Maamla Naye Ameer Jamaat e Islami Ka
معاملہ نئے امیر جماعت اسلامی کا
پچھلے دو تین ہفتوں سے جماعت اسلامی میں امیر کا انتخاب ہو رہا تھا۔ جماعت کے دستور کے مطابق ہر رکن جماعت کو بیلٹ پیپر بھیجا جاتا ہے اور وہ اسے پر کر مرکز جماعت بھیج دیتے ہیں۔ جماعت کے دستور کے مطابق ہر رکن جماعت کسی کو بھی امیر کے لئے ووٹ دے سکتا ہے ماسوائے اپنے۔ اپنے ووٹ کو خفیہ رکھنا ہوتا ہے۔ عام طور سے ووٹ کے لئے مشورہ بھی نہیں کیا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ کسی نے مشورہ دینا بھی ہو تو تین نام بتائے تاکہ کسی ایک نام کی نشاندہی کسی کمپین کی شکل اختیار نہ کر لے۔
اراکین جماعت کی سہولت کے لئے جماعت کی شوریٰ ہر بار تین نام تجویز کر دیتی ہے، تاہم اراکین جماعت کے لئے قطعی ضروری نہیں کہ وہ شوریٰ کے تجویز کردہ ان تینوں ناموں میں سے کسی کو درخوراعتنا سمجھیں۔ تاہم روایت یہی ہے کہ ہر بار ان تین ناموں میں سے ایک زیادہ ووٹ لے کر امیر جماعت منتخب ہوجاتا ہے۔
جماعت اسلامی اپنے الیکشن سسٹم کو خفیہ رکھتی ہے اور یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ امیر نے کتنے ووٹ لئے اور باقی دو امیدواروں کو کتنے ووٹ ملے، یہ بھی نہیں پتہ چلتا کہ امیر نے کس صوبے سے کتنے ووٹ لئے۔ یہ سب اعدادوشمار سختی سے خفیہ رکھے جاتے ہیں، تاہم چند سال پہلے سینہ گزٹ سے یہ خبر باہر آئی تھی کہ تب تینوں تجویز کردہ امیدواروں میں اول دوم ووٹ تو ملے جبکہ سوم پوزیشن شوریٰ کے تجویز کردہ تیسرے امیدوار کے بجائے جماعت کے ایک اور رہنما (پروفیسر ابراہیم)کو ملی۔ اب براہ کرم مجھ سے یہ نہ پوچھئیے گا کہ وہ تیسرے امیدوار کون سے تھے، جنہیں اراکین جماعت نے بالکل ہی لفٹ نہ کرائی۔
بتانا یہ تھا کہ میں نے دانستہ اس دوران اس پر کچھ نہیں لکھا۔ انتخابی پراسیس شروع ہونے سے پہلے جنرل الیکشن میں بدترین شکست پر موجودہ امیر سراج الحق نے استعفا دیا جو شوریٰ نے نامنظور کیا اور استعفا واپس ہوا۔ اس پر ایک پوسٹ کی تھی تو خاصا ہنگامہ ہوا اور جماعتی احباب کمنٹس میں متضاد دعوے کرتے رہے۔ کسی کے خیال میں شوریٰ کو اختیار ہی نہیں اور کسی کے خیال میں شوریٰ کو اختیار تھا۔
زیادہ ناراضی انہیں یہ تھی کہ اس موضوع پر قلم اٹھانے کی جسارت کیوں کی گئی۔ ایسی ناخوشی کے تو ہم پرانے عادی ہیں اور ایسی جسارتیں، گستاخیاں کرتے رہتے ہیں، اسی وجہ سے تو کسی سیاسی جماعت کے حامی خاکسار جیسے لکھاریوں سے خوش نہیں رہتے۔
خیر میں نے دانستہ امیر کے الیکشن کے دوران نہیں لکھا کہ بعد میں پھر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ کسی ایک امیدوار کی کمپین کی گئی۔
دو ہزار تیرہ میں امیر کے انتخابات سے کچھ پہلے ہمارے صحافی دوست اختر عباس نے اردو ڈائجسٹ کے لئے سراج الحق کا انٹرویو لیا، اختر عباس تب اردو ڈائجسٹ کے ایڈیٹر اور سراج الحق کے پی کے وزیرخزانہ تھے۔
الیکشن میں سید منور حسن کی جگہ سراج الحق امیر منتخب ہوگئے تو بہت سے لوگ آج تک یہ کہتے ہیں کہ سراج لالہ کی کمپین کی گئی۔ بعض لوگ کھلم کھلا کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے سید منور حسن کو ہرایا وغیرہ وغیرہ۔
جماعت اسلامی کے امیر کے لئے اراکین جماعت کی جانب سے بیلٹ پیپر بھیجے جانے کی مہلت آج شام کو ختم ہوگئی۔ یعنی یہ تحریر جب لکھی جا رہی ہے، تب تک امیر جماعت کا انتخاب مکمل ہوچکا۔ اب ان بیلٹ پیپرز کو گننے کا وقت ہے، اگلے دو تین دنوں یا ممکن ہے ایک ہفتے میں نئے امیر جماعت کا اعلان ہوجائے گا۔
بتانا یہ چاہ رہا تھا کہ بعض جماعتی احباب کے احترام میں خاکسار نے امیر جماعت کے الیکشن پر اور کسی بھی امیدوار پر تنقید کرنے یا کسی کے حق میں لکھنے سے گریز کیا۔ اس لئے کہ جماعت اسلامی کے اراکین کا حق ہے کہ وہ اپنے امیر کا آزادانہ انتخاب کریں اور کسی خارجہ رائے سے متاثر نہ ہوں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون نیا امیر جماعت بنتا ہے؟
سراج الحق صاحب جو پچھلے دس برسوں سے جماعت اسلامی چلا رہے ہیں اور خیر سے ان کے دور امارت ہی میں جماعت اسلامی نے 2013 میں چار قومی اسمبلی کی نشستوں اور کے پی میں مخلوط صوبائی حکومت والے منظر نامہ سے آغاز کیا اور حالیہ انتخابات میں صفر قومی اسمبلی کی نشست اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں انتہائی مایوس کن کارکردگی تک کا سفر طے کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ انہی جناب سراج الحق ہی کو اگلے پانچ برسوں کے لئے امیر بنایا جاتا ہے یا پھر کراچی میں اپنی جارحانہ اور مستقل مزاج عوامی پالیسی سے جماعت میں نئی جان ڈالنے والے حافظ نعیم کو امیر جماعت منتخب کیا جاتا ہے؟
تیسرے امیدوار لیاقت بلوچ ہیں۔ تجربہ کار بلوچ صاحب کئی سال تک جماعت کے قیم (سیکرٹری جنرل) بھی رہ چکے ہیں، مگر امیر کے حالیہ انتخابات میں جن کے امیر بننے کے اتنے ہی امکانات ہیں جتنے مولانا فضل الرحمن کے وزیراعظم پاکستان بننے کا امکان۔
اگلے چند دنوں میں پتہ چلے گا کہ نیا امیر جماعت کون ہوگا۔
تب اللہ نے چاہا تو اس موضوع پر لکھیں گے۔