1.  Home
  2. Blog
  3. Ali Raza Bandesha
  4. Bachon Ko Jeena Sikhaye

Bachon Ko Jeena Sikhaye

بچوں کو جینا سکھائیں

یہ تحریر بچوں کے لیے نہیں، بلکہ والدین کے لیے ہے۔ جن کو گرمیوں کی چھٹیوں کے ساتھ ہی فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ کس اکیڈمی میں بچے داخل کروائیں۔ استاد کون سا بہتر ہے۔ کتابیں کون سی ٹھیک رہیں گی۔ سال 2020 کے اختتام پر میں نے اپنی چھوٹی بہن سے ان تمام کتابوں کی فہرست بنانے کا کہا، جو اس نے اس سال پڑھی ہیں۔ اس وقت وہ ایف ایس سی فرسٹ ائیر کی طالبہ تھی۔

15 مارچ 2020 تک اس نے 44 کتابیں پڑھی تھیں۔ جن میں تین ناول 1500 سے زاد صفحات پر مشتمل تھے۔ یقین کیجیےاس کے میٹرک میں۔ 97 فیصد نمبر حاصل کرنے پر اس قدر خوشی نہیں ہوئی تھی، جتنا مسرور میں اس دن تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے، جب میٹرک امتحانات سے قبل وہ کافی دباؤ کا شکار تھی تو میں اس کی سکول پرنسپل سے اس کی ٹیچر کی شکایت کرنے گیا تھا۔

ٹیچر کے بقول وہ بہت محنتی ہے، مگر 100 میں سے 98 نمبر آنے پر بھی سزا اس لیے دی کہ اس طرح بورڈ میں پوزیشن نہیں آۓ گی۔ میں نے عرض کی کہ ہمیں بورڈ میں پوزیشن چاہیے بھی نہیں اور اگلے دو ماہ میں نے اسے سکول نہیں بھیجا۔ رزلٹ آنے پر جب اس نے سکول میں ٹاپ کیا تو سربراہ ادارہ نے ملاقات کے لیے بلایا۔ جس میں اس نے سکول میں پائی جانے والی تمام خامیوں پر ایک مفصل رپورٹ پیش کی۔

یقین کیجیے کوئی بچہ کتنے ہی ٹاپ کیوں نہ کر لے۔ اگر اس میں اعتماد نہیں ہے۔ اسے آپ نے بات کرنے کا سلیقہ نہیں سکھایا۔ اسے مخالف راۓ سننے کی عادت نہیں ہے۔ اس جھگڑا سلجھانا نہیں آتا۔ اس امتحانات یا دوسرا کوئی دباؤ برداشت کرنا نہیں آتا۔ تو تمام نمبرز ایک دن بے وقعت ہوں جائیں گے۔ اور سکولوں میں یہ سب بلکل نہیں سکھایا جاتا۔ ہمیں تو یہ بلکل نہیں سکھایا گیا تھا اور آج کل تو ویسے بھی نمبرز کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔

بچوں کو سلیبس کی کتابوں کے علاوہ بھی کتابیں پڑھنے کی ترغیب دیں۔ بچوں کے نمبرز کم بھی آئیں تو انہیں اعتماد دیں۔ ایک 70 فیصد نمبر لینے والا بچہ جو کہ با اعتماد ہے۔ صحتمند ہے، غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیتا ہے، اس بچے سے ہزار درجے بہتر رہے گا جو صرف نمبرز لیتا ہے۔ اپنے وسائل کے حساب سے انہیں دنیا دکھائیں، با اعتماد بنائیں، اپنے پروں میں چھپا کے رکھنے کی بجاۓ انہیں اڑنے کا موقع دیں۔

آپ ہمیشہ ان کے سر پر سلامت نہیں رہیں گے۔ اور اس دن وہ اچانک سے بے سہارا ہو جائیں گے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ پہلی دفعہ جب میری سائیکل خراب ہوئی تو میں نے والد صاحب سے اسے مرمت کروا کر دینے کی درخواست کی۔ انہوں نے جھٹ سے کہہ دیا کہ تم خود ہی کراؤ گے۔ میں نے کہا مجھ سے دکاندار زیادہ پیسے لے لے گا۔ بولے، "ایک دفعہ لے لے گا تو اگلی دفعہ تک تمہیں پتہ چل چکا ہو گا۔

بچے کو معاشرے میں "سروائیو" کرنے کے لیے تیار کریں۔ ان گرمیوں کی چھٹیوں میں ان کو درسی کتابوں سے آزاد کروائیں، ہو سکے تو دیہات کا چکر لگوائیں۔ شہر کی مین مارکیٹ لے کر جائیں اور بتائیں کون سی چیز کہاں سے ملتی ہے۔ ریٹ کیسے طے کرتے ہیں۔ اچھی، بری چیز میں فرق کیسے کرتے ہیں۔ کسی اچھی کمپنی کا دورہ کروا کر سکھائیں مینجمنٹ کیا ہوتی ہے۔

کسی اچھے ریسٹورنٹ میں ایک دن کے لیے ویٹر کے طور پر کام کروائیں۔ تھانے اور کچہری لے کر جائیں۔ ٹریفک کے قوانین سے آگاہی دلوائیں۔ بچوں کو سکھائیں کہ سڑک پر کسی حادثے کی صورت میں کیا کرنا ہوتا ہے۔ ابتدائی طبی امداد کا کورس کروائیں۔ بجلی کے چھوٹے، موٹے کام جیسے سوئچ بدلنا سکھائیں۔ اپنی صحت پر توجہ کا عادی بنائیں۔ خوراک کی عادات بہتر کروائیں۔

یہ بھی سکھائیں کہ لوگوں سے کیسے ڈیل کیا جاتا ہے۔ لین دین کے معاملات کیا ہوتے ہیں۔ جھگڑے کو کیسے حل کرنا ہے۔ جذبات قابو کیسے کرنے ہیں۔ ایک بچہ جس کو پبلک ڈیلنگ نہیں آتی، جو جذباتی ہے۔ اسے 1 ماہ کے لیے کسی دکان یا سٹور پر کام کروا دیں۔ میں گارنٹی دیتا ہوں وہ اپنی بات پر قائل کرنے میں اپنے عمر لوگوں سے بہت آگے ہو گا۔ سیلز کتابوں میں پڑھنا اور چیز ہے اور تجرباتی طور پر سیکھنا الگ ہے۔

بچوں کو نصابی کتابوں کے پورے سال پر محیط علمی تشدد سے باہر نکالیں۔ انہیں اپنے بغیر اس دنیا میں رہنے کے قابل بنائیں۔ آپ کہ بغیر بھی وہ یہ سب کچھ سیکھ تو جائیں گے۔ لیکن اگر آپ خود سے سکھا دیں تو شاید بہت ساری ٹھوکروں سے بچ جائیں گے۔

Check Also

Ab Wohi Stage Hai

By Toqeer Bhumla