Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aasim Irshad
  4. Bhutto Aur Imran Khan

Bhutto Aur Imran Khan

بھٹو اور عمران خان

یکم اپریل 1979ء کو شام کے وقت جنرل ضیاء الحق کے پاس ایک خط آیا۔ جنرل ضیاء الحق نے وہ خط دیکھا ان کے چہرے پر کچھ عجیب تاثرات آئے انہوں نے پانی پیا، کچھ دیر سوچنے کے بعد سرخ روشنائی سے تین الفاظ لکھے "پٹیشن از ریجیکٹیڈ" یعنی اپیل مسترد کی جاتی ہے۔ یہ خط رحم کی اپیل تھا جو ذوالفقار علی بھٹو کے خاندان کی طرف سے جنرل ضیاء الحق کے پاس آیا اور وہ پہلے ہی فیصلہ کر چکے تھے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا اور موت لکھی جا چکی تھی۔

یہ وہ پھانسی تھی جس نے بھٹو کو جسمانی طور پر تو مار دیا لیکن لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا۔ بھٹو آج بھی لوگوں کے لیے زندہ ہے لوگ بھٹو کے نام پر ووٹ دیتے ہیں اور بھٹو صاحب کا نواسا سیاست میں بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کے متنوع پہلو ہیں وہ بیک وقت ایک عوامی لیڈر اور متنازع شخصیت تھے۔ میں بنیادی طور پر ان کی کئی پالیسوں سے اختلاف کرتا ہوں لیکن اس کے باوجود میں بھٹو صاحب کو عوامی لیڈر مانتا ہوں۔

وہ ایک سحر انگیز شخصیت تھے ان کے لیے ذہانت لفظ چھوٹا پڑتا ہے۔ وہ انتہائی فوکسڈ انسان تھے ان کی سیاست کا آغاز تب ہوا جب صدر ایوب نے اسکندر مرزا کو گھر بھیج کر صدارت پر قبضہ کرلیا تو جو پہلی 11 رکنی کابینہ کا اعلان کیا تھا۔ اس میں تین فوجی جرنیلوں کے علاوہ آٹھ غیر سیاسی سویلین بھی تھے، جن میں ایک ذوالفقار علی بھٹو تھے جنہیں وزیر تجارت کا عہدہ دیا تھا۔ بھٹو صاحب کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی وہ اپنے زمانے کو جانتے تھے، وہ پڑھتے بہت تھے اور کم سوتے تھے۔

بھٹو صاحب کے چند بڑے کارناموں میں ایک شملہ معاہدہ ہے، جب پاکستان ایک ڈولتی کشتی کی طرح تھا اس وقت یہ معاہدہ اور اس سے بہتر معاہدہ ہو ہی نہیں سکتا تھا، پاکستان کو متفقہ آئین دینا جس پر تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا۔ اسلامی سربراہی کانفرنس پاکستان بلائی اور میزبانی کی، پاکستان سعودی عرب کے ساتھ مل کر او آئی سی کا کلیدی بانی رکن بنا۔ 1974ء کے سربراہی اجلاس نے مسلم اقوام کو اتحاد، خود انحصاری اور تعاون کی راہ پر گامزن کیا۔

اس کے علاوہ بھٹو صاحب نے ا یٹمی پروگرام شروع کیا اور صرف بھٹو صاحب ہی ایٹمی پروگرام شروع کر سکتے تھے، اور جو میں سمجھتا ہوں کہ بھٹو صاحب کا عظیم کارنامہ جس میں بلاشبہ پوری قوم کا ساتھ بھی تھا وہ قادیانیوں کوغیر مسلم قرار دینا جو امت مسلمہ کے لیے ایک عظیم کارنامہ کی حیثیت ہے۔ بھٹو صاحب نے آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی۔ امریکہ سے پیچھے ہٹ کر اسلامی ممالک کے بلاک بنانے کی کوشش کی اور چین کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی۔

تاریخ پڑھتے ہوئے بھٹو صاحب کا وہ واقعہ بڑا بہترین لگتا ہے جب امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر پاکستان آئے اور امریکہ چاہتا تھا کہ پاکستان ایٹمی پروگرام ترک کر دے۔ ہنری نے امریکہ کا پیغام بھٹو کو دیا، بھٹو صاحب نے ان سے کہا کہ اگر میں امریکہ کی بات ماننے سے انکار کر دوں تو؟ ہنری کے چہرے پر سنجیدگی آگئی اس نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ پھر ہم تمہیں عبرتناک مثال بنا دیں گے۔ بھٹو صاحب اٹھے اور ہنری سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا کہ پاکستان امریکی صدر کے بغیر بھی چل سکتا ہے اب تم لوگ اس خطے میں اپنا نیا حلیف تلاش کر لو۔

بھٹو صاحب پر جب مقدمہ چلا تو بار بار اس دھمکی کا ذکر کرتے تھے۔ بھٹو صاحب جو ایک وقت عوامی لیڈر تھے مارشل لاء میں ایک قیدی بن گئے، قتل کا الزام لگا اور جیل ہو گئی۔ جیل میں ایک پلنگ، گدا، چھوٹی سی میز اور ایک بک شیلف دی گئی تھی۔ بھٹو صاحب کو جیل میں پڑھنے کی آزادی تھی۔ آخری دنوں میں وہ چارلس ملر کی "خیبر" اور صدیق سالخ کی کتاب" وٹنیس ٹو سرنڈر" کا مطالعہ کر رہے تھے۔

جب سپریم کورٹ نے بھی بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا سنا دی تو اس خیال کے تحت کہ کہیں جنرل ضیاء الحق یہ بہانہ نہ بنائیں کہ بھٹو کے خاندان نے اس کے لیے کچھ نہیں کیا، بھٹو صاحب کی ایک بہن شہر بانو امتیاز نے رحم کی اپیل کی جو ضیاء الحق نے تین الفاظ لکھ کر رد کر دی کہ " پٹیشن از ریجیکٹیڈ"۔ بھٹو صاحب کا مقدمہ جیسے ہونا چاہیے تھا ویسے نہ ہوا اور سب جانتے ہیں کہ جانبدارانہ فیصلہ ہوا۔ آخری ملاقات میں بھٹو صاحب زمین پر بیٹھے تھے اور بینظیر کو کتابیں اور میگزین واپس کر دیئے اس کے ساتھ کچھ سگار بھی واپس کیے۔

ایک سگار شام کے لیے رکھ لیا، ملاقات ختم ہوئی تو بینظیر نے جیلر سے کہا کہ کوٹھڑی کھولیں مجھے اپنے والد سے گلے ملنا ہے جو انہیں نہیں ملنے دیا گیا۔ رات ڈیڑھ بجے انہیں اٹھایا گیا اور تختہ دار کی طرف لے جایا گیا، جہاں رات 2 بج کر 4 منٹ پرانہیں پھانسی دی گئی۔ بھٹو صاحب کے آخری الفاظ تھے "فنش اٹ" بھٹو صاحب کی لاش اتارے جانے کے بعد کرنل رفیع نے وائرلیس پر رابطہ کیا اور کورڈورڈ میں بلیک ہارس کہا۔ اس وقت کے چند تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت جنرل ضیاء الحق بھی یہ پیغام سن رہے تھے۔

عمران خان نے 27 مارچ کو ہونے والے جلسے میں بڑے کھلے الفاظ میں کہا کہ میری حکومت گرانے کے لیے باہر سے کوششیں کی جارہی ہیں۔ انہوں نے خط لہراتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس ثبوت موجود ہے لیکن ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے میں یہ خط آن ائیر نہیں کر سکتا۔ عمران خان نے اپنے 25 سال کے سیاسی سفر میں کبھی لکھی ہوئی تقریر نہیں کی لیکن اس جلسے میں انہوں نے لکھی ہوئی چند باتیں بھی کہی جن میں بار بار اٹکے اور بڑے غور سے پڑھیں۔

عمران خان بھی بھٹو صاحب کے راستے پر چل نکلے ہیں، یہ عوامی لیڈر بن چکے ہیں۔ ان کی مقبولیت میں اب پھر بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ اسلامی سربراہی کانفرنس بھی تین مہینوں میں دو بار پاکستان بلا چکے ہیں۔ یہ فلسطین، کشمیر اور افغانستان کے مسائل کے لیے اقوام متحدہ کو باخبر کرتے رہتے ہیں۔ یہ اسلاموفوبیا پر سنجیدگی سے بات کرتے ہیں اور امریکہ کی ناجائز بات کو بڑے واضح لفظوں میں انکار کرتے ہیں۔ چین اور روس کے ساتھ بہتر تعلقات کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ پھر ایک بار پاکستان بھٹو صاحب کی پالیسیوں پر چل نکلا ہے جو عمران خان نے اپنی تقریر میں بھی کہا کہ بھٹو آزاد خارجہ پالیسی چاہتا تھا۔ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ اب بھٹو والا زمانہ نہیں ہے اب سوشل میڈیا کا دور ہے کوئی بات چھپتی نہیں ہے۔ عمران خان تحریک عدم اعتماد ناکام بنانا چاہتے ہیں لیکن اتحادی ابھی تک عمران خان کو یقین دہانی نہیں کروا رہے۔ ابھی عمران خان نے ایک ترپ کا پتہ کھیلا ہے اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ ق لیگ کی جھولی میں ڈال دی ہے۔

ق لیگ میں بھی پھوٹ پڑ چکی ہے اور ق لیگ کے ایک وفاقی وزیر نے وزارت سے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا کہ میں عمران خان کے خلاف ووٹ دوں گا۔ اس کے پیچھے کون ہو سکتا ہے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے کہ ساڑھے تین سال وزارت کے بعد آج انہیں خیال آیا کہ عمران خان ٹھیک نہیں ہیں۔ اس کے پیچھے اپوزیشن اور ان کا ذاتی مفاد بھی ہو سکتا ہے۔ بہرحال حالات بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ بھٹو دور کے حالات پیدا ہوں جو بیرونِ ملک سازش کے کردار ہیں انہیں بے نقاب کردینا چاہیے۔

Check Also

Hum Wohi Purane Lutere Hain

By Muhammad Salahuddin