Taza Roti Pakane Ka Institution Khatre Mein?
تازہ روٹی پکانے کا انسٹی ٹیوشن خطرے میں؟
میری والدہ اللہ بخشے شادی سے پہلے اپنے گھر میں روٹیاں وغیرہ نہیں پکاتی تھیں، ماموں کے گھر میں رہا ہمیشہ۔ شادی کے بعد امی نے روٹی پکانا شروع کیا اور پھر جلد ہی سیکھ لیا۔ مجھے یاد ہے کہ ہم دونوں بھائی جب بھی گھر آتے، امی ہمیشہ تازہ روٹی پکا کر دیتیں۔ ہم لوگ سکول سے ایک ڈیڈھ بجے تک گھر آ جاتے، دو بجے تک کھانا کھا کر پھر اکیڈمی پڑھنے چلے جاتے۔
والد صاحب وکیل تھے، کورٹس چار بجے بند ہوتیں، قریب ہی عدالتیں تھیں، سوا چار بجے تک وہ گھر آجاتے۔ والدہ انہیں ہمیشہ تازہ روٹی پکا کر کھانا کھلاتیں۔ اسی طرح رات کی روٹین ہوتی۔ ہمارے بعض عزیزوں کے گھر مائیں روٹیاں پکا کر ہاٹ پاٹ وغیرہ میں لپیٹ کر رکھ دیتیں، سالن بھی بنا ہوتا۔ لڑکے بالے جب بھی گھر آتے روٹی نکال کر کھا لیتے۔ ہم نے ماں کی ہمدردری میں کئی بار کہا کہ امی آپ بھی بنا کر رکھ دیا کریں، مگر انہیں یہ پسند نہیں تھا۔ امی کو لگتا تھا کہ توے سے تازہ اترتی روٹی کا مزا ہی کچھ الگ ہے، اس لئے میرے بچوں اور خاوند کو یہی ملنا چاہیے۔
والدہ کو گرمی زیادہ لگتی تھی، ہمارے احمد پورشرقیہ والا گھر بڑا تھا، اچھا خاصا صحن تھا، مگر جنوبی پنجاب میں ٹمپریچر بھی پنتالیس چھیالیس ڈگری تک چلا جاتا ہے، اس سخت گرمی میں کچن کی گرمی میں کھانا پکانا ظاہر ہے مشکل کام ہے، اس کے باوجود مجھے یاد نہیں کہ کبھی ایک دن یا ایک وقت بھی ہمیں تازہ روٹی نہ ملی ہو۔ یہ ذہن میں رہے کہ ہم دونوں بھائی بھی زیادہ نخرے والے نہیں تھے اور والد مرحوم بھی اپنے رعب داب اور مضبوط پرسنالیٹی کے باوجود اس معاملے میں سختی کرنے والے نہیں تھے وہ اس کے حامی تھے کہ بیوی کو جس قدر سہولیات دی جا سکتی ہیں، دی جائیں۔ وہ خوش خوراک آدمی تھے، مگر ان کو اس پر اعتراض نہیں تھا کہ کچھ دیرپہلے پکی ہوئی روٹی مل جائے، مگر اس کے باوجود ان کو ہم نے کبھی باسی یا رکھی ہوئی روٹی کھاتے نہیں دیکھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری والدہ کی محبت کے ساتھ اپنے بچوں اور گھر والوں کے لئے کچھ کر گزرنے کا عزم اور محنتی طبعیت تھی۔ حالانکہ وہ مالی طور پر زیادہ خوشحال اور بڑے گھر سے آئی تھیں، کراچی میں کوٹھی سے احمد پورشرقیہ جیسے چھوٹے شہر میں ایک سادہ سے مکان میں آئی تھیں، ا سکے باوجود انہوں نے اپنے آپ کو اسی ماحول میں ڈھال لیا اور اپنے محترم خاوند کے لئے ہمیشہ آسانیاں پیدا کیں۔ اللہ ان دونوں کی قبر کو روشن ومنور کرے اور کروٹ کروٹ سکون عطا فرمائے آمین۔
میری اہلیہ کا بھی کم وبیش یہی معاملہ ہے۔ یونیورسٹی سے ایم اے اور پھر ایم فل کرنے کے بعد انہون نے کچھ عرصہ یونیورسٹی میں پڑھایا، میڈیا میں بطور پروڈیویسر کام کیا، پہلے روہی چینل اور پھر ریڈیو پاکستان میں بطور ڈی جے/پریزینٹر کام کرتی رہیں اور پھر شادی ہوگئی۔ گھریلو کاموں کا خاص تجربہ نہیں تھا، سب شادی کے بعد ہی سیکھا۔
میری بیوی نے بھی اپنی محبت کے باعث ہمیشہ کوشش کی کہ تازہ کھانا ملے، تازہ روٹی دی جائے۔ میں نے اسے بھی بہت بار روکا اور کہا کہ یہ کوئی ایشو نہیں۔ روٹیاں پکا کر رومال میں لپیٹ کر رکھ دی جائیں، ضروری نہیں کہ توے سے اترتی ہوئی روٹی ہو۔ میری بیوی کا اصرار تھا کہ مجھے یہ اچھا لگتا ہے اور خوشی ہوتی ہے۔ میری جاب کی نوعیت ایسی رہی کہ رات کو دیر سے گھر آنا ہوتا تو بہت بار ایسا ہوا کہ رات بارہ ایک بجے بھی مجھے تازہ کھانا ملا۔ حتیٰ کہ کئی بار میں نے اس پر بحث بھی کی اور سختی سے ہدایت جاری کی کہ تم رات نو دس بجے روٹی پکا کر رکھ دیا کرو، میں جب آئوں گا تو سالن گرم کرکے کھا لوں گا، پھر بھی وہ اس پر مصر ہی رہتی۔
یہ تو اللہ بھلا کرے حکومت کا جس نے لاہور شہر میں ساڑھے نو، دس بجے گیس کی بندش کر دی ہے تو پھر اب میرے لئے سالن گرم کرکے اور گھی والی نرم روٹی کاغذ میں اچھی طرح لپیٹ کر ایک ٹفن میں رکھ دی جاتی ہے۔ گیارہ بارہ بجے واپس آ کر وہی کھا لیتا ہوں۔ کچھ عرصہ قبل گیس کا سلنڈر بھروا لیا گیا تاکہ کسی ایمرجنسی میں کام آئے۔ میں نے دانستہ اس جانب توجہ نہیں دلائی کہ کہیں اہلیہ پھر سے تازہ روٹی کھلانے کے چکر میں سلنڈر پر روٹی نہ پکانا شروع کر دے۔
ہمارے گھر میں بچوں کو دونوں طرح کی عادت ہے۔ تازہ روٹی بھی کھا لیتے ہیں اور انہیں ہاٹ پاٹ میں رکھی روٹی کھانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ خاص کر بڑا بیٹا اکثر کھانے کے وقت غائب رہتا ہے تو وہ جب آتا ہے، آرام سے روٹی ہاٹ پاٹ میں نکال کر سالن گرم کرکے کھا لیتا ہے۔ پراٹھے وغیرہ البتہ انہیں کوشش یہی ہوتی ہے کہ سب تازہ ہی کھائیں۔ میں پراٹھے میں تھوڑا چوزی ہوں، بے شک دو مہینے بعد بنے، مگر اسے کرسپی، خستہ ہونا چاہیے، موٹا نہ ہو، ہلکا ہو اور درمیان سے اس میں پاپڑ جیسی خستگی ہونی چاہیے۔ میری بیوی کی ہمیشہ کوشش رہے کہ اگر پراٹھے ملازمہ بنا رہی ہے تب بھی میرے لئے وہ پراٹھہ خود بنائے یا اپنی نگرانی میں اسی طرح کا خستہ پراٹھہ بنوائے۔ جواب میں ہمارے دل سے ان کے لئے دعائیں نکلتی ہیں۔
گزشتہ روز ایک محترم خاتون نے پوسٹ کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ تازہ روٹی کی عادت مردوں اور بچوں کو نہ ڈالی جائے تاکہ مشکل پیدا نہ ہو۔ اس پوسٹ پر جیسے دل وجان سے نہال ہو کر خواتین نے اس کی پرجوش حمایت کی اور اپنے ایسے تجربات شیئر کئے، اس سے سچی بات ہے میرا دل بند سا ہونے لگا۔ مجھے تو یوں لگا کہ تازہ روٹی پکانے کا انسٹی ٹیوشن ہی ختم ہونے جا رہا ہے۔ اچھا دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب خواتین دینی مزاج رکھنے والی تھیں، جن کا روایتی فیمنزم سے کوئی تعلق نہیں اور جو کھانے پکانے میں دلچسپی بلکہ بعض تو ید طولیٰ رکھتی ہیں۔ اس کے باوجود تازہ روٹی کے انسٹی ٹیوشن سے ان کی مغائرت اور بے رخی ہمارے جیسے تازہ روٹی کے مداحین کو بے چین کر گئی، یہ پوسٹ اسی لئے لکھی گئی۔
عرض یہ ہے کہ قابل صد احترام بی بیو، ہماری مائوں، بہنو، بیٹیو، تازہ روٹی، توے سے اتری پھولی پھولی تازہ چپاتی کی لذت کا مقابلہ دنیا میں اور کوئی چیز نہیں کر سکتی۔ آپ ضرور اپنے تابعدار خاوندوں کو ہاٹ پاٹ میں رکھی روٹی کھانے کی عادت ڈالیں، بے شک دوپہر کی رکھی روٹی رات کو کھلا دیں، اپنے بچوں کو بھی اسی روٹین پر چلائیں۔ آپ کا گھر ہے، آپ کی مرضی، جو جی چاہے کریں۔ اس انسٹی ٹیوشن کو مگر خدارا ختم نہ کریں۔
توے سے اترتی تازہ چپاتی کا مزا اور ذائقہ تو اپنی اگلی نسل میں منتقل کر دیں۔ اپنے لائف پارٹنرز کو بھی کبھی کبھار سہی، کسی بھولی بسری یاد کے طور پر سہی، یہ روایت تو برقراررکھیں۔
آپ یقین کریں مرد جاتی اتنی بری نہیں، اتنی ظالم، سفاک ہرگز نہیں کہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے۔ آخر آپ کی زندگی میں بے شمار اور بے پناہ سہولتیں، مزے، محبتیں اور خوشیاں بھی یہی مظلوم مرد جاتی ہی فراہم کرتی ہے۔ کبھی باپ، کبھی خاوند اور کبھی بھائی، بیٹے کی شکل میں۔
جیسا کہ اوپر تفصیل سے بیان کیا، میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ ہمیشہ توے سے اترتی روٹی ہی ملے۔ میں بھی چاہتا ہوں کہ شدید گرمی میں گھر کی خواتین کو کچھ ریلیف ملے، اس لئے تو میرا خیال ہے ہے کہ اگر آپ افورڈ کر سکیں تو چاہے صرف روٹی پکانے، برتن دھونے کے لئے ہی سہی، کسی میڈ یا ہلیپر خاتون کا انتظام کر لیں۔ اس کا یہ فائدہ بھی ہوجائے گا کہ میاں بیوی اور پوری فیملی اکھٹے بیٹھ کر کھانا کھا لیں گے اور روٹی کی سپلائی جاری رہے گی۔
میرا اصرار صرف یہ ہے کہ تازہ روٹی پکانے کا انسٹی ٹیوشن ہی ختم نہ ہوجائے۔ پہلے ہی نئی نسل کی بچیاں کچن میں وقت گزارنے اور سسرال میں کام کاج کرنے پر کچھ زیادہ یقین نہیں رکھتیں۔ ان میں سے بہت سوں کی خواہش ہوتی ہے کہ باہر سے برگر، پیزا منگوا لیا جائے اور خاوند کو بھی اسی پر لگا لیں یا اسے سینڈویچ پر ٹرخا دیں۔ انڈسٹریل لائف کا یہ ویسے بھی سائیڈ ایفکٹ ہے۔
میری ایک ہی بیٹی ہے جو یونیورسٹی پڑھتی ہے، اس کی باقاعدہ ڈیوٹی لگا رکھی ہے کہ رات کا کھانا وہی بنائے گی، جس میں روٹیاں بنانا بھی شامل ہو، کبھی کبھار آٹے کے پیڑے باہر بھیج کر تنور سے بھی روٹی لگوا لی جاتی ہے تاکہ گھر کی دیسی گندم کے آٹے کی روٹی کھائی جا سکے، مگر میری ہمیشہ بیٹی کو یہی نصیحت ہوتی ہے کہ جتنی مرضی اعلیٰ تعلیم حاصل کرو، اگر چاہو تو جاب بھی کرنا، مگر تمہیں گھر کے تمام کام آنے چاہیں۔ میں اسے لائف سکلز میں شمار کرتا ہوں۔ بچیوں کو گھر کے تمام کام آتے ہوں اور انہیں کرنے کا کچھ سٹیمنا بھی ہوتاکہ بعد میں ذمہ داری پڑنے پر یہ سب اچھے سے کام کئے جا سکیں۔
اچھا میں یہ بھی ماننے کو تیار ہوں کہ اگر بیوی جاب کرتی ہو تو پھر اس حساب سے چلا جائے، ظاہر ہے کسی بھی خاتون کے لئے دفتر سے تھک ہار کر واپس آنے کے بعد فوری کھانا پکانا مشکل ہوجاتا ہے۔ انہیں اپنے حساب سے چلنا چاہیے، ممکن ہو تو دو تین دن کا کھانا اکھٹا بنا لیا، روٹی تندور سے پکڑ لی جائے یا جو بھی انہیں بہتر لگے۔
تاہم جو خاتون ملازمت نہیں کر رہی، اس کا ایثار کیش خاوند اسے جاب کے لئے دھکے کھانے اور شدید گرمی، دھوپ میں تکلیف اٹھانے سے باز رکھنا چاہتا ہے۔ اس بی بی کو تو چاہے کہ اپنے شوہر نامدار کو ہر روز نہ سہی تو کبھی کبھار ہی توے سے اترتی تازہ پھولی ہوئی گرم گرم خستہ روٹی کے مزے سے لطف اندوز کرائے۔ او بھئی گرمیوں میں نہیں ہوسکتا تو سردیوں میں تو ایسا کر لو۔
خود سوچیں کہ اس گرمی میں اگر گھر میں تازہ توے سے اترتی مسی روٹی ہو، ساتھ آم، لیموں، لسوڑے کا اچار، ٹھنڈی یخ لسی کا جگ اور کھیرے پیاز کا سلاد ہو تو کیا ہی بات ہے۔ یا پھر بھنڈی کی تازہ سبزی، کھیرے پیاز، ٹماٹر کا سلاد، پودینے اور سبز مرچ کی چٹنی اور پھر توے سے اترتی تازہ روٹی ہو تو دنیا ہی میں جنت کے مزے کی جھلک ملتی ہے۔
جی چاہے تو اپنے تخیل میں چکن یا مٹن قورمے کا تصور کر لیں، گرمی کے موسم میں کدو یا ٹینڈو گوشت کا شوربہ ہو، یا پھر بھنا قیمہ بھنڈی بنی ہو یا اگر سادہ رکھنا ہے تو سادہ تلے ہوئے آلو ہی کیوں نہ ہوں، تازہ روٹی ان سب کے ذائقے کو دوبالا کر دیتی ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے ان سب ڈشز کے ساتھ ہاٹ پاٹ میں رکھی ٹھنڈی روٹی کا تصور کریں، آپ خود بتائیں کہ اشتہا مرجھا نہیں جائے گی۔
اچھا ویسے ایک نکتہ کل وہی پوسٹ پڑھتے ہوئے آیا تھا، مگر تب کمنٹ میں نہیں لکھا تھا کہ کچھ پوسٹ کے لئے بھی بچا کر رکھنا تھا۔ جب بھی ہم لوگ ہوٹل میں کھانا کھانے جاتے ہیں تو ہر کوئی وہاں پر تازہ نان یا تازہ خستہ روٹی کی فرمائش کرتا ہے۔ مگر کیوں؟ حتیٰ کہ وہ بیبیاں جو گھر میں اپنے مردوں کو ہاٹ پاٹ میں گھنٹوں رکھی ہوئی روٹی کھلاتی ہیں، وہ بھی یقیناً ویٹر کو زور دے کر کہیں گی کہ تازہ روغنی نان یا تازہ روٹی لانا۔
آخری نکتہ
آخری نکتہ خاص طور پر مرد حضرات کے لئے ہے، بالخصوص وہ جو گھر کے سربراہ ہیں۔ یہ کہ ایسی خاتون خانہ کو جو گرمی میں کچن میں کھڑے ہو کر آپ لوگوں کو تازہ روٹی اور تازہ کھانا کھلاتی ہے، اس کی بے پناہ پزیرائی اور آئوبھگت ہونی چاہیے۔
ایسی بیوی کو تو اپنی پلکوں پر بٹھائیں، اس پر نچھاور ہوں، اس کے شکر گزار ہوں، شکریہ ادا کریں، اس کے ساتھ حسن سلوک کریں۔ اس کا بے پناہ خیال کریں۔ اسے کچن میں ٹھنڈا پانی، سکنجبین یا او آرا ایس فراہم کریں۔
اس کی صحت کا خیال کریں اور اس پر ہرگز ہرگز ایکسٹرا برڈن نہ ڈالیں۔ کبھی وہ ایسا نہ کر پائے، اس کی طبعیت ٹھیک نہ ہو یا تھکن ہو یا کوئی اور وجہ تو پھر اس دن ہنسی خوشی گزارا کریں۔ باہر سے روٹی منگوا لیں یا کوئی بھی اور جگاڑ کریں۔ مقدور ہو تو کوئی جزوقتی ملازمہ رکھ لیں تاکہ بیوی کے لئے آسانی پیدا ہو۔
مطلب یہ کہ اس کے ایثار اور قربانی کا اتنا اچھا اسے صلہ ملے کہ وہ نہال ہوجائے، سرشار ہوجائے اور اسے لگے کہ اس کے جذبے کی قدردانی کی گئی۔
نوٹ: اس میں ایسا کوئی بھی مشورہ نہیں دیا گیا، جس پر خاکسار عمل پیرا نہ ہوتا ہو۔ اس لئے الحمداللہ اس حوالے سے قول وفعل میں تضاد موجود نہیں۔
نوٹ: یہ ذہن میں رہے کہ یہ مشورہ پاکستان انڈیا کے لوگوں کے لئے ہے، ہر ملک کا اپنا رواج اور دستور ہوتا ہے۔ جیسا ترکی کا رواج شائد مختلف ہے۔ افغانستان میں تنور سے نان لینے کا عام رواج ہے، ایران میں بھی، مصر میں مجھے ریڑھی پر ٹھنڈی روٹیوں کا انبار دیکھ کر حیرت ہوئی، پتہ چلا کہ وہاں دو تین دن پرانی یہ روٹیاں خرید کر استعمال ہوتی ہے۔ اللہ مصریوں پر رحم کرے۔