سالمیت کا انحصار، پارلیمانی نظام میں مضمر
پھر صدارتی نظام کے نفاذ کی گونج سنائی دینے لگی ہے۔ خیبر پختون خوا کے گورنر شاہ فرمان نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں صدارتی نظام کی خوبیاں اور پارلیمانی نظام کی ناکامیاں بیان کیں۔
دو افرد جن کی کوئی سیاسی سرگرمی گزشتہ 40 برسوں میں ریکارڈپر نہیں ہے سپریم کورٹ بنچ گئے۔ عدالت عظمی سے ایک عرضداشت میں درخواست کی کہ صدارتی نظام کے لیے ملک میں ریفرنڈم کرانے کے احکامات جاری کیے جائیں۔
اس سے پہلے وفاقی وزارت کے مرد آہن فواد چوہدری اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرچکے ہیں۔ خیبر پختون خوا کے گورنر شاہ فرمان نے وضاحت کی کہ یہ ان کے ذاتی خیالات ہیں، ان کی پارٹی میں اس اہم مسئلہ پر کوئی بحث نہیں ہوئی۔
پاکستان میں صدارتی نظام اور پارلیمانی نظام دونوں کا تجربہ ہوچکا ہے۔ سابق صدر اسکندر مرزا نے 7 اکتوبر 1958 کو1965ء کا آئین منسوخ کر کے مارشل لاء نافذ کیا۔ فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقررکیا گیا۔
جنرل ایوب خان کے وزراء 27 اکتوبر 1958ء کی رات کو صدر اسکندر مرزا کی خواب گاہ میں داخل ہوئے۔ انھیں شب خوانی کے لباس میں گھسیٹتے ہوئے گورنر جنرل ہاؤس کی نچلی منزل تک لائے اور ننگے پاؤں کار میں بٹھا کرکراچی ایئرپورٹ بھیج دیا گیا۔ برطانوی ہائی کمشنر کی مداخلت پر اسکندر مرزا کو جلاوطن کردیا گیا، جنرل ایوب خان ملک کے صدر بن گئے۔
جنرل ایوب خان کا ارادہ اقتدار پرسدا قابض رہنے کا تھا مگر 1968ء کو ملک کے تمام حصوں میں چلنے والی عوامی تحریک کے نتیجے میں وہ مستعفی ہونے پر مجبور ہوئے۔ ایوب خان نے اپنا آئین منسوخ کیا اور فوج کے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان کو اقتدار منتقل کیا۔ جنرل یحییٰ خان 20دسمبر 1970ء تک صدر کے عہدہ پر براجمان رہے۔ 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان کا اکثریتی صوبہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے نام سے دنیا کے نقشہ پر وجود میں آگیا۔
جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977ء کو پیپلز پارٹی کی منتخب حکومت کو برطرف کیا اور اپنی پہلی تقریر میں 90 دن میں انتخابات کرانے کا وعدہ کیا۔ جنرل ضیاء الحق 17 اگست 1988ء تک صدر کے عہدے پر برسر اقتدار رہے۔
اکتوبر 1999ء میں فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کی منتخب حکومت کو برطرف کیا اور 2008ء تک برسر اقتدار رہے۔ وفاقیت کے ماہر اور پولیٹیکل سائنس کے استاد ڈاکٹر سید جعفر احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نو سال کے طویل بحث و مباحث کے بعد 1956ء کے آئین میں پارلیمانی نظام نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیاتھا مگر بدقسمتی سے جنرل اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے ڈھائی سال بعد اس دستور کو منسوخ کیا کیونکہ ان کے مفادات اور مستقبل کے سامنے یہ دستور رکاوٹ تھا۔
ڈاکٹر سید جعفر کا مزید کہنا ہے کہ 1965ء کے انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں متحدہ حزب اختلاف کا مطالبہ پارلیمانی نظام کے نفاذ کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 1970ء کے انتخابات پارلیمانی نظام کے نفاذ کے لیے منعقد ہوئے تھے مگر مشرقی پاکستان کے بحران کی بناء پر پارلیمانی نظام پر مشتمل آئین نہ بن سکا مگر 1973ء کا آئین جو قومی اتفاق رائے کا مظہر تھا پارلیمانی نظام پر مشتمل تھا۔ مگر 1973ء کے بعد1977ء میں جنرل ضیاء الحق اور 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے اس کی ترامیم کر کے صدارتی نظام میں تبدیل کردیا۔
وہ کہتے تھے کہ پاکستان کے لیے صدارتی نظام اس لیے سودمند نہیں ہے کہ پاکستان ایسا وفاق ہے جس کے ذریعہ چاروں صوبوں میں سے ایک صوبہ آبادی کے لحاظ سے باقی صوبوں سے بڑا ہے اور منطقی طور پر اس بات کا غالب امکان ہے کہ بڑے صوبہ سے تعلق رکھنے والی قیادت ہی صدارتی نظام کے ذریعہ برسر اقتدار آئے گی۔
ڈاکٹر جعفر اپنے دلائل میں کہتے ہیں کہ صدارتی نظام میں کیونکہ انتظامیہ نہ تو مقننہ سے منتخب ہوتی ہے (صدر اور اس کی کابینہ کے وزراء مقننہ کے اراکین نہیں ہوتے) نہ ہی وہ اپنی بقاء اور تسلسل کے لیے مقننہ کے مرہون منت ہوتے ہیں جب کہ پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم اور اس کی کابینہ لازمی طور پر مقننہ سے منتخب ہوتے ہیں۔ اس وقت تک اپنے منصب پر فائز ہوتے ہیں جب تک مقننہ کا اعتماد حاصل ہوتا ہے، یوں اس خوبی کی وجہ سے پارلیمانی نظام جوابدہ حکومت کا نظام کہلاتا ہے۔
پارلیمانی امور کے ماہر ظفر اﷲ خان کہتے ہیں کہ بیرسٹر محمد علی جناح پاکستان دستور ساز اسمبلی کے پہلے صدر منتخب ہوئے اور اس کے متعدد اجلاسوں کی صدارت کی اور 11 اگست 1947ء کی تاریخی تقریر میں پارلیمنٹ کو مقتدرہ ادارہ کہا۔ اس تصورکی نفی گورنر جنرل غلام محمد کی جانب سے مولوی تمیز الدین کیس میں ہوئی۔ اس کے بعد تاریخ گواہ ہے کہ ایوب خان کے صدارتی نظام کے خلاف قائد اعظم کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے آواز اٹھائی۔
ظفر اﷲ خان کا مدعا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں انصاری کمیشن رپورٹ میں یہ بحث چھڑی۔ جنرل ضیاء الحق نے آئین میں ترامیم کر کے آئین کو عملی طور پر صدراتی بنادیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر صدارتی نظام نافذ کردیا جائے تو ہر امیدوار کو اپنی انتخابی مہم کے لیے کم از کم 1088ملین روپے تو قانونی مہم کے لیے جائز ہوں گے۔
ظفر اﷲ خان کے اس پر تجزیہ سے واضح ہوتا ہے کہ یا تو کوئی کھرب پتی انتخاب میں حصہ لے سکے گا یا امیدوار کو عطیات دینے والوں کا سہارا لینا ہوگا۔ صدر منتخب ہونے کے بعد ان عطیات دینے والے مخیر حضرات کا کیا کردار ہوگا اس کا نقشہ واضح ہے۔
صدارتی نظام کی حمایت کرنے والے گورنرخیبر پختون خوا کہتے ہیں کہ پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم کو بہت سے پریشر گروپوں کو مطمئن کرنا ہوتا ہے، ٹیکنوکریٹس کابینہ کے رکن نہیں ہوسکتے، اگر جنرل ایوب خان کے دورکی تاریخ کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایوب خان نے اپنے اقتدار میں توسیع دینے کے لیے ہر قسم کے کمپرومائزکیے۔ ایوب خان نے اپنی صدارتی مہم کو کامیاب بنانے کے لیے روٹ پرمٹ سے لے کر صنعتوں کے قیام کے پرمٹ اور پلاٹ تقسیم کیے۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر محبوب الحق نے 70ء کے عشرہ میں جن 22 خاندانوں کی فہرستیں شایع کیں ان میں ایوب خان کے بیٹے بھی شامل تھے۔ حامد خان نے اپنی کتاب A history of the judiciary in Pakistanمیں لکھا ہے کہ جنرل ایوب خان نے جب اقتدار چھوڑا تو ان کی دولت کا تخمینہ10سے 20 ملین ڈالر کے قریب تھا۔ جنرل یحییٰ خان کی کارکردگی محمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔
ملک کے تیسرے صدر ضیاء الحق نے امریکا کی افغان جنگ کے پروجیکٹ میں شامل ہوکر اس ملک میں مذہبی انتہاپسندی اورکلاشنکوف اور ہیروئن کلچرکا تحفہ دیا۔
جنرل پرویز مشرف نے بظاہر احتساب کا نعرہ لگایا مگر کابل میں لڑی جانے والی جنگ کراچی تک پہنچا دی۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے طالب علمی کے دور میں جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک میں حصہ لیا تھا۔ صدر پاکستان عارف علوی کو ضرور تاریخی حقائق سے اراکین کو آگاہ کرنا چاہیے۔ پاکستان کی سالمیت کا انحصار پارلیمانی نظام اور 1973ء کے آئین میں مضمر ہے۔