Muthi Bhar Maseehayi
مٹھی بھر مسیحائی
کاکول اکیڈمی میں زیرتربیت نوجوان فوجی افسروں کے حوالے سے بڑی دلچسپ کتابیں لکھی گئی ہیں جسے پڑھنے کے بعد اکیڈمی کی زندگی کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ بھی کہ نوجوان افسروں کی عملی زندگی کے ابتدائی ایام کیسے گزرتے ہیں۔ برگیڈئر (ر) صولت رضا، کرنل (ر) اشفاق حسین اور میجر (ر) سہیل پرواز کی کتب اس حوالے سے بہت کچھ آشکار کرتی ہیں۔ صولت عباس صاحب کی کتاب کاکولیات کے تو درجنوں ایڈیشنز شائع ہو چکے ہیں۔
ہر شعبے کی اپنی دنیا اور اپنے ہی شیڈز ہوتے ہیں۔ ان سے تعلق رکھنے والے اگر اپنی اندرونی صورتحال پر قلم اٹھائیں تو قارئین کے لئے بہت کچھ کھل کر سامنے آ جائے گا۔
صحت کا شعبہ بھی ایسا ہی ہے۔ میڈیکل کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہسپتالوں میں بطور ٹریننگ ہائوس جاب کرنے والے نوجوان ڈاکٹروں پر کیا گزرتی ہے۔۔ اس کا بہت کم لوگوں کو اندازہ ہے۔
مجھے اتفاق سے اپنی زندگی کا کچھ عرصہ ڈاکٹرز ہاسٹلز میں گزارنے کا موقعہ ملا تو قریب سے دیکھا کہ ہائوس جاب کی کٹھنائیوں سے نبردآزما ان لائق نوجوانوں پر کیا گزرتی ہے اور سسٹم کس بے رحمی اور سفاکی سے انہیں توڑ پھوڑ کر ایک نئے سانچے میں ڈھال دیتا ہے۔ جذبات سے عاری روبوٹک سانچہ۔
ڈاکٹر نوید خالد تارڑ پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں، لکھنے سے بھی انہیں شغف ہے اور وہ فیس بک پر مختلف تحریریں لکھتے رہتے ہیں۔ انہوں نے ایک بڑا اہم کام کیا ہے کہ اپنی ہائوس جاب کے حوالے سے ایک کتاب "مٹھی بھر مسیحائی" لکھ ڈالی۔
ڈاکٹر نوید خالد تارڑ کو لاہور کے مشہور میئو ہسپتال کے مختلف وارڈز میں ہائوس جاب کرنے کا موقعہ ملا۔ انہوں نے ان ایام کی کسی حد تک تکلیف دہ روداد بڑے دلچسپ انداز میں بیان کر ڈالی ہے۔
ڈاکٹر نوید کی تحریر رواں اور سہل ہے اور وہ بڑی سہولت سے اپنے مشاہدات، تاثرات، تجربات قاری تک منتقل کر دیتے ہیں۔
ڈاکٹر نوید خالد تارڑ کی کتاب پڑھ کر قارئین کے سامنے سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے نوجوان ڈاکٹروں کی زندگی کا وہ حصہ آئے گا، جس کے بارے میں وہ زیادہ نہیں جانتے۔
ان ینگ ڈاکٹرز کے حوالے سے عوام کا عمومی نقطہ نظر مختلف ہے۔ یہ کتاب پڑھیں گے تو بہت سا تاثر بدل جائے گا۔ آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ بسا اوقات ان نوجوان ڈاکٹروں کے طرز کلام یا رویے میں تلخی یا غصہ، فرسٹریشن جھلکتی ہے تو اس کی وجوہات کیا ہیں؟
محکمہ صحت کی بہت سی خامیاں اور کمزوریاں بھی سامنے آ تی ہیں اور یہ بھی کہ حکومتوں کو ڈاکٹرز اور میڈیکل سٹاف کی مشکلات میں کیوں فوری کمی لانی چاہیے۔
مجھے یہ بات بالکل سمجھ نہیں آئی کہ ہائوس جاب کرنے والے کو چھتیس گھنٹے یعنی ڈیڑھ دن کی ڈیوٹی کیوں کرنا پڑتی ہے؟ یہ ہر اعتبار سے ظالمانہ ہے۔
سٹاف میں اضافہ کرنا چاہیے، اوقات کار میں کمی آئے تاکہ ان پر دبائو کم ہو اور کوالٹی آف ورک بہتر ہوسکے۔
میں ڈاکٹر نوید خالد تارڑ کا ممنون ہوں کہ اس کتاب کے ذریعے انہوں نے بہت کچھ ایسا اِن سائیڈ ہمیں دکھایا، جس سے زیادہ تر لوگ بے خبر ہیں۔
یہ اپنے موضوع کے اعتبار سے اہم اور عمدہ کتاب ہے۔ میری خواہش ہے کہ ڈاکٹر نوید خالد اس موضوع پر مزید لکھیں۔ دیگر نوجوان ڈاکٹروں کو بھی اپنے تجربات لکھنے چاہیئں۔