Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asad Ur Rehman
  4. Aik Nasab Na Kafi Hai

Aik Nasab Na Kafi Hai

ایک نصاب ناکافی ہے‎‎

آئین پاکستان کی شق نمبر 25A کے تحت "ریاست کی بنیادی آئینی ذمہ داری ہے، وہ پانچ سے پندرہ سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم مہیا کرے"مورخہ 18 جون 2022 کو احسن اقبال، وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی نے سماجی رابطہ ویب سائٹ ٹویٹر پر عوام سے رائے طلب کی، "ہمارا قومی نصاب کو کس قسم کے شہری اور اذہان کو پیدا کرنا چاہیے"۔

ساتھ شرط عائد کی یہ تجویز صرف پچاس الفاظ پر مشتمل ہو تاکہ "قومی نصاب یونٹ" کو ان تجاویز سے آگاہ کر سکیں۔ اگرچہ آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیمی پالیسی اور نصاب میں تبدیلی صوبوں کا استحقاق بن چکا ہے۔ لیکن وفاقی وزیر کی جانب سے ان تجاویز کا حصول ایک خوش آئند قدم ہے۔ جس پر تنقیدی جائزہ ناگزیر ہے۔

گزشتہ پانچ سالوں سے شعبہ درس و تدریس میں بحیثیت انتظامی رکن منسلک ہوں، میں اپنے ناقص تجربے میں وزیر موصوف کے اس سوال کے پس پردہ مقصد سمجھنے سے قاصر ہوں۔ شاید ان کا مقصد گزشتہ دور حکومت میں نافذ العمل ایک قومی نصاب پر بحث کا آغاز کروانا ہے، تو اس سوال کی حثیت ماسوائے سیاسی شعبدہ بازی کچھ نہیں۔

لیکن اگر ان کا مقصد قومی نصاب کو جدید دور کے خطوط پر استوار کرنا ہے تو ذہن نشین کر لیں نصاب کی تبدیلی، ترقیاتی منصوبے کی مانند فکر طلب معاملہ ہے جس کا حل صرف پچاس الفاظ میں سمیٹا نہیں جاسکتا۔ قومی نصاب کی تشکیل اور اس پر عملدرآمد ایک محنت طلب، طویل مدتی منصوبہ ہے۔ یہ بات بھی روز روشن کی مانند عیاں ہے۔

مملکت خداداد میں تعلیمی منصوبہ بندی پہلی ترجیح ہونی چاہیے تھی، مگر گزشتہ ستر سالوں میں یہ آخری ترجیح کا درجہ ہی حاصل کر پائی۔ وزیر موصوف ستر سالوں کا بگاڑ پچاس الفاظ پر مشتمل تجاویز میں تلاش کرنے کا نسخہ آزما رہے ہیں۔

نصاب کسی طور پر بھی قوموں کی شعوری، فطری، سماجی، معاشرتی یا سیاسی نشوونما کا واحد منبع نہیں ہوتا۔ نصاب کسی بھی نظام تعلیم میں ایک روڈ میپ ہے۔ جس پر چل کر ہی کوئی قوم اپنے اہداف کو یقینی بنا سکتی ہے۔ مگر اس روڈ میپ پر چلنے سے قبل ریاست کے تمام شراکت داروں کا معاشی، جسمانی اور ذہنی طور پر خود کو اس تبدیلی کے لیے تیار کرنا ہو گا۔ اس ذہن سازی میں سب سے بڑا کردار والدین اور اساتذہ کا ہے۔

کوئی بھی قوم صرف نصاب کی تبدیلی سے ترقی کی منازل طے نہیں کر سکی۔ نصاب کی تبدیلی سے قبل قوم کے اجتماعی شعور کو ایک مقصد پر اکٹھا کیا جاتا ہے، پھر اس مقصد کے حصول کے لیے درکار وسائل کو بروئے کار لا کر ایک ایسا نصاب تشکیل دیا جاتا ہے۔ جو قومی مفاد، تعمیر و ترقی اور مجموعی شعور کی عکاسی کر سکے۔ بعد ازاں پوری قوم بحیثیت مجموعی ایک قومی نصاب کے پرچم تلے اکٹھا ہو کر اس کو حقیقی معنوں میں عملدرآمد کروائے۔

سماجی رابطہ ویب سائٹ پر کافی لوگوں نے ملی جلی تجاویز و آراء کا اظہار کیا۔ جس میں مختلف تعلیمی پس منظر اور سیاسی نظریات کے حامل افراد نے شرکت کی۔ تمام لوگوں کی تجاویز کم و بیش مشترک ہی پائی گئی۔ افراد کی نظر میں قومی نصاب ایسا پاکستانی پیدا کرے۔ جو متحمل مزاج، متجسس، ایماندار، باہمت اور محنتی کردار کا حامل ہو۔

جمہوری روایات اور آزادی اظہار کی پاسداری کرے، آمرانہ فیصلوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو سکے۔ تعلیمی قابلیت میں اقوام عالم کے ہم پلہ و۔ نصاب ایسے پاکستانی پیدا کرے بیک وقت مفکر، محقق اور تنقیدی جائزے کی صلاحیت سے لیس ہو۔ مذہبی، لسانی، فرقہ واریت اور قوم پرستی جیسی نفرت سے آزاد ہوں۔ تمام مذاہب، عقائد، تہذیبوں کے احترام کا داعی ہو۔

مندرجہ بالا بیان کردہ اوصاف بلاشبہ ایک صحتمند، ترقی یافتہ اور پرامن معاشرے کے شہری کا خاصہ ہیں۔ مگر یہ تمام تجاویز اپنی نوعیت میں سیاسی پس منظر کی حامل ہیں۔ ان تجاویز کو اہداف بنا کر نصاب تشکیل نہیں دیا جا سکتا ہے۔ بیان کردہ تمام اوصاف انسانی کے مجموعی شعور اور ذہنی ارتقاء کے باعث جنم لیتے ہیں۔ قومی نصاب میں ان اوصاف کو حاصلات تعلم یا سرگرمیوں کے دائرے میں مقید کر کے مطلوبہ اہداف کا حصول ناممکن ہے۔

وزیر منصوبہ بندی کو اس مسئلے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔ گزشتہ بیس سالوں سے نظام تعلیم سے منسلک شخصیات جو نصاب کی تشکیل اور پالیسی سازی میں شراکت دار رہے، ان سے قابل عمل تجاویز طلب کریں۔ پھر ان تجاویز کا عارضی خاکہ پالیسی پر عملدرآمد کرنے والے انتظامی شراکت داروں کے سامنے تنقیدی جائزے کے لیے پیش کیا جائے۔ تاکہ وہ زمینی حقائق کی روشنی میں نصاب میں متعین اہداف کے حصول کے لیے درکار وسائل، ذرائع اور ماحول کی ضروریات سے آگاہ کر سکیں۔

ان تجاویز کی روشنی میں نصاب کے عارضی خاکے کا ازسر نو جائزہ لے کر دوبارہ مرتب کیا جائے۔ تاکہ حتمی نصاب کی تیاری سے قبل زمینی حقائق سے مزین نصاب کا خاکہ تیار ہو سکے۔ نصاب پر عملدرآمد کی وقت تمام عوامل اور پالیسی ہم آہنگ ہو، بعد ازاں حتمی نصاب کی تشکیل کے عمل کا باقاعدہ آغاز کر دیا جائے۔ ان تمام عوامل کو مدنظر رکھے، بغیر نصاب کی تبدیلی "نشتم، گفتم، برخاستم" کے سوا کچھ بھی نہیں۔

علاوہ ازیں نصاب کی تشکیل سے قبل تعلیمی درسگاہوں میں دستیاب ماحول اور سہولیات کا کم سے کم بینچ مارک طے کیا جائے۔ تاکہ نصاب سے ہم آہنگ سہولیات کا میسر ہونا ہی اس نصاب کے اہداف کو ممکن بنائے گا۔ تعلیمی درسگاہوں کو ترقی یافتہ اقوام کی مانند سہولیات، تجربہ گاہوں اور تحقیقی مراکز سے لیس کرنا ہی اصل ہدف ہے۔ جو نصاب کی تبدیلی کی جانب پہلا قدم ہے۔

تمام ترقی یافتہ اقوام نے ریاستی سطح پر سماجی اور معاشی نظام میں استحکام لا کر ہی تعلیمی نظام میں مقرر کردہ اہداف عبور کیے۔ اس ضمن میں جدید تعلیمی نصاب جدید معاشی و سماجی شعور کا متقاضی ہے۔ تاکہ والدین اپنے معاشی مسائل کی آڑ میں آنے والی نسلوں کو بنیادی حقوق سے محروم نہ رکھ سکیں۔ سماج اور ماحول جو کہ بچوں کے لئے روزمرہ سیکھنے جانے والی معلومات کا عملی میدان ہوتا ہے۔

سماج اور ماحول میں رائے عامہ ہموار کیے بغیر جدید تعلیمی نصاب پر عملدرآمد اپنے حقیقی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے گا۔ اس سلسلے میں ریاست مجموعی طور پر اور سماجی عہدوں پر موجود ذمہ داران انفرادی طور پر سماج میں جدید تعلیم کے لازمی حصول کے لیے رائے عامہ ہموار کریں۔

گزشتہ دور حکومت میں پرائمری کی سطح تک "ایک قوم، ایک نصاب" کے نعرے تلے ایک قومی نصاب تشکیل دیا گیا۔ جس پر عملدرآمد ملک میں موجود تمام سرکاری و نجی سکولوں کے لیے لازمی قراد دیا گیا ہے۔ بلاشبہ نصاب کا مواد اور مقرر کردہ حاصلات تعلم، سرگرمیوں کو جدید دور سے استوار کرنے کی مکمل کوشش کی گئی ہے۔

تاکہ ساری قوم ایک ہی نصاب پر عمل پیرا ہو کر ایک سمت میں قومی اہداف کے حصول کے لیے محنت کرے۔ چونکہ اس نصاب کی تشکیل سے قبل اسکے لیے درکار لیے وسائل کی بہتری پر توجہ نہیں دی گئی۔ جس کے نتیجے میں ایک قومی نصاب اپنی حقیقی اساس سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ ایک قومی نصاب کے عملدرآمد کا ہر اول دستہ معلمین ہیں۔

مگر محکمانہ سطح پر نصاب کی تشکیل سے قبل معلمین سے متعلقہ ضروری عوامل کا ادارک نہیں کیا گیا۔ معلمین کی جدید دور میں ہونے والی تبدیلیوں سے ہم آہنگی اور نئے قومی نصاب کی حقیقی معنوں میں بچوں کے ذہنوں میں منتقلی کیسے ممکن ہو گی؟ بیس سال پرانی تعلیمی قابلیت کے حامل معلمین کو بہترین عالمی معیار کی ٹریننگ کے باوجود بھی جدید نصاب کو بچوں تک منتقل کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

معلمین کو حقیقی معنوں میں نئی نسل کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہے، تو ان کو بیس سال قبل سیکھے جانے والے علم اور معلومات کو بھول کر نئے سرے سے نئی معلومات کو سیکھنا ہو گا۔ ایک معلم اپنی ذات میں تمام سیاسی، مذہبی، قوم پرستی وابستگی سے بالاتر ہو کر طالبعلم کو علم سے مزین کرتا ہے۔ بیس سال سے ایک دائرے میں مقید معلم کے لیے جدید تکنیک کو اپنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

اسکا ممکنہ حل، ریاست جدید قومی نصاب کی تشکیل دے قبل نظام تعلیم میں تازہ اور پرجوش پڑھے لکھے قابل لوگوں کو بھرتی کرنے کے بعد قومی نصاب کے اہداف کی روشنی میں ٹریننگ کی جاتی۔ ترقی یافتہ اقوام اور جدید نظام تعلیم اس بات کا متقاضی ہے، بچوں کو کتابوں کے بوجھ سے نجات دلائی جائے۔ بچوں کو سکول اور گھر کے کام والے دائروں سے نکل کر حصول علم والا ماحول ترتیب دیا جائے۔

سکول کی سطح پر سیکھنے کے عمل کو نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں سے منسلک کر دیا جائے۔ معلم اور بچوں کے مابین مکالمے کو فروغ دیا جائے، طلباء کے مابین مکالمے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ترقی یافتہ اقوام نے اپنے سائنسی و کلیہ جاتی شعبوں میں تعلیم کو تحقیقی مراکز میں منتقل کر دیا ہے۔ جبکہ سماجی و معاشرتی تعلیمی شعبوں میں مکالمہ، بحث و مباحثہ جیسی سرگرمیوں سے منسلک کر دیا ہے۔

تاکہ نصاب کے نام پر معلومات کا سیلاب بچوں کے اذہان پر انڈیلنے کی بجائے ان کو فعال شہری بنایا جا سکے۔ معلمین کی مستقل بنیادوں پر ٹریننگ کروائی جائیں جن کا مقصد تعلیمی اصلاحات کی بجائے بلکہ ایس حکمت عملی کی ہو، جس کی مدد سے بچوں کے شعبہ جاتی رحجانات اور ہنر میں دلچسپی کو جانچا جا سکے۔ تاکہ بطور معلم بچے کے رحجان اور دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو متعلقہ شعبوں میں ترقی کے مواقع فراہم کیے جائیں۔

کتابوں اور امتحانات کے بوجھ سے آزاد اور اپنے پسندیدہ شعبوں میں زیر تعلیم طلباء ہی سماج میں فعال شہری کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بچوں کو سیکھنے کے عمل میں شراکت دار بنائیں، جس سے قوت ارادی، فیصلہ سازی اور مستقبل بینی جیسے اوصاف ان کی شخصیات کا حصہ بنتے جائیں گے۔ نصاب کی تبدیلی آنے والی نسلوں کی ترقی اور بہتری کے لیے پہلے قدم کی مانند ہے، جبکہ موجود نسل کے لیے یہ آخری قدم ہے۔ ارباب اختیار سے گزارش ہے، صرف ایک نصاب کا ہونا ناکافی ہے۔

Check Also

Mein Kalla e Kafi Aan

By Syed Mehdi Bukhari