Media Aur Hamara Muashra
میڈیا اور ہمارا معاشرہ
دعا زہرا کا کیس جب میرے سامنے آیا تو میں نے اس پر کچھ نہ لکھنے کا فیصلہ کیا۔ مجھے غالب امکان تھا کہ اس کا ڈراپ سین اسی طرح کا ہو گا۔ ان حالات تک پہچانے میں دیگر فیکٹرز کیساتھ ساتھ ہمارے میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے۔
میں نے گزشتہ روز عرض کیا تھا کہ آجکل نوے فیصد پاکستانی ڈراموں میں ایسے ایسے لغو سین دیکھنے کو ملتے ہیں کہ اسے فیملی میں بیٹھ کر دیکھنا دشوار ہے۔ آج سے تیرہ سال قبل جب میں یونیورسٹی میں تھا تو ہمیں بتایا گیا اور ہم نے متفقہ طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ مغربی طرزِ معاشرت میڈیا یعنی ڈراموں کے ذریعے ہمارے خون میں انجیکٹ کی جا رہی ہے جس کو ہم سمجھ نہیں پا رہے۔ بہت جلد ہم اس بے حیائی کو اپنا معمول کا حصہ سمجھنے لگیں گے اور کہیں گے کہ اس سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔
ہمارے اپنوں میں سے ہی لوگ آپ کو ان ڈراموں کا دفاع کرتے ہوئے نظر آئیں گے کیونکہ انکی روزی روٹی اسی انڈسٹری سے وابستہ ہے۔ بدقسمتی سے مجھے تاحال اس کا کوئی علاج نظر نہیں آ رہا۔ یہ ایک لاوا ہے جو ہماری اخلاقی و معاشرتی اقدار کو تہہ و بالا کر دے گا اور بہت جلد ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کر دے گا۔
آج صورتحال بالکل ویسی ہی ہے۔ ایک وقت تھا پاکستان کے ڈرامے بہت بہترین اور سبق آموز تھے لیکن آج بالکل اس کے برعکس ہیں۔ ان ڈراموں نے ہماری معاشرتی اور اخلاقی اقدار پر بہت منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ رمضان المبارک کے شوز دیکھ لیجئے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ شوز عوام میں مثبت اور تعمیری سوچ کو پروان چڑھائیں۔ لیکن صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔
یہ شوز مذہبی کم واہیات ذیادہ لگتے ہیں۔ بہت کم ڈھنگ کی بات دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے۔ کچھ لوگ آج بھی ان ڈراموں اور رمضان پروگرامز کے نام پر ان شوز کا دفاع کرتے ہوئے نظر آئیں گے ان پر حیرت کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔