Mera Baap Kam Na Tha Meri Maa Se
میرا باپ کم نہ تھا میری ماں سے
مجھے اکثر دوست عرصہ دراز سے طنزیہ انداز میں اسلامی فیمنسٹ کا نام دیتے تھے کیونکہ سماجی موضوعات پر لکھی گئی میری بہت سی پوسٹس خواتین کے حقوق کے گرد گھومتی ہیں اگرچہ میری حتیٰ الوسع کوشش ہوتی ہے کہ اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ جانے پائے۔
میری تحاریر پر جہاں بہت سے دوست اتفاق کرتے ہیں وہاں بہت قریبی دوست اختلاف بھی کرتے ہیں۔ میں نے اتفاق کی طرح اختلاف کو بھی ہمیشہ خندہ پیشانی سے قبول کیا ہے کیونکہ اختلاف ایک مثبت مکالمے کا حسن ہے جس سے ہمیں ایک دوسرے سے بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملتا ہے۔ گزشتہ دنوں میری ایک تحریر پر مکالمہ بہت مثبت انداز میں آگے بڑھ رہا تھا کہ ایک خاتون نے کہا کہ اس پوسٹ میں آپ نے کچھ قابل اعتراض کمنٹ کئے ہیں لہذا آپ کو انفرینڈ کر رہی ہوں حالانکہ میری دانست میں تو رتی برابر بھی قابل اعتراض بات نہیں تھی اگر کوئی ایسی بات تھی بھی تو بتانی چاہیے تھی۔ باقی اختلاف سننے کا حوصلہ نہ رکھنے والے اور وجہ بتائے بغیر جانے والوں سے مجھے نہ کوئی گلہ ہے اور نہ ہی کچھ خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ وکیل کا دروازہ بہت بڑا ہوتا ہے جو چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے ایسے کئی لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے مگر اپنی روانگی کا مجھے بتانے کی کیا ضرورت تھی بھلا۔ یہاں تو ہر روز کئی نرگسیت کے مارے لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔
میری والدہ مجھ سے بےانتہا محبت رکھتی ہیں ہر لمحہ انکی دعائیں، انکا دست شفقت اپنے ساتھ پاتا ہوں۔ دنیا میں جب بھی لکھا گیا ماں کی شان میں لکھا گیا۔ کیا کیا قصیدے اور غزلیں، اشعار اور قطعے۔ پورا لٹریچر صرف ماں کی شان میں لکھے گئے قصیدوں سے بھرا پڑا ہے۔ باپ کے بارے بہت کم لکھا گیا اگر کہیں لکھا بھی گیا تو بس خانہ پری کی حد تک۔ مجھے خدانخواستہ خواتین سے ہرگز جیلسی نہیں ہے اور نہ ہی یہ میں اس وجہ سے کہہ رہا کہ میں خود ایک باپ ہوں۔ میں یہ اس وجہ سے کہہ رہا ہوں کہ میرا بھی ایک باپ تھا جس نے مجھ جیسے من موجی اور قدرے سرکش بیٹے کیساتھ ہمیشہ شفقت بھرا دوستانہ، منصفانہ اور مساویانہ رویہ روا رکھا جو کہ ہمارے معاشرے میں بہت کم دیکھا گیا ہے۔
زندگی بھر میں نے ڈانٹ ڈپٹ خوب کھائی مگر پیار بھی بےتحاشا پایا۔ میں پائے کا سالن بڑے شوق سے کھاتا ہوں۔ آج بازار سے گزر رہا تھا تو گوشت والی دکان پر پائے پڑے دیکھ کر یاد آیا کہ میرے ابا جی گھر میں جب بھی پائے لے کر آتے تو کہا کرتے تھے کہ یہ ہفتے کو پکائیں اس دن عامر بھی گھر ہوگا کیونکہ میں ویک اینڈ پر گھر آتا تھا۔ یہ ایک بار نہیں ہر بار ہوتا تھا۔ یہ تو ایک چھوٹی سی بلکہ نہ ہونے کے برابر مثال ہے اس جیسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں جن سے انکی شفقت، محبت جھلکتی تھی کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی میرے بارے بڑے حساس تھے مثلاً مجھ پر کبھی بھاری زمہ داری نہیں ڈالتے تھے۔
خیر اس کو چھوڑیں مجھے کل سے ایک چیز کا شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ پاکستانی معاشرے کو میل ڈومیننٹ معاشرہ کہا جاتا ہے جبکہ ہر دس میں سے نو مرد حضرات خیر سے رن مرید کے رتبے پر فائز ہیں جبکہ ابھی بھی خواتین کو اعتراض ہے کہ انکے درد سب سے زیادہ ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ رن مرید کا لقب بھی بہن، ماں، ممانی، چچی یا خالہ کی صورت میں کسی خاتون کی جانب سے ہی دیا جاتا ہے۔