معراج محمد خان ، روشنی کا مینار
معراج محمد خان بائیں بازوکی تحریک کے سرگرم کارکن تھے۔ انھوں نے کارل مارکس کے فلسفہ کو دل کی گہرائیوں کے ساتھ قبول کیا اورایک غیر طبقاتی سماج کے قیام کے لیے اپنی زندگی کو وقف کیا۔ ان کے بھائی منہاج محمد خان برنا ممبئی میں ترقی پسند تحریک میں شامل ہوئے۔ انھوں نے جامعہ ملیہ دہلی میں تعلیم حاصل کی، برنا صاحب جدوجہد کا استعارہ تھے۔
انھوں نے جامعہ ملیہ دہلی میں شرنارتھیوں کے داخلہ کے لیے ہڑتال کرائی۔ منہاج برنا اور معراج محمد خان والدین کے ہمراہ پاکستان آئے اور کوئٹہ میں مقیم ہوئے۔ منہاج برنا نے 50ء کی دہائی میں کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ منہاج برنا 1953 میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی تعلیم کو سستا کرنے اور نئے تعلیمی اداروں کو روکنے کی تحریک میں شامل تھے۔ منہاج برنا ان 12 طالب علم رہنماؤں میں شامل تھے جنھیں خواجہ ناظم الدین کی حکومت نے سیکیورٹی ایکٹ کے تحت نظر بندکیا۔
معراج محمد خان نے منہاج برنا کو اپنا آئیڈیل بنایا، جب انھوں نے 60ء کی دہائی کے آغاز پر سندھ مسلم کالج میں داخلہ لیا تو بائیں بازوکی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (N.S.F) میں شامل ہوئے اور این ایس ایف کے صدرکے عہدے تک پہنچے۔ معراج محمد خان بہترین مقرر تھے اور طالب علموں سے براہِ راست رابطے پر یقین رکھتے تھے۔ معراج محمد خان تقریرکرتے تو طلبہ تقریرکے سحر میں کھوجاتے۔ 60ء کی دہائی میں جنرل ایوب خان کی آمریت کے سائے گہرے ہو چلے تھے۔ ایوب خان کی حکومت نے عوام کے بنیادی حقوق غضب کرلے تھے۔ مخالفین کو مختلف الزامات کے تحت گرفتارکر لیا جاتا تھا۔ اخبارات پر پہرے بٹھا دیے گئے تھے۔
معراج محمد خان کی قیادت میں این ایس ایف نے ایوب آمریت کو چیلنج کیا۔ ایوب حکومت نے تین سالہ ڈگری کورس نافذکیا تو ان کی رہنمائی میں این ایس ایف نے زبردست تحریک چلائی۔ ایوب حکومت نے معراج محمد خان اور ان کے 11ساتھیوں کو شہر بدرکردیا، جب صدارتی انتخاب میں جنرل ایوب خان کے مقابلے پر محترمہ فاطمہ جناح نے انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا تو معراج محمد خان، فاطمہ جناح کی مہم میں شامل ہوئے، ان کی تقاریر سے عوام میں جوش وجذبہ پیدا ہوتا تھا۔ ایوب خان کی حکومت نے معراج محمد خان اور ان کے ساتھیوں کو بار بار پابند سلاسل کیا۔ معراج محمد خان کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کرنا چاہتے تھے، اگر معراج یونیورسٹی کے طالب علم بن جاتے تو یونیورسٹی میں این ایس ایف مضبوط ہوجاتی مگر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے انھیں داخلہ نہیں دیا۔
معراج محمد خان پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں شامل تھے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے اردو میں تقریر کر نا ان سے اور ان کے ساتھیوں سے سیکھی۔ انھوں نے پیپلز پارٹی کے منشور میں سوشلسٹ نظام معیشت کو شامل کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
جنرل یحییٰ خان کے دور میں ان کی تقاریر نے پیپلز پارٹی کا پیغام عوام میں پہنچانے میں بڑا کردار ادا کیا۔ جنرل یحییٰ خان کی حکومت نے متعدد بار معراج محمد خان کو گرفتارکیا۔ پیپلزپارٹی کی قیادت نے معراج محمد خان اور ان کے ساتھیوں کو قومی اسمبلی کے ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا مگر کمیونسٹ پارٹی پروچائنا جس کی قیادت طفیل عباس کررہے تھے نے یہ فیصلہ کیا کہ معراج محمد خان انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ کمیونسٹ پارٹی نے "پرچی کے بجائے پرچھی "کا نعرہ لگایا۔ معراج محمد خان کا کہنا تھا کہ اس فیصلہ سے بہت زیادہ نقصان ہوا، اگر سوشلسٹ نظریات رکھنے والے پیپلز پارٹی کے رہنما انتخابات میں کامیاب ہوتے تو پیپلز پارٹی کی حکومت کی پالیسیوں میں فاشسٹ رجحانات نہیں آتے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر رشید رضوی نے ان کے تعزیتی جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ " خان صاحب کی کوششوں سے 1973 کے آئین میں آرٹیکل 3 شامل ہوا، اس آرٹیکل کے تحت ریاست ہر قسم کے استحصال کے خاتمہ کی پابند ہو۔ طالع آزما قوتوں نے اس آرٹیکل کی اہمیت کو اجاگر نہیں ہونے دیا۔ آئین کے اس آرٹیکل پر عملدرآمد ہو تو پاکستان کی ریاست میں ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ معراج محمد خان صدر ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت میں عوامی امور کے وزیر مملکت کے طور پر شامل ہوئے مگر وزارت کے روایتی پروٹوکول سے دور رہے، وہ پی ای سی ایچ ایس میں کمرشل ایئریا کے دوکمروں کے فلیٹ میں مقیم رہے۔
جب بھٹو حکومت نے سائٹ اور لانڈھی میں مزدوروں پر فائرنگ کی اور مزدور رہنماؤںکو پابند سلاسل کیا تو اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ ان کی جبلت میں مظلوم طبقات سے یکجہتی شامل تھی۔ کراچی کے اسکولوں کے اساتذہ کے حالات کارکو بہتر بنانے کی جدوجہد کے لیے مزارقائد کے سامنے جمع تھے، پولیس نے اساتذہ کا راستہ روکا ہوا تھا۔ پولیس والے اساتذہ پر ڈنڈے برسارہے تھے۔ معراج محمد خان وہاں سے گزرے، ان سے اساتذہ پر تشدد برداشت نہیں ہوا اور اساتذہ کے ساتھ سینہ سپر ہوگئے۔ پولیس والوں نے معراج محمد خان کے سر پر ڈنڈے برسائے، ان کے سر سے خون نکل آیا۔ پولیس تشدد سے ان کی پیشانی متاثر ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے معراج محمد خان کوگرفتار کیا اور حیدرآباد جیل بھیج دیا۔
ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977 کو منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا اور حیدرآباد ٹریبونل ختم کردیا گیا۔ معراج محمد خان چار سال بعد رہا ہوئے۔ چار سالہ اسیری میں ان کی صحت خاصی خراب ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو جیل میں بند تھے، ان کے خلاف محمد خان قصوری کے قتل کا مقدمہ چل رہا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے معراج محمد خان کو پیشکش کی کہ وہ بھٹو کے خلاف مہم میں حصہ لیں مگر ان کے ضمیر نے گوارہ نہ کیا۔ معراج محمد خان اور ان کے ساتھیوں نے پیپلز پارٹی سے علیحدگی کے بعد "قومی محاذ آزادی" قائم کیا۔ انھوں نے تحریک بحالی جمہوریت (M.R.D) کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے ایم آر ڈی کی 1983 کی تحریک میں ریگل چوک سے گرفتاری دی اور طویل عرصہ تک پابند سلاسل رہے۔
معراج محمد خان اور ان کے ساتھی تحریک انصاف میں بھی شامل ہوئے اور تحریک انصاف سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ انھوں نے تحریک انصاف میں عوامی کلچر کو اجاگر کرنے کی کوشش کی مگر عمران خان اور ان کے ٹولے نے یہ قبول نہ کیا، انھوں نے مایوس ہوکر تحریک انصاف سے علیحدگی اختیارکرلی مگر عوامی سیاست سے اپنا رشتہ جوڑے رکھا، ساری زندگی جدوجہد میں گزاری۔ وہ سمجھتے تھے کہ غریبوں کی قسمت اس وقت بدل سکتی ہے جب سوشلسٹ معاشرہ قائم کیا جائے۔ یہ آدرش، ان کا زمانہ طالب علمی سے تھا اور زندگی کی آخری سانس تک وہ اس آدرش کی پاسداری کرتے رہے۔
انھوں نے کبھی سیاست کی آڑ میں دولت کمانے کی کوشش نہیں کی۔ ان کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ جب وہ این ایس ایف کے صدر تھے اور ایوب آمریت کے خلاف سینہ سپر تھے تو انھیں اور ان کے ساتھیوں کو انتہائی پرکشش پیشکش ہوئی۔ مگر انھوں نے ہمیشہ ان پیشکشوں کو مسترد کیا اور اپنے ساتھیوں کو یہ درس دیا کہ مالیاتی فوائد اپنے حقیقی مقصد سے دور لے جاتے ہیں۔ انھوں نے بیماری کا طویل دورانیہ گزارا۔ وہ اسپتال سے فارغ ہوئے تو ان کے پھیپھڑے ختم ہوچکے تھے، شاید 30 فیصد کام کررہے تھے مگر وہ اپنی قوت ارادی کی بناء پر زندہ رہے۔ ڈاکٹروں نے اسے معجزہ قرار دیا تھا۔ معراج محمد خان چار سال قبل 21 جولائی کو انتقال کرگئے۔ ان کی ساری زندگی جدوجہد سے پر ہے اور جدوجہدکی عظمت میں یقین رکھنے والوں کے لیے روشنی کا مینار ہے۔