتھ ہی اس خوف کا اظہار کیا کے اب اسامہ بن لادن کے بعد کون اس تنظیم کی سربراہی کرے گا اور وہ کس حد تک امریکہ کے لیے خطرے کا باعث ہوگا یہ ابھی نامعلوم ہے۔

امریکی ریاست کی 9/11 کے سانحے سے جاری اب تک کی نام نہاد دہشت گردی کی جنگ جو کہ ایک شخص کو دشمن کو قتل کرنے اور متاثرین کو انصاف دلانے سے شروع ہوئی تھی، اب پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ اس جنگ میں امریکہ نے صرف مالی و مختصر جانی (فوجیوں کی اموات) نقصان برداشت کیا۔ مگر اس جنگ کے نتیجہ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک حلیف ممالک اور جنگ سے متاثرہ ممالک و ہمسایہ ممالک، نہ ختم ہونے والی بے یقینی، بد امنی، دہشت گردی اور بے چینی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان ممالک کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے، سرحدوں سے ملحقہ علاقوں کے رہائشی لوگ دربدر خوار پھر رہے ہیں۔

امریکی ریاست و انتظامیہ کی اپنی ناکامی و نااہلی کے نتیجے میں جنم لینے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ 22 سال کے طویل عرصے سے جاری ہے۔ اسکا دائرہ کار امریکہ سے دور مشرقِ وسطیٰ، جنوب وسطی ایشیا اور یورپ کے ساحلوں تک پھیل چکا ہے۔ جیریمی سکاہل مشہور امریکی تحقیقاتی رپورٹر اپنی کتاب "بدنام جنگیں، دنیا بطور میدان جنگ (ڈرٹی وارز، دی ورلڈ از بیٹلفیلڈ)" میں امریکی ریاست کی دہشتگردی کے خلاف جنگ کو اچھے انداز سے بیان کرتا ہے۔ جیریمی لکھتا ہے۔

"یمن کے دیہات میں ڈرون حملوں سے مارا جانے والا کس حد تک امریکہ کے لیے خطرے کا باعث تھا امریکی انتظامیہ یہ سمجھانے سے قاصر ہے۔ 2001 میں امریکہ کا افغانستان میں طالبان پر حملہ اس حد تک قانونی و جائز تھا کے طالبان، القاعدہ اور امریکہ کے خلاف دہشتگردی کرنے والوں کو پناہ دے رہے ہیں۔ مگر عراق پر حملہ صرف امریکی صدر اور ان کی انتظامیہ کے جنگی جنوں کا نتیجہ ہے"۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز صرف دشمن نمبر ایک اسامہ بن لادن سے ہوا۔ مگر اسامہ بن لادن کے قتل ہونے اور اسکے بعد اب تک جاری اس جنگ میں امریکہ کے دشمنوں کی فہرست طویل ہو چکی ہے۔ امریکی انتظامیہ کی جانب سے انتہائی مطلوب دہشت گرد افراد کی فہرست طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔ نامعلوم دشمن کے خلاف اعلانِ جنگ پوری دنیا کو جنگ میں جھونک چکا ہے، تاحال دشمن طاقتور ہے اور ریاستیں کمزور اور یرغمال ہیں۔

جنگی جنون اور بے گناہ خون سے ہاتھ رنگنے کی صف میں اسامہ بن لادن بطور سربراہ جہادی تنظیم اور امریکی صدور بطور ریاستی سربراہان برابر کے شریک ہیں۔

Check Also

Adliya Aur Parliament Mein Barhti Talkhiyan

By Nusrat Javed