Aaiye Bazar e Facebook Ko Chalte Hain (1)
آئیے بازارِ فیسبک کو چلتے ہیں (1)
تخلیقی اذہان و شخصیات روز اوّل سے دنیاوی پردوں میں لپٹے نظریات سے بے خبر اپنی تخلیق میں مگن رہتے ہیں۔ ایک تخلیق کار کو جو چیز دوام بخشتی ہے وہ یہ کہ اس کے تخلیقی کام کو سراہا جائے اور اس کے معیار کے عین مصداق اُس کو اِسکا حق دیا جائے۔ ایک تخلیق کار ہمیشہ حساس طبیعت کا مالک ہوتا ہے کوئی بھی ایسا عمل جو ان کے مزاج کے برعکس ہو ان کی تخلیقی صلاحیتوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔
بنی نوع انسان نے اپنی پیدائش سے لے کر آج تک لا تعداد تخلیق کار پیدا کئے جن کے کام نے ان کے نام کو رہتی دنیا تک کرۂ ارض کے ہر کونے تک پہنچا دیا۔ گزرے وقتوں میں جب تخلیق کار کی تخلیق کا دائرہ کار محدود ہوتا تھا تب اُس کے تخلیقی کام کی موقع پر ہی دادو تحسین، انعام و کرام کی صورت میں حق کی ادائیگی کر دی جاتی تھی۔
مگر جوں جوں وقت نے ترقی کی اور تخلیقی صلاحیتوں کا دائرہ کار خواص سے نکل کر عوام تک پہنچا۔ ان حالات میں بہت سے موقع پرست، سستی شہرت اور جز وقتی ترقی کے حامی لوگ بھی اس عمل کا حصہ بن گئے۔ جن کا مقصد کسی کے تخلیقی کام چوری کر کے یا کسی کے اچھوتے خیال کو جلد از جلد عملی جامہ پہنا کر وہاں اپنے نام کی تختی لگا دی جائے۔
سترہویں صدی کو سائنسی ایجادات کی صدی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پے در پے ایجادات ہونے کے باعث اس امر کی ضرورت محسوس کی گئی کہ کسی بھی ایجاد کے مالکانہ اور تخلیقی حقوق کا تعین ممکن ہو سکے۔ تاکہ عوامی مفادِ عامہ کے لیے ایجاد کی گئی اشیاء کی عام لوگ تک رسائی سے قبل تخلیقی و مالکانہ حقوق کی مد میں تخلیق کار کی محنت اور کاوش کا حق ادا ہو سکے۔
اسی ضمن میں"مالکانہ حقوق (پیٹنٹ)" کے تعین اور اس کی مالی حثیت طے کرنے کے متعلق ادارہ قائم کیا گیا۔ تاریخ میں 1474 میں سب سے پہلی ایجاد کے مالکانہ حقوق کا تعین کیا گیا، بعد ازاں سترہویں صدی کے اختتام پر اسکو باقاعدہ ادارے کی شکل دی گئی۔ جو دنیا بھر میں ہونے والی ایجادات کے مالکانہ حقوق کا تعین کر کے اسکے خالق کو اس ایجاد کے بیچنے اور تقسیم کرنے کے تمام حقوق جاری کرتا ہے۔
پندرہوی اور سولہوی صدی میں پرنٹنگ کی صنعت کے آغاز کے ساتھ ہی تحریری مواد کے مالکانہ حقوق تعین کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اسی ضمن میں کسی بھی ادبی، موسیقی، مصوری، فوٹوگرافی، ویڈیو گرافی اور اس نوع کی کسی بھی تخلیق کے حقوق کا تعین کرنے کے لیے سترہوی صدی میں"کاپی رائٹ" نامی ادارہ قائم کیا گیا۔ جس کا مقصد دنیا بھر میں تخلیقی فن پاروں کی معیاری حثیت کا تعین کرنا اور اس سے مستفید ہونے والے شائقین پر اس احساس کو تقویت دلانا کہ تخلیقی فن پارہ کے خالق کو اِس کے کام کا جائز حق ادا کیا جائے۔ خواہ وہ حق پیسے کی شکل میں ہو یا داد و تحسین کے زمرے میں۔ کاپی رائٹ کے ادارے نے دنیا بھر کی تمام ریاستوں میں اس سے متعلق قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کو لازمی قرار دیا تاکہ خلاف ورزی کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
بالخصوص ہمارے خطۂ برصغیر اور بالعموم خطۂ ارض میں چربہ سازی اور نقل کرنے جیسی غیر اخلاقی اور قبیح فعل کی عوامی سطح پر قبولیت عام فہم ہے۔ کسی بھی ادیب، موسیقار، گلوکار، اداکار، مصور، فوٹوگرافر اور ویڈیو گرافر کے کام کو بغیر اجازت و بغیر کوئی معاوضہ ادا کئے اپنے نام سے منسوب کرنا فخریہ عمل سمجھا جاتا ہے۔
سماجی میڈیائی (برقی) دیواروں کی بھرمار نے جہاں لاتعداد چُھپے رستم ڈیجیٹل دنیا پر آشکار کیے، ساتھ ہی موقع پرست اور سستی شہرت کے دلدادہ لوگوں کی فوج ظفر موج بھی اس دوڑ میں شامل ہو گئی ہے۔ سماجی میڈیا کا بنیادی مقصد صرف لوگوں کو رابطہ سازی اور تفریح کا ذریعہ فراہم کرنا تھا تاکہ لوگ اپنے فارغ وقت کو اچھے مصرف میں لا سکیں اور اپنے دوستوں، رشتہ داروں سے رابطہ میں رہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سماجی میڈیائی جدت میں اضافہ ہوتا رہا۔ سماجی میڈیا رابطہ سازی سے نکل کر تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کا ذریعہ بن گیا۔ تخلیقی کام کی بہتات ہونے کے باعث مختلف سماجی میڈیائی پلیٹ فارم اپنے کام کی تشہیر اور تخلیق کی مد میں صارفین کو معاوضوں کی ادائیگی کا آغاز کر دیا۔
اس عمل سے جہاں حقیقی تخلیق کار کے کام کو سراہنے کی کوشش کا آغاز ہوا، اس کے ساتھ ہی لوگوں نے ان پلیٹ فارم کو گھر بیٹھے ذریعہ معاش سے منسلک کر لیا نتیجتاً ان پلیٹ فارم پر غیر معیاری تخلیق کام کی بھرمار شروع ہو گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ کاپی رائٹ کی جابجا خلاف ورزی کا آغاز ہو گیا۔ نتیجتاً سماجی میڈیائی پلیٹ فارم پر کاپی رائٹ کے مرکزی خیال کا حقیقی انداز میں عملدرآمد، بڑھتے کام کے ساتھ موقوف ہوتا جا رہا ہے۔
ڈیجیٹل دنیا کے بڑوں نے اتفاق رائے سے ڈیجیٹل دنیا پر موجود لوگوں کے تخلیقی کام اور ان کے مالکانہ و تخلیقی حقوق محفوظ کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔ جس کا مقصد نہ صرف تخلیقی کام کو محفوظ کیا جائے، تخلیق کار کو سراہا جائے، بلکہ مستقبل کے تناظر میں ڈیجیٹل دنیا کے پھیلاؤ کو قابو میں رکھنے کا لائحہ عمل طے کیا جایا۔
فیسبک نے گزشتہ سال اکتوبر 2021 میں فیسبک اور اس سے منسلک تمام سماجی پلیٹ فارم کا یکجا کر کہ ایک ہی کمپنی کے پلیٹ فارم سے جوڑ دیا اور اسکو "میٹا (Meta)" کا نام دیا۔ اس امر کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ مستقبل میں کسی بھی قسم کے سماجی پلیٹ فارم کو منظم و ضم کرنے کے لیے علیحدہ شناخت کا تعین نہ کرنا پڑے۔ علاوہ ازیں مستقبل میں ہونے والی تیز ترین ڈیجیٹل جدت کے ساتھ ہم آہنگی کو یقینی بنایا جائے۔
سماجی میڈیا کوغیر حقیقی (ورچوئل رئیلٹی) دنیا سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اس دنیا پر موجود صارفین اپنی حقیقی دنیا کی شناخت کی بجائے اپنی اس شناخت کو تشکیل دیتے ہیں جو ان کے مزاج، احساسات، جذبات و شخصیت کی عکاسی کرے۔ حقیقی دنیا میں موجود سماجی، معاشی، اخلاقی و خاندانی بندشوں کے باعث کسی بھی فرد کی شخصیت کا حقیقی پن کھل کر سامنے نہیں آتا۔ مگر سماجی میڈیائی دیواروں پر ایسے تمام لوگ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو مصرف میں لا کر غیر حقیقی دنیا میں حقیقی دنیا کے متبادل ایک عکس تیار کر لیتے ہیں۔
ڈیجیٹل دنیا کے بڑے اسی اچھوتے خیال کو لے کر غیر حقیقی دنیا کو حقیقی دنیا کے مقابل لا کر کھڑا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ جسکا آغاز ڈیجیٹل دنیا میں تجارت، کرنسی، ڈیجیٹل مواد کے معیار و حقوق کا تعین شامل ہے۔ جس کا مقصد حقیقی دنیا میں حائل رکاوٹوں اور بندشوں سے آزاد غیر حقیقی دنیا کی تشکیل دینا، اس کے ساتھ ساتھ اس ڈیجیٹل دنیا کو بھی قواعد و ضوابط کے تابع کرنا بھی تاکہ حق تلفی و چربہ سازی کے عمل کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔
ستمبر 2022 کو فیسبک نے اپنے صارفین کے ڈیجیٹل اثاثہ جات جو کہ تحاریر، تصاویر اور ویڈیوز کی شکل میں ان کی برقی دیواروں پر موجود ہیں ان کو محفوظ کرنے اور اُن کے تخلیقی، معیاری و مالکانہ حقوق کے تعین کرنے کا آغازکیا۔ اس پراجیکٹ کا دائرہ کار بہت جلد دنیا بھرمیں موجود صارفین پر لاگو کر دیا جائے گا۔ پاکستانی صارفین کے لیے گزشتہ ہفتے اس سہولت کا اغاز کر دیا گیا ہے، آئیں مختصراً ان سہولیات کا جائزہ لیتے ہیں۔
جاری۔۔