سندھ کے عوام کی محرومی
سند ھ کے عوام کو جاننے کا حق (Right to know) 2020ء میں بھی نہیں مل سکا۔ حکومت سندھ دو سال قبل سندھ انفارمیشن کمیشن قائم کرنے پر مجبور ہوئی تھی مگر یہ کمیشن ابھی تک فعال نہ ہوا۔
شہریوں کے ایک گروپ نے سندھ انفارمیشن کمیشن کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی مگر کمیشن کے سربراہ اطلاعات فراہم کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت سندھ نظام حکومت کی شفافیت پر یقین ہی نہیں رکھتی۔ عوام کے جاننے کے حق کے بغیر جمہوری نظام مستحکم نہیں ہوسکتا۔
کراچی میں شہریوں کا ایک گروپ ڈاکٹر سید رضا گردیزی، نعیم قادر اور کیپٹن فاروق کئی برسوں سے عوام کے جاننے کے حق کو تسلیم کرانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ وہ مختلف محکموں سے عوام کے مفاد میں معلومات حاصل کرنے کے لیے خط وکتابت کرتے ہیں۔
اس مہم جو گروپ نے امسال جون میں چیف انفارمیشن کمیشن کو لکھے گئے ایک خط میں استفسارکیا کہ سندھ ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت کمیشن کے فرائض اورکارکردگی سے آگاہ کیا جائے۔ سندھ ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ آف انفارمیشن ایکٹ 2016ء کی دفعہ 8.3 کے تحت کمیشن اطلاعات فراہم کرنے کا پابند ہے۔
ڈاکٹر علی گردیزی اور ان کے ساتھیوں نے چیف انفارمیشن کمشنر اور دو کمشنرزکے مشاہروں اور مراعات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی مگر چیف انفارمیشن کمشنر نے یہ معلومات فراہم کرنے سے انکارکیا۔ ایک صحافی نے لکھا ہے کہ کمیشن کے پاس 70 سے80 عرض داشتیں التواء کا شکار ہیں مگر کمیشن متعلقہ محکموں سے معلومات حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ حتیٰ کہ کمیشن کے سربراہ اپنے اور اپنے ساتھیوں کے بارے میں بھی کوئی معلومات نہیں دینا چاہتے۔
دنیا بھر میں گذشتہ صدی کے آغاز کے بعد ہی عوام کے جاننے کے حق کو تسلیم کیا جانے لگا۔ سب سے پہلے اسکینڈے نیون ممالک نے اس حق کے لیے قانون بنایا۔ پھربرطانیہ اور امریکا میں قانون سازی ہوئی۔ بھارت میں 80ء کی دہائی سے یہ قانون نافذ ہوا۔ جنرل ضیاء الحق نے 1985ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے اور ایوان بالا (سینٹ) قائم ہوا۔ جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر خورشید احمد نے پہلی دفعہ عوام کے جاننے کے حق کو قانونی شکل دینے کا ایک مسودہ سینیٹ میں پیش کیا مگر سینیٹ میں اس مسودہ پر غور نہیں کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو 1987ء میں پاکستان آئیں۔
انھوں نے نیوسوشل کنٹریکٹ اور عوام کے جاننے کے حق کے لیے اس معاملے کو پیپلز پارٹی کے منشور میں شامل کیا مگر پیپلز پارٹی اپنی دونوں حکومتوں میں عوام کے اس بنیادی حق پرقانون سازی پر توجہ نہ دے سکی۔
1996ء میں صدر فاروق لغاری نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹوکی حکومت کو برطرف کیااور ملک معراج خالد عبوری وزیر اعظم بنے۔ ملک معراج خالد نے اپنی حکومت کے آخری دن اس قانون پر دستخط کیے، یوں یہ قانون 90دن کے لیے ملک میں نافذ ہوا۔ مسلم لیگ نے انتخابی مہم کے دوران یہ وعدہ کیا تھا کہ اس قانون کو ان کی حکومت باقاعدہ پارلیمنٹ کی منظوری سے ایکٹ کی شکل دے گی مگر نئے وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنے اس وعدہ پر عمل نہ کر سکے۔
جب اکتوبر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو عالمی مالیاتی اداروں نے مالیاتی امور میں شفافیت کی اہمیت پر زور دینا شروع کیا اور حکومت پاکستان پر واضح کیا کہ قرضوں کی فراہمی کے لیے یہ قانون ضروری ہے۔ اس وقت کے وزیر اطلاعات نثار میمن نے ایک قانون کا مسودہ تیار کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے 2002ء میں قومی اسمبلی کے انتخابات کے بعد عبوری آئینی حکم (P.C.O) کے تحت ذرایع ابلاغ کے بارے میں جو قوانین نافذ کیے ان میں ایک اطلاعات کے حصول کاقانون بھی تھا۔
سندھ حکومت نے اس وفاقی قانون کو بغیر کسی ترمیم کے سندھ میں نافذ کردیا۔ یہ ایک کمزور قانون تھا جو عوام کے جاننے کے حق کی تسکین نہیں کرتا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے 2005ء میں لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے۔ میثاق جمہوریت میں دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یہ جماعتیں برسراقتدار آئیں گی تو عوام کے جاننے کے حق کو آئینی تحفظ دیا جائے گا مگر جب 2008ء میں پیپلز پارٹی کی وفاق اور سندھ میں حکومتیں قائم ہوئیں تو جاننے کے حق کے قانون کو بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی گئی مگر جب 2010ء میں آئین میں 18ویں ترمیم ہوئی تو اس میں پہلے دفعہ 19-A کی شق کو شامل کیا گیا، یوں اب عوام کے جاننے کے حق کو آئینی تحفظ حاصل ہوا۔
2013ء کے انتخابات کے بعد کے پی کے میں تحریک انصاف اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے اس حق کو تسلیم کرنے کے لیے جامع قانون سازی کی، یوں دونوں صوبوں میں اچھی طرز حکومت کا ایک ماڈل ظہور پذیر ہوا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت اس معاملے میں قانون سازی پر تیار نہیں تھی۔ ایڈیٹروں کی تنظیم کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز (C.P.N.E) نے یو ایس ایڈ کے تعاون سے جاننے کے حق کے بارے میں قانون سازی کے لیے آگاہی کی مہم شروع کی۔ اس مہم کے دوران سی پی این ای نے ایک قانون کا مسودہ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کو پیش کیا۔
اس تقریب کے دوران چائے کے وقفہ میں سندھ کے اطلاعات کے مشیر نے سی پی این ای کے عہدیداروں سے کہا کہ "آپ لوگ اس قانون کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں۔" قائم علی شاہ وزیر اعلیٰ ہاؤس سے رخصت ہوئے مگر اس قانون کے نفاذ کا نہیں سوچا۔ سندھ کے علاوہ باقی صوبوں میں ایک مؤثر قانون نافذ رہا۔
سندھ اسمبلی نے قانون منظورکیا تو اس قانون پر عملدرآمد کے لیے انفارمیشن کمیشن کا قیام ضروری تھا مگر حکومت سندھ نے یہ کمیشن نہیں بنایا۔ 2018ء کے انتخابات سے قبل شہریوں نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو ہائی کورٹ کے حکم پر کمیشن کے سربراہ اور کمشنر کا تقرر ہوا مگر 2020ء میں بھی یہ کمیشن فعال نہیں ہے۔ شفافیت اور اطلاعات کے حق پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر عرفان عزیزکہتے ہیں کہ 18ویں ترمیم کے بعد وفاق اور باقی تینوں صوبوں میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں کے سربراہان متعلقہ اسمبلیوں کے قائد حزب اختلاف ہیں مگر سندھ میں یہ عہدہ پیپلز پارٹی کے صوبائی اسمبلی کے رکن کو دیا گیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے وزراء اس تضاد کی مختلف توجیہات بیان کرتے ہیں۔ معروف سوشل سائنٹسٹ ڈاکٹر ریاض شیخ کہتے ہیں کہ انھوں نے بھارت میں ایک تعلیمی دورہ کے دوران پنچایت کے نظام کے ساتھ جاننے کے حق کو منسلک کرنے کے ماڈل کا مشاہدہ کیا تو اس ماڈل میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ سماجی کارکنوں نے اس حق کو شفافیت کے یقینی بنانے کے لیے استعمال کیا اور وہاں ترقیاتی منصوبوں میں بدعنوانی ختم ہوئی۔
ادھر سندھ کے سرکاری اداروں میں بدعنوانی کا سلسلہ جاری ہے۔ عوام کو ہر مسئلہ پر بھاری رشوت دینی پڑتی ہے۔ حج پر جانے کے لیے این او سی کے لیے بھی پیسے دینے پڑتے ہیں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سمیت بیشتر وزراء کے خلاف نیب میں مقدمات زیرسماعت ہیں۔
ایک صوبائی سیکریٹری اور کئی اعلیٰ افسر ان پر بدعنوانی کے مقدمات ہیں مگر بدعنوانی کے خاتمہ کے لیے مسلمہ سائنسی طریقوں پر عمل پیرا ہونے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی حکومت کو بدعنوان قرار دیتے ہوئے تحریک چلانے کا عندیہ دیا ہے مگر ان کے صوبے میں ہر سطح پر بدعنوانی کی جڑیں گہری ہوں گی اور عوام کے اس جاننے کے حق کا تحفظ کرنے والے ادارے غیر فعال ہوں گے تو وہ کس بنیاد پر وفاقی حکومت کے خلاف عوام کو منظم کرسکیں گے؟