Regime Changed
رجیم چینجڈ
میں قیام پاکستان کو دیکھتا ہوں لاکھوں لوگوں کی قربانیاں یاد کرتا ہوں جن کی بدولت آج ہم ایک الگ ملک میں امن کی زندگی گزار رہے ہیں میں جب پاکستان کا عروج و زوال دیکھتا ہوں تو مجھے قائد اعظم کی خودداری اور ان کا مغربی دنیا کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کرنا یاد آتا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد جب امریکہ نے ہمسایہ ملک بھارت کو دورہ امریکہ کی دعوت دے دی اور پاکستان کو نظر انداز کیا قائد اعظم کے انتقال کے بعد روس نے پاکستان کے وزیراعظم کو سرکاری دورے کی دعوت دی اور پاکستان نے قبول کر لی تاریخ 13 اگست تھی یوم آزادی کے پیش نظر تاریخ میں تبدیلی کا کہا گیا جو بعد میں روسی حکومت تاریخ نہ دے سکی۔
امریکہ کا دعوت نامہ آیا اور پاکستان امریکہ کے دورے پر چلا گیا جب وزیر اعظم لیاقت علی خان امریکہ ائیرپورٹ پر پہنچے تو استقبال کے لیے صدر امریکہ بمعہ کابینہ اور خاتون اول موجود تھے اور بہترین استقبال ہوا ان کا یہ دورہ پندرہ دن کا تھا لیکن بعد بیس دن کا ہو گیا لیاقت علی خان جب امریکہ سے واپس آئے تو انہوں نے فوراً بعد ایوب خان کو لیفٹیننٹ جنرل بنا دیا پھر اس کے بعد کمانڈر انچیف بنا دیا یہ وہی ایوب خان تھے جن کے بارے میں قائد اعظم نے کہا تھا کہ "میں اس آرمی آفیسر کو جانتا ہوں وہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے اس کو مشرقی پاکستان ٹرانسفر کیا جاتا ہے وہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوزیشن پر کام نہیں کرے گا اور اس مدت کے دوران بیج نہیں لگائے گا" ۔
جب ان کو پاکستان کی فوج کا سربراہ بنا دیا گیا تو ان کو پاکستان کی سیاست میں آنے سے کوئی نہیں روک سکا1953ء میں امریکن نیوی کی انٹیلیجنس رپورٹ شائع ہوئی اور انہوں نے ایوب خان کے بارے میں کہا کہ یہ بڑے کمال کے آدمی ہیں یہ چھوٹے سے چھوٹا کام بھی خود کرتے ہیں دراز قد کے مالک یہ بہترین شخص ہیں یہ سب کو بڑے کنٹرول میں رکھنے والے ہیں اور امریکہ کے ساتھ بڑی محبت رکھنے والے ہیں، اور یہاں سے پاکستان میں امریکی مداخلت شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔
آرمی چیف ایوب خان نے ستمبر 1953ء میں سول حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر اپنی منشاء کے مطابق امریکہ کا دورہ کیا، یہاں پر یہ سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بھارت چونکہ روس کے قریب ہو گیا اور امریکہ کو جنوبی ایشیا میں ایسے ملک کی تلاش تھی جو وقت آنے پر روس کا مقابلہ کر سکے، اور تب پاکستان بھارت کی جانب سے خوف کا شکار تھا اور پاکستان کو دفاع کی مضبوط بنانے کے لیے فوجی تعاون کی ضرورت تھی اور اس میں امریکہ نے پاکستان کو اپنے ماتحت کرنے کے لیے اپنی من پسند کے لوگ پاکستان پر مسلط کیے ایوب خان امریکی تعاون حاصل کرنے کے لیے اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے ایک امریکی اہلکار کو کہا کہ اگر آپ چاہیں تو ہماری آرمی آپ کی آرمی بن سکتی ہے شرط یہ ہے کہ قیمت مناسب دی جائے، الغرض ایوب خان نے امریکہ کی خوب خدمت کی حتیٰ کہ پشاور کے نزدیک بڈہ بیر کا ہوائی اڈہ بھی روسی جاسوسی کے لیے امریکہ کے حوالے کر دیا۔
اس سے پہلے اسکندر مرزا جب گورنر جنرل بنے تب بھی امریکہ پاکستان کا فیصلہ سازی کا اہم ستون بن چکا تھا اور یہاں تک کہ اسکندر مرزا نے اپنے بیٹے کی شادی امریکی سفیر کی بیٹی سے کردی اور پاکستان کی امریکہ کے ساتھ رشتے داری بھی ہو گئی، جب خواجہ ناظم الدین کو برطرف کیا گیا تو امریکہ میں مقیم پاکستانی سفیر محمد علی بوگرہ کو امریکی آشیرباد کے ساتھ پاکستان کا وزیراعظم نامزد کر دیا اور اسمبلی میں مسلم لیگ نے محمد علی بوگرہ کے حق میں 238 ووٹ دیئے اور یہ وزیراعظم بن گیا۔
اس وقت یہ مسئلہ عدالت میں گیا اور پاکستان کی تاریخ کے بددیانت کردار جسٹس منیر نے فیصلہ دیا کہ جو کام عام حالات میں غیر قانونی ہوتا ہے ضرورت پڑنے پر قانونی ہوجاتا ہے اور کیس برخاست کر دیا، امریکہ شروع سے ہی پاکستان میں حکومتیں بنانے اور گرانے میں پیش پیش رہا ہے، اس کے بعد جب پاکستان دولخت ہوگیا اور ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام شروع کیا اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کروائی اور بھٹو نے کہا کہ میں کم از اسلامی دنیا یا تیسری دنیا کے ممالک کے لیڈر کے طور پر نظر آنا چاہتا ہوں اور کسنجر نے جب دھمکی دی اور کہا کہ آپ جو فرانس کے ساتھ ری پروسیسنگ پلانٹ کا معاہدہ کررہے ہیں وہ بند کر دیں لیکن بھٹو نہ مانا اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایک تحریک چلائی گئی اور آخرکار ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیا پھر امریکہ نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف پاکستان کو جی بھر کے استعمال کیا اور جب وہاں ضیاء الحق نے اپنی مرضی کی حکومت بنانے کی کوشش کی تو طیارہ تباہ ہو گیا جس کی تحقیقات آج تک سامنے نہیں آسکیں۔
اب تک امریکہ دنیا کے بہتر ممالک میں حکومتیں تبدیل کر چکا ہے جن میں سب سے زیادہ مشکل اسے کانگو کے جمہوری صدر لممبا کی حکومت گرانے میں آئی وہاں بھی ایسے ہی ایک خط دیا گیا تھا اور بعد میں اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی لممبا نے اسے ماننے سے انکار کر دیا پھر فوجی بغاوت آئی لممبا نے اسے بھی کچل دیا تو آخرکار لممبا کو قتل کر دیا گیا تھا۔
امریکہ پانچ طریقوں سے حکومتیں گراتا ہے (1) اپوزیشن کو سرمایہ فراہم کرتے ہیں یا افواج کے ذریعے تختہ الٹ دیا جاتا ہے (2) لیڈروں کا قتل کر دیتے ہیں اوپر لمببا کی مثال آپ کو دے چکا ہوں، (3) معیشت کی تباہی یہ ملک میں معاشی قتل کرتے ہیں اور امریکہ یہ سب کرنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو قرضے اس وجہ سے دیتے ہیں کہ یہ سڑکیں بنائیں پل بنائیں اور تعمیرات کے لیے قرضہ دیتے ہیں وہ کبھی صحت یا تعلیم کے لیے قرضہ نہیں دیتے کہ کہیں یہ باشعور ہو کر ہمارے سامنے کھڑے نہ ہو جائیں آج آپ پاکستان کو دیکھ لیں، (4) میڈیا پر قبضہ یہ اس ملک کے میڈیا کو خرید لیتے ہیں یہ عام رپورٹر صحافی اور کالم نگاروں کو خرید لیتے ہیں نوم چومسکی کے مطابق اس وقت دنیا کے ہر ملک میں لاتعداد صحافی رپورٹرز اور کالم نگار سی آئی اے کے پے رول پر ہوتے ہیں، (5) بدامنی اور انارکی پیدا کرتے ہیں ملک میں ہنگامے شروع کروا دیتے ہیں اور ملک میں حکومت گرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
اس امریکہ کا اصل نشانہ سی پیک ہے وہ کسی بھی طرح پاکستان کو چائنہ کے قریب ہوتے نہیں دیکھ سکتا اور سی پیک کو رکوانے کے لیے سیاسی عدم استحکام پیدا کر دیا گیا ہے پاکستان میں اس سے پہلے کئی بار حکومتیں تبدیل کر چکا ہے اور یہ پہلی بار ہے کہ عمران خان نے اس خط کی اوپن انکوائری کا کہا ہے خط کا جو معاملہ ہے یہ اب ڈھکا چھپا نہیں رہ گیا یہ سفارتی معاملہ ہوتا ہے اصل کام سی آئی اے کرتی ہے بالکل ویسے ہی جیسے یوکرائن میں عدم اعتماد کی تحریک لانے سے پہلے امریکی سفیر نے اپوزیشن نے ملاقاتیں کیں اور اب پاکستان میں بھی پہلے امریکی سفیر اکتوبر 2021ء سے اپوزیشن سے ملاقاتیں کر رہا تھا پھر خط آیا اور پھر تحریک عدم اعتماد تو اب یہاں پر کوئی دو رائے بچتی نہیں ہیں لوگ کہتے ہیں کہ یہ ملک صرف عمران خان کا نہیں ہے تو عرض یہ ہے کہ جب حکومتیں تبدیل کی جاتی ہیں تو چند لوگ خریدے جاتے ہیں پوری عوام نہیں صرف پارلیمنٹ ارکان کے ذریعے یہ کام کیا جاتا ہے اور اس پر تو خان عبدالولی خان نے پاکستان کی اسمبلی کے بارے میں کہا تھا جس کے پاس دو ارب روپے ہوں وہ پوری اسمبلی خرید سکتا ہے۔
امریکہ نے اب 2022ء میں اس نسخے پر دولت اور طاقت دونوں کے بل بوتے پر عمل کر کے دکھا دیا، اب ممکن ہے کہ ڈالر بھی نیچے آجائے مہنگائی بھی کم کر دی جائے اور عوام کو راضی کرنے کی کوشش کی جائے کہ کسی طرح سے عوام کا غم و غصہ کم ہو جائے اور پاکستان کے عوام اس توہین کو بھول جائیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ اب بھٹو والا زمانہ نہیں ہے اب اگر عوام کو اعتماد میں نہ لیا گیا اور خط پر ایکشن نہ لیا گیا تو یہ معاملہ بڑھ سکتا ہے کیونکہ پاکستان کے عوام غیرت مند ہیں یہ بھوک برداشت کر لیں گے توہین برداشت نہیں کر سکتے اب ہمارے حکمرانوں کو سوچ لینا چاہیے۔