Bhutto, Imran Mumaslat
بھٹو، عمران مماثلت
ذوالفقار علی بھٹو وزارتِ خارجہ سے علیحدگی کے بعد راولپنڈی ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہوئے۔ غلام مصطفیٰ کھر نے بھٹو کو راولپنڈی اسٹیشن سے رخصت کیا۔ راستے میں ہر جگہ عوام نے بھٹو کا استقبال کیا۔ لاہور ریلوے اسٹیشن پر اس وقت تقریباً پچاس، ساٹھ ہزار لوگوں نے بھٹو کا استقبال کیا۔ یہ استقبال قدرتی تھا کیونکہ اس کی کوئی پلاننگ نہیں کی تھی لوگ خود بھٹو کے لیے نکلے تھے۔ ریلوے اسٹیشن پر ہر شخص بھٹو کو قریب سے دیکھنا چاہتا تھا۔
اسٹیشن پر نعرہ تکبیر پاک چین دوستی زندہ باد، سی آئی اے مردہ باد، بھٹو کو واپس لو جیسے پرجوش نعرے لگ رہے تھے۔ بھٹو سیلون سے باہر آئے عوام کا سیلاب دیکھ کر بھٹو جذباتی ہو گئے، ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بھٹو نے جس رومال سے آنسو صاف کیے وہ دس ہزار روپے میں خریدا گیا، عوام نے بھٹو کی خوشبو کی پذیرائی کی بقول پروین شاکر۔
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
یہاں سے بھٹو کی مقبولیت کا آغاز ہوا۔ بھٹو اکتوبر 1966ء میں لندن سے واپس پاکستان آ گئے۔ بھٹو مختلف جگہوں پر اجتماعات سے خطاب کرتے رہے۔ بھٹو جہاں جاتے عوام کا سمندر بھٹو کو سننے کے لیے پہلے سے موجود ہوتا۔ بھٹو نے جب ناصر باغ لاہور میں پہلے جلسہ عام سے خطاب کیا حکومت نے جلسہ روکنے کے لیے گراؤنڈ میں پانی چھوڑ دیا۔ بھٹو نے تقریر کا آغاز کیا تو بجلی کے جھٹکے لگنے سے لوگ سٹیج سے نیچے پانی میں گر گئے، جلسہ گاہ میں بھگدڑ مچ گئی۔
شامیانہ بھٹو کے اوپر گر گیا۔ کنونشن لیگ کے کارکنوں نے سٹیج پر حملہ کر دیا لیکن بھٹو سٹیج پر ڈٹے رہے اور کہا میں بھاگنے والا نہیں ہوں۔ بھٹو کو بڑی مشکل سے اتارا اور رکشہ ڈرائیور روشن علی بھٹو کو فلیٹیز ہوٹل لے گیا۔ بھٹو کی مقبولیت بڑھتی گئی اور بھٹو ملک کا سربراہ بن گیا۔ بھٹو سے اچھے کام ہوئے یا برے یہ ایک الگ بحث ہے لیکن یہاں پر دو چیزیں عرض کرنا چاہوں گا کہ جب بھٹو کو وزارتِ خارجہ سے علیحدہ کیا گیا تب بھی امریکہ بھٹو سے ناراض تھا اور جب بھٹو کو وزارت عظمیٰ سے اتارا گیا تب بھی امریکہ بھٹو سے ناراض تھا۔
بھٹو نے جب 1977ء میں عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا تو فوراً ہی پی این اے کے نام سے نو سیاسی جماعتوں کا اتحاد بن گیا۔ وہ تمام مذہبی جماعتیں جنہوں نے ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے دے رکھے تھے، ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تھے وہ سب بھٹو کے خلاف اتحاد قائم کر چکے تھے اور یوں لگتا تھا کہ جیسے کوئی خفیہ ہاتھ ان کی پشت پناہی کر رہا ہے، بھٹو کو سازش کا بتایا گیا اور انتباہ کیا کہ ان کے پاس صرف تین متبادل ہیں۔
1) نیوکلیئر پروسیسنگ پلانٹ کو بھول جائیں۔
2) انتخابات ملتوی کر دیں۔
3) انتہائی سنگین نتائج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہیں۔
بھٹو قوم پرست تھے انہوں نے اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا، انتخابات میں پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی کل نشستوں میں سے 155 جیت لیں اور پی این اے کو 36 سیٹیں ملیں۔ پی این اے نے انتخابات ماننے سے انکار کر دیا۔ بھٹو 25 نشستوں پر دوبارہ انتخابات کروانے کے لیے تیار تھے لیکن پی این اے کے عزائم کچھ اور تھے۔ اس وقت پاکستان میں سی آئی اے اپنا کام کر رہی تھی اور ڈالر سرکاری ریٹ سے بہت سستا فروخت ہو رہا تھا۔
بھٹو نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں کہا کہ یہ ہاتھی مجھ سے ناراض ہے لیکن ان کا واسطہ بندہ صحرا سے آن پڑا ہے، ہم نے ایٹمی پلانٹ پر قومی مفاد کے مطابق مؤقف اختیار کیا ہے۔ پاکستان میں غیر ملکی کرنسی پانی کی طرح بہائی جا رہی ہے کراچی میں ڈالر چھ روپے کا ہو گیا ہے، اس تقریر کے بعد بھٹو کو امریکی خط ملا اور وہ خط لے کر راجہ بازار راولپنڈی چلے گئے اور خط عوام کے سامنے لہرا دیا۔
دوسری طرف پہلے پی این اے نے دھاندلی کا الزام لگایا بعد میں نظام مصطفیٰ کی تحریک شروع کر لی۔ اس تحریک کے دوران 241 افراد ہلاک ہوئے، 1600 گاڑیوں کو جلایا گیا، 58 بینک اور 47 دوکانیں تباہ ہوئیں۔ فوج کو طلب کیا گیا لیکن فوج نے دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں پر گولی چلانے سے انکار کر دیا، یہ سلسلہ چلتا رہا اور آخرکار بھٹو کو مارشل لاء کے ذریعے ہٹا دیا گیا۔
جب بھٹو کو ہٹایا گیا تو عالمی منظر نامہ یہ تھا کہ عرب، اسرائیل جنگ میں اپنا وقار کھو چکا تھا۔ عرب کے فرمانروا شاہ فیصل قتل ہو چکے تھے، الجزائر کے بن بیلا اور مصر کے جمال عبد الناصر اقتدار سے علیحدہ ہو چکے تھے اور اسلامی امہ زوال کا شکار تھی، اس سے پہلے جب بھٹو وزیر خارجہ تھے تب 1965ء کی جنگ ہوئی اور اس جنگ میں انڈونیشیا، ایران الجزائر ترکی، سعودی عرب اور دیگر کئی ممالک نے ہماری مدد کی تھی۔
پاکستان عالم اسلام کے مرکز کے طور پر ابھر رہا تھا۔ قادیانیوں کو کافر قرار دیا جا چکا تھا اور عالمی سربراہی کانفرنس پاکستان میں منعقد کر کے کفر کو للکارا جا رہا تھا اور یہ اسے کسی صورت گوارا نہ تھا۔ روس، افغانستان میں داخل ہونے کی تیاری کر رہا تھا اور عین اس وقت امریکہ کو پاکستان میں ایسی قیادت کی ضرورت تھی جو اسے انکار کرنے کی جرات نہ کر سکے، یہ ایک لمبی سازش تھی اور بھٹو کو فوجی انقلاب کے ذریعے ہٹانا اس سازش کی اہم کڑی تھی۔
آپ آج کے موجودہ حالات دیکھ لیں عمران خان نے امریکی تسلط سے نکلنے کی کوشش کی، فوجی اڈے دینے سے انکار کیا، عالمی سربراہی کانفرنس پاکستان میں منعقد کروائی، روس اور چین کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی، اسلاموفوبیا کے خلاف بہترین اقدامات کیے، غیرت و حمیت کا مظاہرہ کیا اور اس سب کے بعد عمران خان کو ہٹانا امریکہ کی مجبوری تھی۔ عمران خان بھی خط لہراتا رہا ابھی تک اس کی اوپن انکوائری نہیں ہوئی۔
عمران خان نے کہا میرے قتل کی سازش ہو رہی ہے، اس سے پہلے بھی جب رجیم چینج آپریشن کا پردہ چاک ہوا تو لیڈروں کو قتل کروا دیا جاتا رہا ہے لیکن یہ عوام اب عمران خان کے لیے نکل آئے ہیں۔ یہ وہی عوام ہیں جنہوں نے لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر بھٹو کا استقبال کیا تھا۔ یہ عوام 9 اپریل کے بعد سے اب تک صرف ایک نعرہ لگا رہے ہیں کہ امریکی غلامی نامنظور، تو زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو انتخابات عوام کی امانت ہے یہ عوام کو سونپ دیں عوام جس کو چن لیں۔