Jahannam Jana Asaan Nahi
جہنم جانا اتنا آسان نہیں
ہمارے معاشرے میں عام طور پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ انسان چھوٹی موٹی غلطیوں اور گناہوں کے نتیجے میں جہنم کا مستحق بن جاتا ہے۔ ہمارے بہت سارے مولوی، واعظ اور شیخ حضرات اور دیندار طبقے کا یہ باقاعدہ مشن ہوتا ہے کہ دھڑا دھڑ لوگوں کو جہنم دھکیل دیا جائے، لیکن اسلامی تعلیمات کو گہرائی سے دیکھیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جہنم میں جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ جہنم میں جانے کے لئے بہت تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نہایت رحیم اور بخشنے والا ہے اور وہ آسانی سے اپنے بندے کو جہنم میں نہیں ڈالتا، یہ اللہ کی فطرت، خلاقیت اور معبودیت، الوہیت اور ربانیت کے بھی خلاف ہے۔ ستر ماؤں سے زیادہ اپنے بندے کو چاہنے والے اللہ آخر کیوں معمولی باتوں پر اپنے بندوں کو جہنم دھکیل دے؟ اگر ہم غور کریں تو جہنم کی سزا پانے کے لیے انسان کو بہت بڑی نافرمانیاں کرنی پڑتی ہیں، اور مسلسل گناہوں اور کفر کا راستہ اپنانا پڑتا ہے۔ یہ وہی راستہ ہے جو فرعون، ہامان، نمرود، اور ابوجہل جیسے جدید و قدیم افراد نے اپنایا تھا۔ دراصل، ایک عام مسلمان جو توحید و رسالت پر ایمان و یقین رکھتا ہے اور اپنی زندگی میں کبھی کبھار غلطیاں کرتا ہے، وہ جہنم کا مستحق نہیں بنتا جب تک کہ وہ بڑے اور سنگین گناہوں اور جرائم اور کفر میں ملوث نہ ہو اور ان پر اصرار و دوام نہ رکھتا ہو۔
جہنم جانے کے لیے بہت سارے بنیادی پہلوؤں میں نافرمانی کو مسلسل اختیار کرنا ضروری ہوتا ہے، جن میں چھ انتہائی اہم ہیں۔ ان میں عقائد، عبادات، اخلاقیات، معاملات، حقوقِ العباد اور معاشرتی برائیاں خاص ہیں۔ پھر ان چھ میں ہر ایک کی بہت سی تفصیلات اور جزئیات ہیں۔ ان تمام پہلوؤں میں کوتاہی اور انکار اور اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی انسان کو جہنم کی طرف لے جاتی ہے۔ ان کا یہاں مختصر ذکر کیا جاتا ہے۔
1: عقائد میں نافرمانی اور انکار
عقائد اسلام کی بنیاد ہیں، اور ان میں غلطیاں، انکار اور نافرمانی انسان کو جہنم کا مستحق بنا سکتی ہیں۔ اگر کسی کے عقائد میں کوئی کمی بیشی یا انحراف ہو، تو آخرت میں اس کا انجام جہنم ہو سکتا ہے۔ بنیادی عقائد میں اللہ پر ایمان لانا، تمام انبیاء پر ایمان لانا، تمام سابقہ کتب سماوی کے برحق ہونے پر ایمان لانا، یوم حساب پر ایمان لانا، تقدیر پر ایمان لانا، اور پھر محمد رسول اللہ ﷺ کو آخری نبی ماننا اور قرآن کریم کو لاریب کتاب ماننا شامل ہے۔ ان سب کا انکار ہی جہنم کا سبب بنتا ہے۔ اسی طرح کچھ اہم عقائد جن میں شرک، کفر، نفاق، بدعت وغیرہ شامل ہیں۔
شرک:
اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا سب سے بڑا گناہ ہے جسے اللہ معاف نہیں کرے گا۔ شرک کی مختلف اقسام ہیں جیسے بت پرستی، غیر اللہ سے مدد طلب کرنا، یا اللہ کے علاوہ کسی اور سے دعا مانگنا۔
کفر:
اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا انکار یا دین اسلام کو رد کرنا کفر ہے اور قرآن کے مطابق یہ انسان کو ہمیشہ کے لیے جہنم میں لے جاتا ہے۔ اللہ کے وجود، آخرت یا نبوت کا انکار کرنا کفر کی مثالیں ہیں۔
نفاق:
نفاق، یعنی دل میں کفر چھپا کر ایمان کا اظہار کرنے والے منافقین، قرآن کی روشنی میں جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے۔
بدعت:
بدعت کا مطلب ہے دین کے بنیادی اور اساسی عقائد میں نئے اصول یا اعمال کا اضافہ کرنا جو قرآن و سنت میں نہیں ہیں، اور یہ عمل انسان کو گمراہی کی طرف لے جا سکتا ہے۔
اب آدمی کو جہنمی بننے کے لئے عقائد میں ان سب کا نہ ماننا ضروری ہے۔
2: عبادات کا انکار اور کوتاہی
عبادات میں کوتاہی اور انکار بھی انسان کو جہنم کی طرف لے جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر عبادات فرض کی ہیں، اور ان میں کسی بھی قسم کی کوتاہی جہنم کا باعث بن سکتی ہے۔
نماز ترک کرنا:
نماز دین کا ستون ہے، اور اس کا ترک کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ حدیث میں نماز چھوڑنے والے کے لیے سخت عذاب کی وعید دی گئی ہے۔
روزے نہ رکھنا:
رمضان کے روزے ہر بالغ مسلمان پر فرض ہیں، اور ان کو بغیر کسی شرعی عذر کے چھوڑنا گناہ کبیرہ ہے۔
زکوٰۃ ادا نہ کرنا:
زکوٰۃ دینا ہر صاحب استطاعت مسلمان پر فرض ہے، اور زکوٰۃ ادا نہ کرنا آخرت میں جہنم کا سبب بن سکتا ہے۔
حج ادا نہ کرنا:
حج صاحب استطاعت افراد پر فرض ہے، اور اسے بغیر کسی شرعی عذر کے ترک کرنا جہنم کی سزا کا باعث بن سکتا ہے۔
3۔ اخلاقیات کو چھوڑ دینا
اسلام میں اخلاقی کردار کی بڑی اہمیت ہے، اور برے اخلاقی رویے انسان کو جہنم کے قریب لے جاتے ہیں۔
جھوٹ بولنا:
جھوٹ کو حدیث میں نفاق کی علامت قرار دیا گیا ہے، اور جھوٹ بولنے والا شخص آخرت میں سخت عذاب کا مستحق ہوگا۔
غیبت کرنا:
غیبت، یعنی پیٹھ پیچھے کسی کی برائی کرنا، قرآن میں شدید گناہ قرار دیا گیا ہے اور یہ انسان کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔
حسد کرنا:
حسد دل کی ایک بیماری ہے جو انسان کو دوسروں کی خوشیوں پر ناخوش کرتی ہے، اور یہ برائی آخرت میں عذاب کا سبب بن سکتی ہے۔
تکبر:
حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر رکھتا ہو، وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
4۔ معاملات کا انکار اور کوتاہی
معاشرتی اور مالی معاملات میں انصاف اور دیانتداری کا ترک کرنا بھی انسان کو جہنم میں لے جاتا ہے۔
سود لینا یا دینا:
سود کو قرآن میں اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ قرار دیا گیا ہے، اور سود کا لینا دینا انسان کو جہنم کی طرف لے جا سکتا ہے۔
دھوکہ دینا:
کاروبار یا زندگی کے کسی بھی معاملے میں دھوکہ دینا اسلام میں ممنوع ہے، اور یہ عمل انسان کو جہنم کے قریب کر سکتا ہے۔
امانت میں خیانت کرنا:
امانت داری کا ترک کرنا اور دوسروں کی امانت میں خیانت کرنا اسلام میں ناقابل معافی گناہ شمار کیا جاتا ہے۔
5: حقوق العباد
اسلام میں حقوق العباد کی خلاف ورزی کو جہنم میں جانے کا سبب بتایا گیا ہے۔ والدین، یتیموں، اور عام لوگوں کے حقوق کی پامالی انسان کو آخرت میں سخت عذاب کا مستحق بنا سکتی ہے۔
والدین کی نافرمانی:
والدین کی نافرمانی اور ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے والے کے لیے قرآن میں جہنم کی وعید دی گئی ہے۔
یتیموں کا مال کھانا:
یتیموں کے مال کو ناجائز طریقے سے ہڑپ کرنے والوں کے بارے میں قرآن میں سخت وعید آئی ہے۔
6: معاشرتی برائیاں
معاشرت میں برے رویے جیسے فحاشی اور بے حیائی انسان کو جہنم کے قریب کر دیتے ہیں۔
فحاشی اور بے حیائی:
زنا، فحاشی، اور بے حیائی جیسے اعمال قرآن و سنت کی روشنی میں سختی سے ممنوع ہیں اور ان کی سزا جہنم ہے۔
شراب نوشی:
شراب نوشی کو حدیث میں "ام الخبائث" یعنی برائیوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے، اور یہ انسان کو جہنم کی طرف لے جاتی ہے۔
ظلم و ناانصافی:
ظلم اور ناانصافی بھی انسان کو آخرت میں جہنم کی طرف لے جاتے ہیں۔
عدالتی ناانصافی:
ظالم اور ناانصاف ججوں کے بارے میں حدیث میں سخت وعید آئی ہے کہ وہ قیامت کے دن جہنم میں ہوں گے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق جہنم کا راستہ صرف معمولی گناہوں کے نتیجے میں نہیں کھلتا، بلکہ یہ بڑے اور مسلسل نافرمانیوں کے نتیجے میں انسان کے لیے تیار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نہایت غفور الرحیم ہے، اور وہ اپنے بندے کو بہت سے مواقع دیتا ہے کہ وہ توبہ کرکے اپنی اصلاح کرے۔ جہنم جانا آسان نہیں ہے، اس کے لیے مسلسل نافرمانی اور سنگین گناہوں کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اللہ کی رحمت ہمیشہ اس کے بندوں پر سایہ فگن رہتی ہے، اور توبہ کرنے والے کے لیے بخشش کے دروازے کھلے ہیں اور اگر کوئی نافرمان ٹائپ مسلمان جہنم گیا بھی تو کچھ وقت کے بعد سیدھا جنت پہنچ جائے گا۔ وہ صرف اس لیے کہ بنیادی طور پر جہنم مسلمان کے لئے بنا ہی نہیں جب بنا ہی نہیں تو مسلمان کیوں کر جہنمی ہوسکتا ہے؟
یہ وہ سارے امور ہیں جن کے انجام دہی کے لیے بندہ مومن کو بہت سی مشکلات پیش آتی ہے۔ سلیم الفطرت شخص یہ سب کچھ کرنے اور ان پر اصرار و دوام سے کتراتا ہے۔ بالفرض اگر ان میں کچھ امور میں کوتاہی ہو بھی جائے تو بندہ فوراً توبہ کرلیں تو اللہ راضی ہوجاتا ہے۔
میری ان حضرات سے خصوصی گزارش ہے کہ جلدی جلدی لوگوں کو جہنم کا حقدار نہ ٹھہراؤ، بندہ مومن کو جہنم کے بجائے جنت کا راستہ دکھاؤ اور ترغیب بھی دو۔