Gilgit Baltistan Maim Khawateen University Ka Qayam, Waqt Ki Zaroorat
گلگت بلتستان میں خواتین یونیورسٹی کا قیام، وقت کی ضرورت
گلگت بلتستان پاکستان کا وہ خوبصورت خطہ ہے جہاں کی وادیاں قدرتی حسن اور معدنی وسائل سے مالا مال ہیں، مگر افسوس کہ یہاں کی ہزاروں بچیاں آج بھی اعلیٰ تعلیم کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے مناسب مواقع سے محروم ہیں۔ خطے میں صرف دو سرکاری یونیورسٹیاں موجود ہیں، جن میں مخلوط نظامِ تعلیم رائج ہے۔ یہ صورتحال تعلیمی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، خصوصاً لڑکیوں کے لیے، جو ثقافتی اور سماجی اقدار کی وجہ سے اکثر گھر کی چار دیواری میں محدود رہ جاتی ہیں۔
آئے روز فکر مند احباب، والدین اور طالبات اور ان کے سرپرستوں سے سننے کو ملتا ہے کہ گلگت بلتستان میں خواتین کے لیے الگ یونیورسٹی ہونی چاہیے تاکہ وہ تمام طالبات بھی اعلی تعلیم سے بہرہ ور ہوں جو کسی وجہ سے مخلوط تعلیم گاہوں میں نہیں جاسکتیں۔ آج ہی برادر لیکچرار ہارون الرشید ملاقات کے لیے تشریف لائے اور دیگر امور کیساتھ اس بات پر بھی انتہائی سنجیدہ گفتگو کررہے تھے بلکہ مجھے فورس بھی کررہے تھے کہ سماج کے اس اہم موضوع پر لکھوں تاکہ سینکڑوں ہزاروں طالبات کی آواز مقتدر اداروں تک پہنچے۔ ان سے عرض کیا کہ اس پر کئی بار مکالمہ کی محفل سجا چکا ہوں تاہم پھر سے لکھوں گا۔ وعدے کی تکمیل کے لیے یہ چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔
مخلوط نظامِ تعلیم گلگت بلتستان جیسے قبائلی، روایتی اور مذہبی معاشرے میں کئی سماجی، اخلاقی اور نفسیاتی مسائل کو جنم دیتا ہے۔ اکثر والدین اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹی بھیجنے سے ہچکچاتے ہیں، جس کے نتیجے میں سینکڑوں قابل اور ذہین بچیاں تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے سے محروم رہ جاتی ہیں۔ لڑکیاں اپنی تعلیمی زندگی میں جس اعتماد اور سازگار ماحول کی متلاشی ہوتی ہیں، وہ موجودہ نظام میں دستیاب نہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ خواتین کے لیے ایک الگ یونیورسٹی کا قیام خطے کی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم کا محفوظ اور سازگار ماحول فراہم کرے گا۔ ایک ایسی یونیورسٹی جہاں صرف خواتین طالبات، اساتذہ اور انتظامیہ ہو، نہ صرف والدین کے خدشات کو دور کرے گی بلکہ خواتین کی تعلیمی اور معاشی خودمختاری کے خواب کو بھی شرمندہ تعبیر کرے گی۔
گلگت بلتستان اسمبلی کو فوری طور پر ایک جامع ایکٹ منظور کرتے ہوئے "خواتین یونیورسٹی" کے قیام کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے۔ اس یونیورسٹی کا نام "دادی جواری یونیورسٹی گلگت بلتستان" بھی رکھا جاسکتا ہے۔
اس ایکٹ میں درج ذیل نکات شامل کیے جا سکتے ہیں:
1۔ مخصوص نصاب اور شعبے
خواتین کے لیے ایسے مخصوص مضامین جو صرف ان کی ضروریات اور عملی زندگی میں کارآمد ہوں۔ مثلاً ہیلتھ اور ویلفیئر میں زنانہ نرسنگ، میڈوائفری (دائی کا کورس)، ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن، فیملی کونسلنگ، ایجوکیشن اور تربیت میں ایلیمنٹری ایجوکیشن، ہوم اکنامکس، مونٹیسوری ٹیچنگ وغیرہ، آرٹس اور ڈیزائن میں فیشن ڈیزائننگ، ککنگ اینڈ بیکنگ، بیوٹی تھراپی اور کاسمیٹولوجی(فن زیبائش و آرائش)، انٹیرئیر ڈیزائننگ وغیرہ اور سوشل سائنسز اور سماجی خدمت میں سوشیالوجی اور سوشل ورک، خواتین اسٹڈیز، ہیومن ریسورس مینجمنٹ، اسی طرح بزنس اور کاروبار میں ای کامرس اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ، بزنس ایڈمنسٹریشن، ہینڈ میڈ کرافٹس اور ایمبرائڈری(سلائی کڑھائی) وغیرہ مضامین خواتین کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ روزگار کے وسیع مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ ان جیسے مضامین شامل کیے جائیں، تاکہ وہ اپنی عملی زندگی میں بآسانی روزگار حاصل کر سکیں۔ صرف ڈگری کا حصول نہ ہو بلکہ وہ علوم و فنون شامل ہوں جو انہیں عملی زندگی میں اپنانے میں آسانی ہو۔ جدید اور روایتی علوم کا امتزاج ہوتاکہ تعلیمی معیار بلند ہو اور بچیوں کی صلاحیتوں کو نکھارا جا سکے۔
2۔ خواتین معلمات و عملہ
تدریسی اور انتظامی عملے میں صرف خواتین اساتذہ اور منتظمین کی تقرری کی جائے تاکہ والدین کا اعتماد بحال ہو اور لڑکیوں کے لیے آرام دہ تعلیمی ماحول میسر ہو۔ طالبات کسی طور میل اساتذہ اور دفتری عملے سے ہراسمنٹ کا شکار نہ ہوں اور نہ ہی اس بہانے والدین اور سرپرست بچیوں کو اعلی تعلیم سے روک سکیں۔
3۔ ثقافتی اور اسلامی اقدار کا تحفظ
یونیورسٹی کا ماحول اسلامی اصولوں اور مقامی ثقافتی روایات کے مطابق ترتیب دیا جائے تاکہ بچیوں کی تعلیم اور تربیت دونوں بہترین انداز میں ہو سکیں۔ اسے بھی والدین کا سسٹم پر اعتماد بحال ہوگا۔
4۔ پیشہ ورانہ اور فنی تربیت
یونیورسٹی میں جدید دور کے مطابق پیشہ ورانہ کورسز، ڈپلومے اور فنی مہارتوں کی تربیت دی جائے تاکہ خواتین خودکفیل اور معاشی طور پر مضبوط ہو سکیں۔ اس پر ماہرین سے خصوصی رہنمائی لینے کی ضرورت ہے۔
علمائے کرام اور معاشرتی رہنماؤں کا کردار
جناب آغا راحت حسین صاحب، جناب قاضی نثار احمد صاحب اور دیگر جید علمائے کرام کو چاہیے کہ وہ اس اہم تعلیمی مسئلے کو معاشرتی اور مذہبی نقطہ نظر سے اجاگر کریں۔ گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبران کے ساتھ مشاورت کرتے ہوئے خواتین یونیورسٹی کے قیام کے لیے متفقہ قانون سازی کی راہ ہموار کریں۔ عوامی رہنماؤں اور سماجی تنظیموں کو بھی اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے تاکہ حکومت اور متعلقہ ادارے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اہل سنت اور اہل تشیع کمیونٹی کی طرف سے کبھی کبھی یہ مطالبہ سامنے آجاتا ہے تاہم یہ اخباری بیان کی حد تک رہ جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو جی بی اسمبلی کے ذریعے عملی جامہ پہنایا جائے، اسماعیلی برادری قطعاً اس معاملہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی بلکہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اسماعیلی برادری کے ممبران اسمبلی، مذہبی و تعلیمی اور رفاہی ادارے اس باب میں اہل سنت و اہل تشیع کے معاون بنیں گے۔ آپ قدم تو اٹھائیں پھر دیکھیں کہ اللہ کی مدد و نصرت کیسے شامل نہیں ہوتی۔
کسی بھی سطح پر بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں دکھائی دے رہی ہے تو پھر تمام اسٹیک ہولڈرز کو فوری طور پر یہ عملی اقدام کرنا چاہیے۔
گلبر حکومت کو امر ہونے کا موقع
گلبر حکومت ویسے بھی اپنے ٹینور کے آخری مرحلے میں ہے۔ غیر ضروری معاملات میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اگر خواتین یونیورسٹی کے لیے مکمل قانونی سازی کرکے، کام کا آغاز کراکر رخصت ہوتی ہے تو یہ گلگت بلتستان کے لیے ایک عظیم خدمت ہوگی۔ حفیظ الرحمن، کینسر ہسپتال، ہارٹ اسپتال جیسے پراجیکٹس منظور کروا کر ہمیشہ کے لیے امر ہوسکتے ہیں تو حاجی گلبر صاحب اور اس کے وزیر و مشیر اور ترجمان وغیرہ بھی ایک شاندار خواتین یونیورسٹی بناکر ہمیشہ کے لیے امر ہوسکتے ہیں۔ کیا ان کو میری بات سمجھ آجائے گی؟
گلگت بلتستان میں خواتین یونیورسٹی کا قیام صرف ایک تعلیمی مطالبہ نہیں بلکہ معاشرتی ترقی اور خواتین کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ یہ اقدام تعلیمی میدان میں خواتین کو وہ مقام دے گا جس کی وہ حقدار ہیں۔ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اس خواب کو عملی جامہ پہنایا جائے اور گلگت بلتستان کی بچیوں کے تعلیمی اور معاشی مستقبل کو محفوظ بنایا جائے۔ آج کی گئی سنجیدہ قانون سازی کل کا روشن مستقبل بنا سکتی ہے۔ آئیے! مل کر تعلیم کی یہ شمع روشن کریں اور گلگت بلتستان کی بیٹیوں کو ان کا تعلیمی حق دیں۔