Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asad Ur Rehman
  4. Dehshat Gardi Ke Khilaf Jang

Dehshat Gardi Ke Khilaf Jang

دہشت گردی کے خلاف جنگ

ماہ ستمبر 2001 میں چلچلاتی دھوپ اور خوشگوار ہوا کے امتزاج کا حسین دن تھا۔ وسطی پنجاب کے دیہاتی علاقے میں موجود 07 سالہ کمسن بچہ اپنی بہن کے ہمراہ چچا کی سربراہی میں سکول سے واپس آ رہے تھے۔ بچہ سائیکل کی اگلی نشست پر موجود تھا جب کہ اس کی ایک سال بڑی بہن پچھلی نشست پر براجمان تھی۔

بچہ تواتر کے ساتھ اپنے چچا کو جو کہ سائیکل چلانے کے فرائض سر انجام دے رہے تھے، سکول کی سرگرمیوں کی تفصیلات سے آگاہ کر رہا تھا۔ جمعہ کا دن تعلیمی اداروں میں "بزم ادب" نامی تقریب کے انعقاد سے مزین کیا جاتا ہے، کیونکہ آج بابائے قوم محمد علی جناحؒ کا یوم وفات تھا جس کے تناظر میں سکول کے بچوں نے بزم ادب کی سرگرمی کی مدد سے مصروف اور پرجوش دن گزارا، بچہ بزم ادب کی ساری کاروائی اپنے چچا تک پہنچانے کے لیے انتہائی پرجوش تھا۔

نتیجتاََ بچے نے چچا سے سوال کیا۔

"آپ کو معلوم ہے آج کیا ہوا تھا؟"

چچا نے برجستہ جواب دیا۔

"ہاں میں نے سنا ہے امریکہ میں موجود ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر آج حملہ ہوا ہے اور کافی نقصان ہوا؟"

بچہ نے حیرانگی سے پوچھا۔

"یہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کیا چیز ہوتی ہے؟"

چچا نے بے دھیانی سے جواب دیا۔

"یہ بلند منزلہ عمارتوں پر مشتمل سینٹر کا نام ہے۔ "

بچہ چچا کے اس غیر متوقعہ رد عمل کے بعد خاموش ہو گیا۔

ماہ ستمبر 2001 افغان سرحد سے ملحقہ فاٹا کے زیر انتظام علاقے جنوبی وزیرستان میں آنے والے موسم سرما کی نوید ہوا میں موجود خنکی اور خشکی اپنے اثرات سے ظاہر ہو رہی تھی، 06 سالہ طارق عزیز اپنے گھر سے ملحقہ حصے میں بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ کھیل میں مشغول تھا، والدین آنے والے سال سے طارق کو سکول بھیجنے کی منصوبہ بندی میں مصروف تھے۔ کمسن بچہ اور اس کا خاندان دنیا میں ہونے والے واقعات سے بے خبر اپنے خاندان کے بہتر مستقبل کے زائچے بنانے میں مصروف تھے۔

11 ستمبر 2001 ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ہونے والے حملوں کے بعد دنیا یکسر تبدیل ہو چکی تھی اس تبدیلی کے واضح اثرات جنگ زدہ ممالک اور ان سے ملحقہ ممالک میں دیکھے جا سکتے تھے۔ 28 اکتوبر 2011 کو وسطی پنجاب کے دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والا 07 سالہ کمسن بچہ اب عمر کی سترہ بہاریں دیکھنے کے بعد شہر اقتدار اسلام آباد میں اپنے سنہری مستقبل کے خوابوں کی تکمیل کی خاطر شہر کی شہرت یافتہ جامعہ کے پروفیشنل شعبے میں داخلہ کامیاب بنا چکا تھا۔

ٹھیک اسی روز جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والا طارق عزیز شہر اقتدار اسلام آباد میں اپنے مستقبل کو محفوظ دیکھنے کی خواہش لے کر داخل ہوا تھا۔ 28 اکتوبر 2011 اسلام آباد میں منعقدہ جرگے میں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 06 سالہ کمسن بچہ جو اب 16 سالہ بالغ نوجوان کا روپ دھار چکا تھا کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ جہاں ملکی و غیر ملکی صحافیوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔

اس جرگے کا مقصد عوام اور دنیا تک "دہشت گردی" کے خلاف جنگ کی آڑ میں ہونے والی "دہشت گردی" کو بے نقاب کرنا تھا۔ علاوہ ازیں جرگے میں قبائلی عمائدین، متاثرین کے لواحقین، مقامی صحافی اور غیر ملکی صحافی بھی شریک تھے۔ طارق عزیز جرگے میں دنیا کو یہ بتانے آیا تھا وہ اور اس کا دوست فٹبال میچ کی تیاری کے لیے جا رہے تھے جب اس کے دوست کی گاڑی کو "ڈرون میزائل" کی مدد سے تباہ کر دیا گیا اور بعد ازاں امریکی حکام نے اس کاروائی کو ٹارگٹڈ آپریشن کا نام دے دیا۔

بد قسمتی سے دنیا کو دہشت گردی کی آڑ میں دہشت پھیلانے والی سازش سے بے نقاب کرنے والی آواز طارق عزیز کو چند ہفتوں بعد ایک اور ڈرون حملے میں شہید کر دیا جاتا ہے۔ طارق عزیز کی شہادت کے بعد ملکی و غیر ملکی سطح پر اس غیر ذمہ دارانہ کاروائیوں کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں اور امریکی ایجنسی سی آئی اے کی نام نہاد ملزمان و مجرمان کی ماورائے عدالت بذریعہ ڈرون میزائل ہلاکت کی پالیسی پر سخت تنقید کا آغاز ہو جاتا ہے۔

اس سے قبل 17 مارچ 2011 کو افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقہ دتہ میں مقامی جرگہ پر یکے بعد دیگرے دو میزائل داغے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں 30 سے زائد قبائلی سردار و عمائدین جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ کسی قبیلے یا علاقے میں 30 سربراہوں کا اچانک شہید ہو جانا بالکل ویسا ہی خلا پیدا کرتا ہے جیسے ایک فوجی یونٹ میں 30 سے زائد کیپٹن رینک کے افسران دشمن حملے میں شہید ہو جائیں۔ یہ حملہ جس مقام پر ہوا اس سے 10 کلومیٹر کی دوری پر پاکستانی فوج کی حفاظتی چوکی موجود تھی۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ افغانستان سے ملحقہ افغان سرحدی علاقوں پر دہشت گردی بن کر نازل ہوئی۔ پاکستان جو اس جنگ میں براہ راست شراکت دار بھی نہیں تھا مگر امریکی و اتحادی افواج کے لیے پاکستانی شہری بطور دشمن ہمیشہ نشانے پہ رہے۔ صرف ڈرون حملوں کی مد میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کی تعداد 400 سے لے کر 950 کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ ان حملوں کا آغاز 18 جون 2004 سے ہوا اور آخری حملہ 24 جنوری 2018 کو ہوا۔

اس دوران 430 بار پاکستانی سالمیت اور خودداری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی سر زمین پر ڈرون حملوں کے نتیجے میں میزائل داغے گئے۔ یہ 13 سال 07 ماہ اور 06 دن پر محیط خوف و دہشت کی فضاء میں ایک نئی نسل پروان چڑھی ہے جس کی سب سے بڑی تفریح یہی تھی۔ وہ خراب موسم میں اپنے تہوار، اپنے خوشی کے مواقعوں کو کھلے میدان میں منا سکتے تھے۔ صاف آسمان ان پر قہر بن کر نازل ہوتا تھا۔

افغان سرحد سے متصل علاقوں میں موجود سرداروں نے اپنے ہاتھوں سے نوجوان اور والدین نے اپنے ہاتھوں سے اپنی اولادوں کو زمین کے سپرد کیا۔ اس نسل کے نزدیک یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ ان پر دہشت گردی مسلط کرنے کی خاطر شروع کی گئی ہے۔ ڈرون حملوں میں بے گناہ ہلاکتوں نے مقامی نوجوانوں اور عمائدین میں انتقام کی آگ کو بڑھاوا دیا۔ جس کے نتیجے میں ان علاقوں میں ریاست مخالف اور امریکہ مخالف بیانیے کو دوام حاصل ہوا۔

موجودہ ملکی وزیراعظم عمران خان نے ان خیالات کا اظہار غیر ملکی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا، "پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آٹھ سے نو لاکھ مسلح قبائلی موجود ہیں مگر یہ ڈرون حملے اور ملٹری آپریشن ان لوگوں کو دہشت گردوں کی حمایت پر مائل کر رہے ہیں اگر ہم نے "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کو جیتنا ہے تو ہمیں ان لوگوں پر اعتماد قائم کرنا ہو گا تاکہ وہ ان مسلح دہشت گردوں سے خود نمٹ سکیں۔ "

اگرچہ جنوری 2018 کے بعد سے پاکستانی سر زمین پر کوئی ڈرون حملہ وقوع پذیر نہیں ہوا مگر پڑوسی ملک میں 20 سال سے جاری نام نہاد "دہشت گردی کے خلاف جنگ" نے خطے پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ جولائی 2021 تک امریکی و اتحادی افواج کا پڑوسی ملک سے انخلا کے نتیجے میں نئے وسوسوں اور افواہوں کا بازار گرم ہے جس کا براہ راست اثر افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں کی آبادی پر بھی ہو رہا ہے۔

وہاں کے مقامی لوگ اپنے مستقبل کی بہتری اور نسلوں کی ترقی کے لیے وہی خواہش، وہی برابری، وہی حقوق اور وہی شراکت داری چاہتے ہیں جو ملک کے باقی تمام باشندوں کو حاصل ہے۔ آج اس خطے میں خوف و دہشت کا تناسب گزشتہ 20 سال کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ چکا ہے اس خوف و دہشت کو ختم ہونے میں بھی اتنا ہی عرصہ درکار ہے۔

اس خوف و دہشت گردی کے سائے میں جوان ہونے والی نسل کسی بھی نام نہاد "دہشت گردی کے خلاف" جنگ کی متحمل نہیں اور اس جنگ کی آڑ میں اپنے آنے والی نسلوں کو "دہشت گردی" کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہتے۔ اس لیے ریاست کو جنگ کی بجائے بہتر سہولیات، بہتر روزگار، بہتر تعلیم اور بہتر تربیت کے اسباب پیدا کرنے ہوں گے وگرنہ جنگ اور آپریشن ہمیشہ نفرت اور دہشت کو بڑھاوا دیتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کبھی بھی بندوق کے تخم نے ہمیشہ بندوق کو ہی جنم دیا۔

Check Also

Likhari

By Muhammad Umair Haidry