بھارت کا جنگی جنون اور پاک فوج کے کارنامے
یہ حقیقت ہے کہ بھارت نے پاکستان کے وجود کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔ قیام پاکستان سے لیکر آج تک بھارت کا جنگی جنون کو پوری دنیا میں نا پسند کیا جبکہ پاکستانی فوج کے عسکری کارنامے تاریخی حیثیت کے حامل ہیں۔ جب بھی عسکری تاریخ لکھی جائے گی تو مورخ اس حقیقت سے انکار نہ کر سکے گا کہ پاکستان پر ہمیشہ بھارت کی طرف سے جنگ مسلط کی جاتی رہی۔ ابھی دو روز پہلے کی بات ہے کہ کنٹرول لائن کے بیڈوری سیکٹر میں بھارتی فوج نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہتی آبادی اور پاکستان کی فوجیوں چوکیوں پر بلا اشتعال فائرنگ کی ہے، فائرنگ کے تبادلے میں 29 سالہ حوالدار لیاقت نے جام شہادت نوش کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج کی جوابی کاروائی میں دشمن کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے۔ ایسے موقع پر پوری قوم کو 1965ء کی طرح متحد ہو جانا چاہئے۔ اور دشمن کے مقابلے کیلئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔
آج اگر بھارت ایک بار پھر جنگی جنون میں مبتلا ہے تو ہمیں پس منظر میں جا کر تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے اور پاک فوج کے کارناموں کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ہر وقت چاک و چوبند رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ 1971ء میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا کہ مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان قریباً 2200کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ اب تمام اداروں کو موجودہ پاکستان کے تمام صوبوں، تمام خطوں کو شکایت کا موقع نہیں دینا چاہئے کہ دشمن ملک بھارت بہت چالاک اور مکار ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ 3 ستمبر 1965ء کو بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری اپنی قوم پرطاری پاک فضائیہ کے حملوں کا خوف دور کرنے میں مصروف تھے اور وہ پاکستان کے خلاف زہر اگل رہے تھے۔ دوسری طرف چھمب سیکٹر میں شدید لڑائی ہوئی، جس میں پاک فوج نے بھارت کے 500 جوانوں کو جنگی قیدی بنا کر 15 ٹینکوں سمیت دیگر اسلحہ پر قبضہ کیا۔
عسکری تاریخ کے مطالعے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ پاکستان کے شاعر، ادیب، لکھاری ملی نغمے اور ترانے لکھ رہے تھے جبکہ فنکار خوبصورت آوازوں کے ساتھ پاک فوج کے جوانوں کا جذبہ بڑھا رہے تھے۔ عسکری تاریخ پڑھنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ لیفٹیننٹ کرنل نصیر اللہ بابر ( بعد میں میجر جنرل بنے ) نے غلطی سے بھمبر سیکٹر کی ایک بھارتی پوزیشن پر اپنا ہیلی کاپٹر اتارا لیکن حاضر دماغی اور بھرپور اعتماد کے ساتھ وہاں پر موجود 30 بھارتی سپاہیوں کو یہ تاثر دے کر جنگی قیدی بنا لیا کہ ایک بڑی پاکستانی فوج نے ان کا محاصرہ کر لیا ہے، حالانکہ اس وقت لیفٹیننٹ کرنل نصیر اللہ بابر کے پاس صرف ایک پستول تھا۔ ادھر پاک فضائیہ نے بھارت کے 6 میں سے تین طیارے مار گرائے، ایک طیارہ پسرور ایئر فیلڈ پر فلائٹ لیفٹیننٹ حکیم اللہ جو بعد میں چیف آف ائیر سٹاف بنے اور فلائٹ آفیسر عباس مرزا نے ایک بھارتی طیارہ Gnat E1083 کو پسرور ائیر فیلڈ پر اتارا، اس طیارے کو بھارت کا اسکواڈرن لیڈر برج پال سنگھ اڑا رہا تھا جسے جنگی قیدی بنا لیا گیا۔ برچ پال بعد میں بھارتی فضائیہ کا ائیر مارشل بنا۔ اس معرکے کے دوران دو بھارتی طیارے نقصان اٹھانے کے بعد بھاگ گئے۔
یہ بھی دیکھئے کہ 4 ستمبر 1965ء کو بھارتی وزیر خارجہ اندرا گاندھی نے بڑھک ماری کہ کہ بھارت پاکستان کے ساتھ کشمیر کے تنازعہ کو ایک ہی دفعہ بذریعہ طاقت حل کرے گا۔ اِدھر چینی وزیر خارجہ کی پاکستان کی طرف سے کاروائی کی حمایت کرتے ہوئے کہا گیا کہ بھارت نے جارحیت کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ چین ہمیشہ سے پاکستان کا اتحادی رہا ہے اور پاکستان کا ہمیشہ ساتھ دیا ہے۔ دوسری طرف امریکا سمیت بہت سے ممالک سے دوستی کے نام پر دھوکے ملتے رہے ہیں۔ پاک چین دوستی ہر مشکل وقت پر اعتماد پر پورا اتری ہے۔ 4 ستمبر 1965ء کو چینی سرکاری اخبار پیپلز ڈیلی میں لکھا گیا کہ بھارت کی فوجیوں کی جبری مداخلت پر پاکستانی فوجوں نے اپنے دفاع میں بھارتی فوجوں کو کنٹرول لائن سے پیچھے دھکیل دیا۔ اب بھی بھارت نہ صرف پاکستان بلکہ چین کے ساتھ بھی چھیڑ خانی کر رہا ہے، مودی جو کہ مذہبی جنونی ہے اور وہ ہمیشہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ مسلمانوں کا بھی دشمن رہا ہے، اس کی متعصبانہ سوچ سے چوکنا اور خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔
عسکری تاریخ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ 4 ستمبر 1965ء کو جارحانہ انداز اپناتے ہوئے جی ایچ کیو نے تمام فارمیشنز کو انڈیا کے خلاف دفاعی اقدامات لینے کا حکم دیا۔ کمانڈر ان چیف جنرل موسیٰ نے اگلے مورچوں کا دورہ کیا۔ اِدھراقوام متحدہ کے پاکستان اور انڈیا میں آبزرور مشن کے چیف ملٹری آبزرور Lt Gen Nimmo نے انڈیا کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ کشمیری مجاہدین نے انڈین آرمی کے ای کے دستے پر سری نگر کے قریب سونامارگ کے مقام پر حملہ کیا اور اس کو بھاری نقصان پہنچایا۔ بری فوج کی طرح دیگر افواج بھی چوکنا رہیں، چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل افضل رحمان خان نے پاکستان کی بحری فوج کی تمام یونٹوں کو سمندری حدود میں دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کا حکم دیا۔ بھارتی بحریہ کی نقل و حمل پر نظر رکھنے کیلئے پاک بحریہ نے اپنی طویل فاصلے تک مار کرنے والی آبدوز اور پی این ایس غازی بحری جہاز کو تیاری کا حکم دیا۔ پی این ایس غازی کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ بھارتی aircraft carrier وکرانت، آئی این ایس میسور، آئی این ایس دہلی بحری جہازوں سے لاحق خطرے کا رخ موڑے۔ پاک افواج کے عسکری کارناموں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ پاک فوج کے ادارے محروم اور پسماندہ علاقوں کے لوگوں کو اداروں میں شمولیت کا مواقع مہیا کریں کہ تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وطن سے وفا ہمیشہ غریبوں کی طرف سے ہوئی۔