Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aasim Irshad
  4. Siasat Ka Noha

Siasat Ka Noha

سیاست کا نوحہ

کئی دنوں سے میرے سامنے افتخار نامہ پڑا ہے کئی بار سوچا اس کتاب پر لکھوں لیکن پھر ہمت نہیں ہوئی یہ کتاب پڑھنے والوں کا اپنا اپنا نظریہ ہے کوئی اس کتاب کو محض آٹو بائیو گرافی سمجھے گا کوئی میری طرح کا سر پھرا اسے ہماری سیاسی تاریخ کا نوحہ سمجھے گا۔

افتخار نامہ کو اگر آپ پڑھیں تو اس میں بے شمار ایسی چیزیں ہیں جو آپ کو چونکا دیں گی یہ کتاب بیک وقت ایک بالکل سادہ آدمی کی کہانی بھی لگے گی اور دوسری جانب ایک سیاست دان کی زندگی بھی مصنف کی زندگی ہر رنگ سے مزین ہے لیکن سب سے خاص بات مصنف اپنے وطن سے محبت کرنے والا ہے اور ان حالات میں بھی پر امید ہے کہ حالات بدلیں گے پاکستان ترقی کرے گا افتخار احمد سندھو عرض مصنف میں لکھتے ہیں کہ میں جب بھی اپنے وطن عزیز یا دنیا میں کوئی ظلم و ناانصافی دیکھتا ہوں تو میرا کلیجہ منہ کو آتا ہے دل خون کے آنسو روتا ہے اور میں اپنے جذبات کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔

اور واقعی ہی افتخار احمد سندھو نے ہر اس موضوع پر قلم اٹھایا، جس پر قلم اٹھانا جہاد ہے اور انہوں نے حق ادا کر دیا اس کتاب کے بارے میں حبیب اکرم کے الفاظ ہیں کہ مجھے یہ کتاب پڑھ کر یوں لگا کہ میں کسی چوپال میں بیٹھا ہوں جہاں کوئی شخص سردیوں کی رات میں آگ کے الاؤ کے گرد بیٹھا قصہ کہنے لگتا ہے چوپال میں بات سے بات نکلتی ہے کہانی سے کہانی جڑتی ہے اس کتاب میں بھی کچھ ایسا ہے بے ساختہ انداز میں بات شروع ہوتی ہے موج کے سے انداز میں آگے بڑھتی ہے اور کسی نئی موج کا حصہ بن کر کنارے آلگتی ہے۔

افتخار احمد سندھو 1965ء کی جنگ میں بارے میں لکھتے ہیں کہ میں یہاں تاریخ کے سب سے بڑے جھوٹ کا پردہ چاک کرنا چاہوں گا کہ بھارت نے رات کے اندھیرے میں ہمارے اوپر کوئی جنگ مسلط نہیں کی تھی بلکہ ہم نے اس کا گریبان پکڑ رکھا تھا ہم نے کشمیر میں آپریشن جبرالٹر شروع کر رکھا تھا مزید حماقت یہ کی کہ وہاں کے لوگوں کو ہم نے اس نے اس آپریشن کے بارے میں مکمل طور پر اندھیرے میں رکھا ہوا تھا جس کی وجہ سے ہمارے اس آپریشن کو کوئی پذیرائی نہ مل سکی مجھے کہنے دیجئے کہ بھٹو نے پاک بھارت جنگ لگوا کر دو فائدے حاصل کیے پہلے ایوب خان کو گمراہ کرکے جنگ لگوائی اور پھر جب ایوب خان اور لال بہادر شاستری کے درمیان معاہدہ تاشقند میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تو اس معاہدہ تاشقند کو بھٹو نے سیاسی طور پر کیش کروایا۔

افتخار احمد سندھو طالب علم سے تاریخ دان اور پھر سیاست دان تک یہ کہانی بہت طویل لگتی ہے لیکن مصنف نے جس طرح یہ سفر طے کیا یہ الگ ہی تاریخ ہے اپنی سیاسی زندگی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کی باتوں سے متاثر ہو کر میں نے 2001ء میں لاہور میں ناظم کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا جب الیکشن ہوگیا تو میں 123 ووٹوں سے ناظم کا الیکشن جیت گیا پوری رات جشن مناتے رہے صبح صبح کسی دوست نے آکر بتایا کہ بھاگ کر کورٹ جاؤ کیونکہ جب تک تمہاری جیت کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوگا اس وقت تک تمہاری جیت کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا دوستوں کے ہمراہ جب وہاں پہنچے تو کہا کہ ریٹرننگ آفیسر آپ سے باہر آکر ملتے ہیں وہ باہر آیا مجھ سے ملا اور کہنے لگا دوسری پارٹی سات لاکھ دے رہی ہے مگر آپ پانچ لاکھ دے دیں کیونکہ آپ کا رزلٹ بنا ہوا ہے ہم ابھی آپ کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیتے ہیں اسی دوران مخالف پارٹی کی طرف سے ایک حاضر ڈیوٹی برگیڈیئر بھی وہاں آگئے وہ سیدھا اندر گئے اور ہماری مخالف پارٹی کا نوٹیفکیشن جاری کروا کر لے آئے یہ دیکھ کر مجھے ایک دانشور کی بات یاد آگئی جس سے جب یہ پوچھا گیا کہ سیاست دانوں کو الیکشن میں کیسے چننا چاہیے تو انہوں نے کہا بالکل اس طرح جیسے اکبر بادشاہ نے انار کلی کو چن دیا تھا دیوار میں۔

خیر یہ کتاب اپنے آپ میں ایک تاریخ ہے اور وہ بھیانک تاریخ جسے آپ پڑھ کر شرمندہ ضرور ہوں گے اور افسوس اس بات کا ہے کہ یہ تاریخ آج بھی ویسے ہی دہرائی جارہی ہے 76 برس گزر گئے ایک وقت ایسا نہیں آیا کہ ہمیں لگا ہو کہ حالات بدلیں گے یا ملک ترقی کرے گا جو 40 برس پہلے ہو رہا تھا آج بھی بالکل ویسے ہی ہو رہا ہے تاریخ بڑی تکلیف دہ ہے اور افتخار احمد سندھو نے یہ تاریخ لکھ کر اور قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کے علامہ عبد الستار عاصم نے اسے چھاپ کر آنے والی نسلوں پر احسان کیا ہے جسے پڑھنا اور سمجھنا خاص طور پر نوجوانوں کے لیے بے حد ضروری ہے تا کہ وہ سمجھ سکیں کہ ایک عام پاکستانی کو ہر شعبے میں کیا کچھ دیکھنے کو ملتا ہے اور یہ ملک کیسے چلتا ہے ایک ایک سیٹ کی منڈی کیسے لگتی ہے اور پھر کیسے مٹھی بھر لوگ قابض ہو جاتے ہیں یہ وہ تمام سچائیاں اس کتاب میں لکھی گئی ہیں جنہیں پڑھنا بہت آسان لیکن لکھنا بہت مشکل لیکن افتخار احمد سندھو کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے آنے والی نسلوں کے لیے راہ ہموار کر دی ہے کہ سچ کے رستے پر چلنا مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں۔

Check Also

Madrasa Registration Bill, Hukumat Ghalti Dohrane Ja Rahi Hai

By Amir Khakwani