Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amirjan Haqqani
  4. Hamare Samaj Mein Ilm Aur Ustad Ki Izzat

Hamare Samaj Mein Ilm Aur Ustad Ki Izzat

ہمارے سماج میں علم اور استاد کی عزت

یہ سوال شاید ہر باشعور انسان کے دل و دماغ میں کبھی نہ کبھی ضرور ابھرتا ہے کہ آج کے دور میں ہمارے معاشرے میں علم اور استاد دونوں کی عزت کیوں نہیں کی جاتی۔ وہ معاشرہ جو علم کی روشنی سے منور ہوتا تھا، آج اس اندھیرے میں گم ہو چکا ہے جہاں نہ علم کی کوئی قدر ہے اور نہ ہی اس کو پھیلانے والے استاد کی کوئی عزت۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں علم کو دو حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ دینی علوم اور عصری علوم۔ یہ تقسیم بظاہر معمولی لگتی ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک سنگین فکری اور نظریاتی مسئلہ ہے۔ میرے نزدیک علم کی کوئی تقسیم نہیں ہونی چاہیے، علم میں دوئی بالکل بھی نہیں، کیونکہ علم بذات خود ایک وحدت ہے، ایک روشنی ہے جو انسانی عقل و شعور کو منور کرتی ہے۔ مگر ہمارا معاشرہ اس تقسیم کو تسلیم کر چکا ہے، اور اسی بنا پر ہم نے علم کو دو خانوں میں بانٹ دیا ہے۔ ایک جو دینی ہے اور دوسرا جو عصری۔

دینی علوم کے اساتذہ ہوں یا عصری علوم کے، دونوں ہی کو معاشرتی سطح پر کم تر سمجھا جاتا ہے۔ ان کی قابلیت اور علم کی گہرائی کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں ایسے القاب سے نوازا جاتا ہے جو ان کی حیثیت کو مجروح کرتے ہیں۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ جس معاشرے میں علم کے چرچے ہونے چاہئیں، وہاں علم سے جڑے افراد کو حقیر اور کمتر سمجھا جاتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے ایک ایسے استاد سے اچانک ملاقات ہوئی جو خود کو بڑا وژنری استاد سمجھتے تھے اور اب وژنری شخص۔ وہ معلمی کے منصب سے علیحدہ ہو کر کسی بڑے عہدے پر فائز ہو چکے تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ہمارے سماج میں استاد کی ویلیو کیوں نہیں ہے؟ میں نے ان نے پوچھا کہ آپ بھی استاد رہے ہیں، آپ ہی بتلائیں کہ آخر ہمارے معاشرے میں استاد کی عزت کیوں نہیں ہوتی؟ تو انہوں نے نہایت تلخ لہجے میں اپنے ہی ساتھی اساتذہ کو کم ظرف اور بے حیثیت قرار دیا۔ وہ بھول گئے کہ کبھی وہ خود بھی اسی منصب پر فائز تھے اور اسی علم کے چراغ کی روشنی میں اپنی منزل کی جانب بڑھ رہے تھے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اکثر اساتذہ خود اپنے پیشے اور اپنے ساتھیوں کی عزت نہیں کرتے۔ جب مدرسے کا مولوی مہتمم یا ناظم بنتا ہے تو وہ اپنے ہی مدرسین کی زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے اور اسی طرح سکول و کالج اور یونیورسٹی کا وہی استاد جو کبھی اپنے شاگردوں کے دلوں میں علم کی روشنی بھرتا تھا، جب عارضی طور پر ہی سہی کسی انتظامی عہدے پر پہنچتا ہے تو وہ اپنے ساتھیوں کے لیے فرعون بن جاتا ہے۔ وہ اپنی طاقت اور اختیار کے نشے میں اس قدر گم ہو جاتا ہے کہ اپنے ساتھی اساتذہ کو کمتر سمجھنے لگتا ہے اور ان کے ساتھ وہی رویہ اختیار کرتا ہے جو اکثر و بیشتر سرکاری دفاتر کے ریگولر بابو اساتذۂ کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔

بہت سے واقعات ہیں جن میں اساتذہ نے ہی اپنے کولیگز اساتذہ کی بے عزتی کی ہیں۔ اگر کوئی استاد کسی دفتر میں براجمان سابق استاد کے پاس انتہائی معمولی اور جائز کام کو بھی لے کر جاتا ہے تو کچھ عرصے کے لیے سیٹ پر بیٹھا شخص فرعون بننے کی کوشش کررہا ہوتا ہے یا انتہائی غیر منطقی انداز میں افسر شاہی کی کوئی چال چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس ناپاک چال کو چلتے ہوئے وہ بھونڈا سا نظر آتا ہے، کیونکہ وہ تھا تو پہلے استاد ہی مگر اب مختلف ڈھکوسلوں کے ذریعے سیٹ پر بیٹھا ہوتا ہے۔ جب استاد، استاد کیساتھ ایسا کرے گا تو پھر کسی سے گلہ بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ تاہم ایک بات ذہن میں رہے کہ کچھ اساتذہ اپنے ہم پیشہ اساتذہ کی انتہائی عزت اور احترام کرتے ہیں، جو بہرحال لائق تحسین ہیں۔

ہمارے تعلیمی ادارے بھی اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ مدارس، اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں وہ مقدس جگہیں ہیں جہاں علم کی روشنی سے طلباء کے دل و دماغ منور ہوتے ہیں۔ مگر جب ان اداروں میں ہی اساتذہ کے ساتھ ذلت آمیز سلوک روا رکھا جائے گا، تو پھر ہم معاشرتی سطح پر کس اخلاقی معیار کی توقع کر سکتے ہیں؟ افسوس کہ ہمارے معاشرے نے اساتذہ کی اصل قدر و قیمت کو بھلا دیا ہے، اور انہیں ایک معمولی ملازم سمجھ کر نظرانداز کر دیا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اساتذہ کی اصل قدر کو پہچانیں اور انہیں وہ عزت و احترام دیں جس کے وہ مستحق ہیں۔ یہ اساتذہ ہی ہیں جو قوموں کی تقدیر بدلتے ہیں، جو ذہنوں کو جلا بخشتے ہیں، جو نسلوں کو علم کی روشنی سے منور کرتے ہیں۔ اگر ہم اساتذہ کی قدر نہیں کریں گے اور وہ اپنے پیشے اور شب و روز کے معمولات و معاملات سے مطمئن نہ ہوں تو وہ ہمارے مستقبل کو کیسے روشن بنا سکیں گے؟

ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ علم کو تقسیم کرنے کے بجائے اسے ایک وحدت کے طور پر قبول کریں۔ ہمیں اپنی اجتماعی سوچ اور رویے میں وہ تبدیلی لانی ہوگی جو علم کی حرمت اور اساتذہ کی عزت کو بحال کر سکے۔ علم کی شمع کو روشن رکھنے کے لیے ہمیں اس کے علمبرداروں کو عزت دینا ہوگی، ورنہ ہماری ترقی اور فلاح کے خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکیں گے۔

یہی وہ پیغام ہے جو ہمیں اپنی آئندہ نسلوں تک پہنچانا ہے کہ علم اور استاد کی عزت کے بغیر ترقی کی منزلیں طے نہیں ہو سکتیں۔

Check Also

Pasand Ki Shadi

By Jawairia Sajid