Kitabon Ki Ishaat, Aik Fanni Amal
کتابوں کی اشاعت، ایک فنی عمل
کتابوں کی اشاعت ایک ایسا بہترین عمل ہے جو نہ صرف لکھاری کے خیالات کو دوام بخشتا ہے بلکہ اس کی محنت اور علم کو محفوظ کرکے آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ تاہم، یہ ایک سادہ عمل نہیں بلکہ ایک فن اور بڑی ذمہ داری ہے۔ ہر لکھاری کے لیے ضروری نہیں کہ وہ فوراً اپنی تحریروں کو کتابی شکل دے۔ تحریروں کو کتابی شکل دینا ایک سنجیدہ اور منظم منصوبہ بندی کا تقاضا کرتی ہے، جو وقت، محنت اور وسائل کے ساتھ ساتھ درست موقع اور ترتیب کا بھی محتاج ہے۔
میری ذاتی زندگی میں کئی ایسے لمحات آئے ہیں جب قریبی دوستوں اور ساتھیوں نے اپنی مخلصانہ آراء پیش کیں اور مشورہ دیا کہ میں اپنی تمام تحریروں کو کتابی صورت میں شائع کروں۔ کمپوزنگ کی شکل میں موجود مواد کا جائزہ لوں تو کم از کم پانچ چھ کتابیں آج ہی پبلش ہونگی۔ آج ہی میرے ایم فل کے کلاس فیلو اور پاکستان آرمی کے خطیب، برادم محترم مولانا حسین احمد تشریف لائے تھے۔ وہ پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ انہوں نے میرا ایم فل کا مقالہ نہایت توجہ سے دیکھا اور فوراً مشورہ دیا کہ اسے کتابی شکل میں شائع کرکے گلگت بلتستان اسمبلی سمیت تمام اہم اداروں تک پہنچایا جائے تاکہ یہ علمی تحقیق معاشرے کے وسیع تر حلقوں تک رسائی حاصل کرے اور گلگت بلتستان میں قیام امن اور سماجی ہم آہنگی کے لئے اسمبلی سمیت دیگر اداروں کے کام آئے۔
اسی طرح، مختلف اہل قلم، پروفیسرز اور علمی دوستوں نے بھی مجھے اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً ترغیب دی ہے۔ یہ مشورے میرے لیے نہ صرف حوصلہ افزا ہیں بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہیں کہ میری تحریروں میں کچھ ایسا ہے جو قارئین کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ قارئین کی آراء اور ان کے مشوروں سے مجھے مزید تقویت ملتی ہے اور میں از سرنو اپنے کام اور تحریروں میں اور فکر و خیال میں بہتری لانے اور مزید امپرو کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرے مسلسل لکھنے کا ایک سبب میرے قارئین بھی ہیں، جو کسی نہ کسی شکل میں مجھے لکھنے پر اکساتے ہیں۔
میری مستقبل کی منصوبہ بندی میں ایک خواب یہ بھی شامل ہے کہ میں ایک تحقیقی اکیڈمی قائم کروں، جو تحقیق و تالیف کے لیے مخصوص ہو۔ یہ ادارہ نہ صرف علمی کام کرے گا بلکہ تحقیقی مواد کو فوری طور پر شائع کرنے کا بندوبست بھی کرے گا۔ اس اکیڈمی کا مقصد علم کے ان ذخائر کو محفوظ کرنا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس کے لئے اپنی حد تک شاندار پلاننگ کی ہے۔ مشکل کے دو تین سال گزر جائیں گے تو اکیڈمی کا کام باقاعدہ شروع کیا جائے گا۔ اگر اللہ نے زندگی دی، تو یہ خواب ضرور پورا ہوگا اور یہ اکیڈمی علمی دنیا میں ایک مثبت اضافہ ثابت ہوگی اور میرے جیسے ان قلم کاروں کے لیے امید کی کرن بنے گی جو اپنی تحقیقات کو، اب تک کتابی شکل دینے سے قاصر ہیں۔
میرے لیے یہ بھی باعثِ اطمینان ہے کہ میری اکثر تحریریں مختلف اخبارات، ڈائجسٹوں، میگزین، ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پر شائع ہو چکی ہیں۔ یہ تحریریں کسی نہ کسی صورت میں محفوظ ہیں اور مستقبل میں اصحابِ تحقیق کے لیے ایک اہم ذریعہ بن سکتی ہیں۔ ان تحریروں کو جمع کرنا اور ان میں تسلسل پیدا کرکے جامع کتابی صورت دینا ایک اہم علمی خدمت ہوگی۔
یہ ہم سب جانتے ہیں کہ کتاب کی اشاعت صرف لکھاری کی محنت کا اعتراف نہیں بلکہ معاشرے کی فکری اور علمی ترقی میں ایک اہم کردار بھی ادا کرتی ہے۔ یہ قارئین کو نئے خیالات، نظریات اور شعور کے دروازے کھولتی ہے۔ ہمیں یہ حقیقت سمجھنی ہوگی کہ کتابیں صرف کاغذ کے اوراق نہیں بلکہ علم و فکرکے چراغ ہیں، جو معاشرے کی راہوں کو روشن کرتے ہیں اور دلوں کو منور کرتے ہیں۔
تحریروں کو شائع کرنا لکھاری کی عظمت اور قارئین کی ضرورت کا مشترکہ اظہار ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو نہ صرف لکھاری کو فخر دیتا ہے بلکہ اس کے الفاظ کو صدیوں تک زندہ رکھنے کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم لکھنے، پڑھنے اور اشاعت کے اس عمل کو فروغ دیں تاکہ علم و ادب کا یہ سلسلہ ہمیشہ جاری و ساری رہے۔