Dr Adil Khan Ki Shahadat, Sawal To Uthe Ga (2)
ڈاکٹر عادل خان کی شہادت: سوال تو اٹھے گا (2)
میری خوش قسمتی یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب جیسی شخصیت کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے سینکڑوں خطبات کے سوا درجہ سابعہ میں مشکوة شریف اور دورہ حدیث میں بخاری شریف کا ایک حصہ ڈاکٹر صاحب سے پڑھنے کا موقع ملا۔ وہ صحیح معنوں میں مدرس تھے۔ ان کا درس خطابت کی شان لیے ہوئے ہوتا تھا۔ احادیث کے بیان میں کبھی کبھار پورا پورا خطیبانہ رنگ آجاتا۔ ان پر بھی وجد طاری ہوتا اور ہم طلبہ بھی وجد میں آجاتے اور کبھی کبھار فرطہ محبت میں کلاس میں ہی نعرہ بھی لگ جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں زبان کی چاشنی سے نوازا تھا۔ اردو، انگریزی، عربی اور پشتو جس روانی سے بولتے تھے خال خال لوگوں کے حصے میں ایسی سلاست و روانی اور فصاحت و بلاغت آجاتی ہے۔ حالات و واقعات بہت زیادہ ہیں تاہم کاغذ کے ان صفحات میں اتنی گنجائش کہاں کہ حضرت شہید کی خدمات کو سمویا جائے۔
حضرت کی شہادت کی خبر سنتے ہی دماغ پھٹنے لگا۔ ساری رات ٹہلتا رہا۔ رات کے کسی پہر میرے دل و دماغ میں جو تاثرات وارد ہوئے وہ لکھ کر فورا سوشل میڈیا میں شیئر کیا۔ اہل علم و قلم اور دیندار طبقات کی طرف سے بہت پسند کیے گئے۔ آپ سے بھی شیئر کرتا ہوں۔
"میرا سوال واضح طور پر ریاست سے ہے۔ ریاستی اداروں سے ہے۔ دھرتی ماں سے ہے۔ میں آئین پاکستان کو مانتا بھی ہوں جانتا بھی ہوں، پڑھتا بھی ہوں اور پڑھاتا بھی ہوں۔ آئین کی رو سے ایک شہری کی جان کا تحفظ ریاست اور اس کے اداروں کا فرض ہے۔ آئین پاکستان کا بنیادی حقوق کا جدول میرے سامنے گھوم رہا ہے۔ اک اک شق مجھے للکار رہی ہے اور ریاست کا منہ چڑا رہی ہے۔ ہر شق اپنی ناکامی اور بے بسی کا اظہار بھی کررہی ہے۔ ارٹیکل 9 کی رو سے شہری کا حق ہے کہ وہ زندگی باعزت طریقے سے جیئے۔ مگر یہاں تو زندگی چھین لی جاتی ہے۔
آئین کی ارٹیکل 24 کا، نافذ کرنا ریاست کا اولین فرض ہے۔
کیوں صاحب! کیا آپ اپنا فرض ادا کررہے ہیں؟ اگر ہاں تو پھر سربازار اتنے بڑے عالم دین، پی ایچ ڈی اسکالر اور خادم قوم وملت کا خون کیوں گرا؟ گولیوں کی برسات کرنے والے کیسے رفوچکر ہوگئے؟ سی سی ٹی وی فوٹیج سب بتارہے ہیں۔ سب دکھا رہے ہیں۔ کچھ ابہام رہتا ہی نہیں۔ کیا وہ پکڑے جائیں گے؟ کیفرکردار تک پہنچیں گئے؟ یقین تو بالکل بھی نہیں آرہا ہے۔
ماضی گواہ ہے کہ کراچی اور اسلام آباد کے انہیں سڑکوں پر حضرت سے بھی بڑے ان ہی کے اساتذہ ومشائخ اور علما و شیوخ کا خون گرا مگر قاتل اب تک معلوم ہی نہ ہوسکا۔ پھر یقین کیسے کیا جائے؟ سوال تو اٹھے گا کہ قاتل کون ہے۔ اگر قاتل معلوم نہیں تو پھر اس کی ذمہ داری ریاست کی ہی ہوتی ہے۔
قاتل کیوں نہیں پکڑا گیا؟ عدل کہاں گیا؟ آئین کی علمبرداری کیوں نہیں قائم کی گئی؟ قانون کی حکمرانی کا بھرم کیوں نہیں رکھا گیا؟ سیکورٹی کہاں تھی؟ قومی سلامتی کے ادارے کیا کررہے ہیں؟ کیا قانون نافذ کرنے والے کٹھ پتلیاں بن گئے ہیں؟ یا پھر پشت پناہ بنے ہوئے ہیں؟ کیا ماقبل علماء کے قاتلوں کی طرح حضرت کے سفاک قاتلوں کی گرفتاری کا عمل بھی سردخانے میں ڈالا جائے گا؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ انہیں بچایا جائے گا؟ پھر! کیا یہ خون رائیگاں جائے گا؟ نہیں بالکل بھی نہیں۔ یہ ایک سفید ریش بوڑھے عالم دین کا خون ہے۔ جس نے پاکستان کی پہلی عربی جامعہ کا آغاز کیا جہاں بیک وقت ہزاروں طلبہ مفت میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ کیا اس خون کے ہر قطرے سے پاکستانیت نہیں ٹپک رہی ہے؟طکیا اس خون سے اسلام کی خوشبو نہیں آرہی ہے؟طڈاکٹر صاحب بوڑھے اور سفید ریش ضرور تھے مگر ان کا خون جوان تھا۔طقبل اس کے، کہ دھرتی ماں خانہ جنگی کا شکار ہوجائے۔طاس ملک کے ہر محب وطن شہری کو اس جمے ہوئے خون کا حساب چاہیے۔
ڈاکٹر محمد عادل خان کوئی معمولی انسان نہیں تھے۔طوہ لاکھوں علما کا استاد تھا۔ ملک بھر اور دنیابھر میں ان کی تلامذہ اور چاہنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔امریکہ سے ملائشیا تک اس نے درس و تدریس کا کام کیا۔ دینی خدمات انجام دی۔ اس ملک کا بچہ بچہ ریاست اور اس کے اداروں سے سوال کرنے میں حق بجانب ہے۔ سوال تو اٹھے گا۔ بار بار اٹھے گا۔
جواب، انصاف کی شکل میں دینا آپ کا کام ہے۔ سوال کرنے والا ہر شہری ریاست کو ٹیکس دیتا ہے۔ ریاست کو جان سے عزیز مانتا ہے۔ ریاست کے لیے جان قربان کرتا ہے۔ یہ محب وطن شہری آئین کی علمبرداری چاہتا ہے۔ قانون کی حکمرانی کا علم بلند کررہا ہے۔ اور انصاف کا پرچار اس کا فرض اول ہے۔ اور انصاف کا طلب بھی کررہا ہے۔
پھر ایک ایسا مطیع شہری سوال اٹھا سکتا ہے۔سوال اٹھانے کا پورا پورا آئینی، قانونی، شرعی اوراخلاقی حق اسکو حاصل ہے۔ یہ حق ریاست نے بھی تسلیم کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کیا ہے۔ جدید ٹیکالوجی کے اس دور میں قاتل کو پکڑنا کوئی مشکل نہیں۔ آپ قاتل پکڑیں۔ انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیجئے۔ یہ قوم آپ کا احسان مند رہے گی۔
گلگت بلتستان کے علماء کرام نے ڈاکٹر عادل خان رحمۃ اللہ کی شہادت پر فوری رد عمل دیتے ہوئے ایک ہنگامی میٹنگ کا انعقاد کیا جس میں آئندہ کے لائحہ عمل طے کیا گیا۔ علماء کرام کی طرف سے پریس کانفرنس کے لیے میڈیا بریف لکھنے کی ذمہ داری مجھے دی گئی۔ میڈیا بریفنگ کے لیے جو اہم نکات پر اتفاق کیا گیا اور متفقہ طور پر دستخطوں کے ساتھ جاری کیاگیا اس کا متن حسب ذیل ہے۔ ملاحظہ کیجئے:
"گلگت بلتستان کے ہیڈ کوارٹر گلگت میں جملہ علماء کرام، دینی و مذہبی جماعتوں کے رہنماوں اوردینی مدارس و جامعات کے ذمہ داران کی ایک اہم میٹنگ مورخہ گیارہ اکتوبر 2020 کو حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہید کے بہیمانہ قتل کے حوالے سے محمدی جامع مسجد کشروٹ گلگت میں فضلاء جامعہ فاروقیہ کراچی کی دعوت پر مولانا قاضی نثاراحمد کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ اس میٹنگ میں مذکورہ اہم نکات پر اتفاق رائے کیا گیا۔
١۔ گلگت بلتستان کے جملہ علماء کرام، دینی جماعتوں کے رہنماوں اورمدارس وجامعات کے ذمہ داران نے اس بہیمانہ اور سفاک واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے جانشین شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان، مولاناڈاکٹر محمد عادل خان کی شہادت کوالمناک قومی سانحہ قرار دیا اور کہا گیا کہ ناموس رسالتﷺ و دفاع ناموس صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے غیرت مند قائد اور ملی وحدت کے لیے کوشاں شخصیت کا قتل پاکستان کے دینی تشخص پر حملہ ہے۔ علماء کرام نے سفاک قاتلوں کی گرفتاری تک سندھ حکومت اور موجودہ وفاقی حکومت کو مولانا کے قتل کا ذمہ دار قرار دیا۔
٢۔ گلگت بلتستان کے جملہ علماء کرام وفاقی حکومت، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور قومی سلامتی کے اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مولانا ڈاکٹر عادل خان شہید کے سفاک قاتلوں کوفی الفور گرفتار کرکے کیفرکردار تک پہنچائے اور ان کے سرپرستوں کو طشت ازبام کرے۔
٣۔ علماء کرام نے فیصلہ کیا کہ کل بروز پیر ١٢ اکتوبر کو کلمہ چوک کشروٹ میں احتجاجی اور مذمتی دھرنا دیا جائے گا۔ جمعہ المبارک تک شہر کی بڑی مساجد میں مولانا عادل خان شہید کا "مشن ناموس رسالتﷺ و دفاع ناموس صحابہ" کو جاری رکھنے کے لیے پروگرامات کا انعقاد کیا جائے گا۔ جمعہ المبارک ١٦ اکتوبر کو پورے گلگت بلتستان کے علماء و عوام کا کلمہ چوک کشروٹ گلگت میں اہم احتجاجی مظاہرہ ہوگا۔ اور ساتھ ہی پورے گلگت بلتستان سے علماء و عوام کو جمع کرنے کے لیے وفود تشکیل دیے گئے۔ ان پروگرامات میں عوام الناس کو شرکت کی پرزور دعوت دی جائے گی۔
٤۔ علماء کرام نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور اکابرین علماء کرام کی طرف سے ملنی والی ہدایات کی روشنی میں مولانا ڈاکٹر عادل خان کے مشن اور تحریکی فکر کو گلگت بلتستان میں زندہ رکھنے کے لئے منظم عملی جدوجہد کی جائے گی۔
٥۔ بہت جلد مولانا ڈاکٹر عادل خان کی قومی و ملی اور دینی و تعلیمی خدمات پر ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا جائے گا جس میں مولانا شہید کے تلامذہ، علماء کرام اور دیگر سیاسی و مذہبی رہنماء اپنے مقالات اور خطبات پیش کریں گے۔"
اس میٹنگ میں فضلاء جامعہ فاروقیہ نے خصوصی اور دیگر تمام علماء کرام نے عمومی شرکت کی۔ حضرت کی شہادت نے ہم سب کو ہلا کررکھ دیا ہے۔ گلگت بلتستان کا ہر دیندار شخص غمزدہ ہے۔ دیگر مدارس و جامعات سے حضرت شہید اور جامعہ فاروقیہ کا فیض گلگت بلتستان پر زیادہ ہے۔ گلگت بلتستان میں جامعہ کے ہزاروں فضلاء و طلبہ موجود ہیں۔ حضرت کا نماز جنازہ جامعہ فاروقیہ فیز ٹو میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ حضرت شہید کے برادر صغیر مولانا عبیداللہ خالد مدظلہ نے پڑھایا اور شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان نوراللہ مرقدہ کے پہلو میں مدفون ہوئے۔ حضرت رحمہ اللہ کی حقیقی اولاد سے تعزیت کی ہمت نہیں بن رہی ہے کیونکہ ہم خود بھی پسماندگان میں شامل ہیں۔ اللہ ہم سب کو صبر جمیل عطا کرے۔ رب مغرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔