Qismat Mein Qaid Likhi Thi Fasl e Bahar Mein
قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں
میں پچھلے آدھے گھنٹے سے ادھیڑبُن میں تھا، دل و دماغ میں شدید کشمکش جاری تھی۔ میرا دل تسلیم کرنے سے انکاری تھا اور دماغ کے پردے پر شناسائی کا مدھم سا دیا جل بجھ رہا تھا۔ میرے سامنے ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ موجود تھا، سانسوں کی ڈور ابھی ٹوٹی نہیں تھی۔ دونوں رخساروں کی ہڈیاں اُبھری ہوئیں، آنکھیں اندر دھنسی ہوئیں اور ان کے گرد سیاہ حلقے نمایاں، چہرے پر زردی کا راج، پراگندہ بال جنہیں چترالی ٹوپی اپنے حصار میں لینے کی ناتواں سی کوشش کرتی ہوئی، بالوں کے ٹیڑھے اور خم دار کنارے یہاں وہاں جھانکتے ہوئے، دبلی پتلی ٹانگیں، ناتواں ناتواں سے بازو، یہ کسی بھی طرح سے وہ سلیم نہیں لگ رہا تھا جس کو میں جانتا تھا۔ لگ بھگ پندرہ سال بعد میری اسے ملاقات ہوئی تھی۔ ہمارا علاقہ ایک، گاؤں الگ تھے۔ ہم آخری بار کھیل کے میدان میں ملے تھے۔ پھر گردش ایام وہ چال چلی کہ چاہتے ہوئے بھی ملن کی گھڑی میسر نہ آسکی۔
تب سلیم ایک گبھرو جوان تھا۔ چھے فٹ قد، خوبصورت جسامت، ڈیل ڈول قابل دید، بھرے بھرے گلابی گال، مضبوط ٹانگیں، توانا بازو، جھیل جیسی گہری مگر روشن آنکھیں، شانوں پر جھول رہے خوبصورت بال۔۔۔۔۔ زندگی کی رعنائیوں سے لبریز ایک ہنس مکھ، ہشاش بشاش اور ملنسار جوان۔ تب کسی کے وہم و گمان میں یہ بات کہاں تھی کہ وقت کا بےرحم کوڑا اس جوان رعنا پر برس پڑے گا اور اس کی ساری خوبصورتی اور رعنائی نچوڑ کر رکھ دے گا۔ برا وقت کبھی پوچھ کر نہیں آتا، یہ آناً فاناً چوکھٹ پار کر جاتا ہے۔ ہوش جب آتا ہے جب سب کچھ لٹ چکا ہوتا ہے۔ سلیم کے ہاتھوں کسی کا ناحق قتل ہوا، جی ہاں جوش میں ہوش گنوا بیٹھا اور ایک آدمی کا خون کر دیا۔
" میں جانتا ہوں آپ کیا سوچ رہے ہیں؟ " سلیم نے گویا میرا چہرہ پڑھ لیا تھا۔
"ہونہہ۔۔۔۔۔ نہیں " میں گڑبڑا گیا اور جواب نہیں بن پایا۔
"زندگی بڑی عجیب شے ہے ماسٹر، طرح طرح سے آدمی کا امتحان لیتی ہے۔ پرکھتی ہے، آزماتی ہے، جھنجھوڑتی ہے، اُبھارتی ہے، اُکساتی ہے، عرش پر پہنچا دیتی ہے اور پھر اُٹھا کر فرش پر پٹخ دیتی ہے"، اس نے پہلو بدلا، سگریٹ سُلگائی اور کثیف دھواں چھوڑتے ہوئے گویا ہوا " کبھی سوچا نہیں تھا میں اک جیتے جاگتے انسان کا خون کرونگا۔ آٹھ سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے دال خوری میں گزار دیے، پچھلے سات سال سے اپنا گھر اپنا زنداں ہے۔ میں زندہ ہوں پر مردہ ہوں، سمجھ لے بس زندہ لاش ہوں میں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں آج سے ٹھیک پندرہ برس قبل مر چکا ہوں ہاں البتہ تدفین ابھی باقی ہے۔ کسی بھی وقت میری تجہیز و تکفین کا عمل انجام دیا جائے گا۔"
وہ بولتا جا رہا تھا اور میں ہمہ تن گوش تھا۔ بڑی فلسفیانہ گفتگو تھی اس کی۔ گردش ایام بڑا سبق دے گئی تھی، وہ گہری گہری باتیں کر رہا تھا۔ اس کی باتیں اس کے من کی گہرائیوں سے نکل رہی تھیں۔ سچ ہے زندگی تجربات کا ماخذ ہے اور تجربہ انسان کو بہت کچھ سکھاتا ہے۔ اس کی عمر لگ بھگ چالیس سال تھی اور عین عالم شباب میں وہ اس عذاب کے زیر عتاب آگیا تھا۔
"یہ ڈربہ جس کو لوگ ٹاور کہتے ہیں میرا مسکن ہے " میں سوچوں میں گم تھا کہ اس کی آواز آئی، " یار یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ چوروں کی طرح گھر میں آؤ اور چوروں کی طرح نکل جاؤ۔ ڈر اور دہشت کی چھتری تلے ایک ایک پل گن گن کر گزارو، اُدھر پتا کھڑکا اِدھر دل دھڑکا۔ روز مرو روز جیو۔ کھلی فضا میں سانس لینے کو جی چاہتا ہے، دوستوں کی سنگت میں دو چار پل بیتانے کو من کرتا ہے، گزرا ہوا ایک ایک پل، ایک ایک لمحہ مجھے یاد آتا ہے اور بےطرح ستاتا ہے۔ یہ چیزیں میرے مقدر میں اب نہیں ہیں، یہ باتیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ میں شدید خواہش کے باوجود کچھ کر نہیں پارہا۔ میری حسرتیں محض حسرتیں ہیں۔ ان حسرتوں کی تعبیر شاید میں اس دنیا میں نہ پا سکونگا"ـ
آہ، سلیم کی ہر بات دل کی اتھاہ گہرائی سے نکل رہی تھی۔ ملاوٹ اور بناوٹ سے یکسر پاک اس کی گفتگو میرا جگر چھلنی کر دینے کے لئے کافی تھی۔ میں اس کی ایک ایک بات براہ راست اپنے دل پر پیوست ہوتی ہوئی محسوس کر رہا تھا۔ لمحوں کی غلطی کا خمیازہ آج وہ بھگت رہا تھا۔
"بس بھائی قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں "، میں نے بہادر شاہ ظفر کی مشہور زمانہ غزل کا مصرعہ دہرایا، " آپ کے مقدر میں لکھا تھا سب"
" آہ ، میں حکومت سے تو چھوٹ گیا، اپنے کیے کی سزا بھگت لی مگر مقتول کے لواحقین مجھے نہیں چھوڑ رہے۔ صلح کی بہتیری کوشش کی مگر بےسود۔۔۔۔۔ وہ میرے لہو سے کم کسی چیز پر سمجھوتہ کرنے کے لئے راضی نہیں ہیں۔ وہ میرے خون کے پیاسے ہیں، اب دیکھیئے کہ کب ان کی پیاس بجھتی ہے؟ "، اس نے ایک سرد آہ بھری، اس کی نگاہیں مسلسل اپنے کمرے کی سالخوردہ چھت پر ٹکی ہوئی تھیں۔ جانے وہ کیا دیکھ رہا تھا؟ " میں اس مکھی کی مانند ہوں جو مکڑے کے جالے میں پھنس کر اپنی زندگی کی جنگ ہارنے لگی ہے۔ کسی بھی وقت زندگی کا چراغ گل ہو سکتا ہے"ـ
اس نے انگلی سے چھت کی طرف اشارہ کیا اور پھر مجھ مکڑے کا جالا دکھائی دیا جس میں ایک مکھی پھنس گئی تھی اور زندگی کی آخری جنگ لڑنے میں مگن تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ یہ جنگ ہار گئی، اب کسی بھی وقت مکڑا اسے نوالہ بنانے والا تھا۔ اس نے بڑی خوبصورت تمثیل پیش کی تھی۔ سلیم جیسے کردار ہمارے سماج میں یہاں وہاں بکھرے پڑے ہیں۔ خاندانی دشمنی کی بےرحم چکی میں پسنے والے کرداروں کی کمی نہیں ہے۔ ضلع دیامیر، بالخصوص داریل تانگیر میں خاندانی دشمنیوں کا ریشو کچھ زیادہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عہد رفتہ کی نسبت اب ان دشمنیوں میں کمی ضرور واقع ہوئی ہے مگر یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ ان علاقوں میں دشمنیاں برسہا برس چلتی ہیں اور ان کی بھینٹ چڑھ کر کئی جوان حتی کہ بعض اوقات سن رسیدہ افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
زمانہ اب تیزی سے بدل رہا ہے۔ وہ وقت اب نہیں رہا جب ان علاقوں کے لوگ کنویں کے مینڈک ہوا کرتے تھے۔ ان کی کل کائنات گلی، محلہ، گاؤں اور علاقہ ہوا کرتا تھا۔ جیسے جیسے سڑکیں بنیں، باہر کی دنیا دیکھی۔ شہروں میں آنا جانا شروع ہوا۔ لوگوں سے تعلقات پنپنے لگے، زندگی کی رعنائیاں قریب سے محسوس کرنے کا موقع ملا۔ تعلیم و تربیت سے عاری لوگ تعلیم کی جانب مائل ہونا شروع ہوئے۔ بچوں کو خوب سے خوب تر تعلیم دلانے کی خواہش و تمنا ہر باپ کے دل میں جاگنے لگی۔ ایک وقت یہ بھی آیا کہ دیامیر کے بوائز اسکول اپنی تنگ دامنی کا رونا روتے پائے گئے۔ بچوں سے اسکول کھچا کھچ بھرنے لگے۔ میرے مرشد معروف کالم نگار امیر جان حقانی صاحب نے عرصہ قبل ایک کالم لکھا تھا اور کہا تھا کہ دیامیر میں داریل کا مستقبل روشن ہے۔ دس پندرہ سال بعد داریل تعلیمی میدان میں دیامیر میں پہلے نمبر پر آئے گا۔ میں مرشد سے متفق ہوں۔ کسی زمانے میں جو لوگ اپنی دولت بندوق، مکان، دوسری بیوی اور گاڑی پر صرف کرتے تھے آج وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بےدریغ لُٹا رہے ہیں۔ میں ایسے کچھ والدین کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے بچوں کی تعلیم کے لئے اپنی جائیداد فروخت کرنا شروع کی ہے اور یقیناً یہ بات خوش آئند ہے۔
جو لوگ خاندانی دشمنیوں میں جکڑے ہوئے ہیں ان کی دلی تمنا ہے کہ وہ کسی طرح اس عذاب سے نجات پالیں۔ تسلیم کیا کہ ان سے غلطی ہوئی، ان میں کوئی بھی اپنے فعل سے خوش نہیں ہے۔ ان کے دل پر کیا گزرتی ہے وہ میں اور آپ نہیں جانتے۔ سماج میں امن و آشتی کو قائم رکھنے کے لئے خاندانی دشمنیوں کی بیخ کنی ناگزیر ہے۔ یہ کارنامہ مخلص جرگہ سرانجام دے سکتا ہے اور میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ایسی کوئی دشمنی ہی نہیں جو دوستی کا روپ دھار نہ لے۔۔۔۔۔۔۔ بس مخلص اور غیرجانبدار جرگہ شرط اول ہے۔ امسال دوران الیکشن کئی دشمنیاں دوستی میں ڈھل گئیں، وجہ جرگوں میں خلوص اور نیک نیتی تھی۔ لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سیاسی نمائندوں کو دوران انتخابی مہم تو لوگوں کی دشمنیاں یاد آتی ہیں بعد میں سب فراموش کر کے اپنی اپنی راہ لیتے ہیں۔ نمائندے صرف انتخابات کے ایام میں نمائندے نہیں ہوتے، ان کی نمائندگی ہر وقت ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ مذکورہ علاقوں کے تمام نمائندے مل بیٹھ کر یہ طے کرلیں اور اپنے ساتھ علمائے کرام اور عمائدین علاقہ پر مشتمل گرینڈ جرگہ تشکیل دیں۔ حکومت سرپرستی فرمالے، میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ ان علاقوں میں ایک بھی دشمنی باقی نہیں رہے گی۔ یہاں اکثر دشمنیاں کچے دھاگوں سے بندھی ہوئی ہیں، بس ایک بہانہ اور دھکا چاہیے، دوستی میں بدلتے دیر نہیں لگے گی۔ میری ان تمام نمائندوں، علمائے کرام اور عمائدین علاقہ اور حکومتی عہدیداروں سے گزارش ہے کہ خدارا حرکت کیجئے، اور برکت ملاحظہ فرمائیں۔ دنیا میں کوئی کام لاینحل نہیں ہے۔ مذاکرات کی میز ہر ہر مسئلے کا حل ہے۔ میز سجا کر دیکھیں، حل اپنے آپ نکل آئے گا۔