Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Tausif Ahmad Khan
  3. Main Doob Raha Hoon Dooba To Nahi Hoon

Main Doob Raha Hoon Dooba To Nahi Hoon

میں ڈوب رہا ہوں ڈوبا تو نہیں ہوں

کراچی ڈوبا نہیں ہے ڈوب رہا ہے۔ کراچی کی حالیہ بارش نے انصاف کی ایک نئی روایت قائم کی۔ امراء کی سوسائٹیز اور غریبوں کی بستیاں تباہ ہو گئیں۔ حکومت سندھ، بلدیہ کراچی اور پوش علاقوں میں لوگوں کی اربوں روپے کی املاک تباہ ہوگئیں۔

پانچ دن تک بجلی کی سپلائی معطل رہی۔ پینے کا پانی نایاب ہوا۔ تاریخ میں پہلی دفعہ امراء کی بستی کے مکین سڑکوں پر نکل آئے۔ علاقائی بورڈ کے دفتر کا گھیراؤ ہوا مگر پھر بھی بعض علاقوں کی سڑکوں پر بہتا پانی کم نہیں ہو سکا۔ علاقائی بورڈ نے ان مظاہرین کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کرائے۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی جو جنوبی کراچی کے ڈیفنس کے حلقہ سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور کراچی کی سڑکوں اور گلیوں میں متحرک رہے۔ اس آفت کے وقت اپنے ووٹروں کی مدد کے لیے کیوں نہیں آئے۔

وزیر اعظم ایک ہفتہ تک کراچی نہیں آئے۔ اسلام آباد سے کراچی کے میگا منصوبوں کی یقین دہانی کراتے رہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ تو جمعرات کی دوپہر کی قیامت خیز بارش میں شہر کے مختلف حصوں میں پہنچے۔ کمر کمر پانی سے گزرے۔ کئی گھنٹوں پانی کا سامنا کیا۔ وزیر اعلیٰ نے فرمایا کہ کراچی کے بچاؤ کے لیے اربوں ڈالر کی ضرورت ہے اور عالمی مالیاتی اداروں کی مدد کے بغیر کراچی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ مگر اس بات کا اقرار کرنے پر مجبور ہوئے کہ صوبائی حکومت کوڑے کا مسئلہ حل نہ کر سکی۔

کراچی میں تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی تو لوگوں کی مدد کو پہنچے مگر وفاقی وزراء جو ٹی وی ٹاک شوز میں زور و شور سے کراچی کے مسائل پر دلائل دیتے ہیں لاپتہ رہے۔ کراچی کے معروف علاقہ ٹاور میں منگل یکم ستمبر تک پانی جمع رہا۔ اس علاقہ میں کراچی پورٹ ٹرسٹ K.P.Tکے مرکزی دفاتر ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن کا بڑا دفتر بھی اسی علاقہ میں ہے۔ وزیر منشن سے متصل ایک گلی میں پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح کی جائے پیدائش ہے۔

کے پی ٹی کا عملہ پانی کی نکاسی کے لیے ہیوی مشینری لے آیا۔ علاقہ کے مکینوں کو امید ہوئی کہ اب پانی اتر جائے گا مگر پھر کے پی ٹی کا عملہ ہیوی مشینری کے ساتھ لاپتہ ہوا۔ عملے سے جب ایک متاثرہ فرد نے دریافت کیا تو پتہ چلا کہ پانی کی نکاسی کی مشینری وفاق کی ایک اعلیٰ منتخب شخصیت کے گھر سے پانی نکالنے کا فریضہ انجام دینے کے لیے منتقل کر دی گئی ہے۔ اس دفعہ بارش نے پوش علاقوں کے علاوہ کراچی کی متوسط اور نچلے متوسط طبقوں کی بستیوں کو بھی تہس نہس کیا۔ منگھو پیر کے علاقہ میں ایک سیمنٹ فیکٹری ہوا کرتی ہے یہ فیکٹری ختم ہوئی اور فیکٹری کی زمین پر نیا ناظم آباد تعمیر ہوا۔ بہت سے لوگوں نے اس پراجیکٹ میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی۔ پھر نچلے متوسط طبقہ کی بستی سرجانی ٹاؤن اور خدا کی بستی بھی بارش میں بہہ گئیں۔

ان علاقو ں میں کئی دنوں تک پانی جمع رہا۔ صاف پانی کے ٹینک میں گٹر کا پانی مل گیا۔ پھر بجلی بند ہوگئی۔ رینجرز اور فوج کے دستوں نے کشتیاں چلائیں۔ لوگ گھروں سے محفوظ مقامات پر منتقل کیے گئے۔ ملیر کے علاقہ میں فیکٹریوں کا زہریلا فضلہ بارش کے پانی میں مل گیا، بارش کا پانی اس علاقہ کے گھروں میں داخل ہوا، یوں سیکڑوں افراد جلدی امراض کا شکار ہوئے۔ یہ ایک دن کی بارش میں 25 کے قریب افراد جاں بحق ہوئے۔ پانی کے ریلہ میں ڈوبنے والے بعض بدقسمت افراد کی لاشیں چار دن بعد ملیں۔ کچھ افراد کا پتہ نہ چلا۔ پھر بارش ہوتے ہی شہر کے بعض علاقے بجلی سے محروم ہو گئے۔

کئی تار گر گئے۔ کے الیکٹرک کے حکام نے انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لیے بجلی کی سپلائی معطل کر دی۔ اس کے ساتھ ہی موبائل کمپنیوں کے ٹاور ٹوٹ گئے اور بیشتر علاقوں میں موبائل فون محض ڈبہ میں تبدیل ہوئے۔ کراچی کے جغرافیہ پر نظر ڈالی جائے تو اس تباہی کی کچھ وجوہات کا پتہ چل جاتا ہے۔ کراچی کے جنوب میں بحیرہ عرب ہے۔ شمال مشرق میں پہاڑیاں ہیں۔ یہ پہاڑی سلسلہ ایک طرف سپر ہائی وے سے متصل تھانہ بولا خان کے علاقہ سے گزرتا ہے اور بلوچستان کے شہر حب کے ساتھ ساتھ چلتا چلا جاتا ہے۔

ایک طرف کھیرتھر کی پہاڑیاں ہیں۔ یہ سلسلہ بلوچستان میں کوہ سلمان سے مل جاتا ہے۔ جب ہزاروں سال سے اس پہاڑی سلسلہ میں بارش ہوتی تو بارش کا پانی ندی نالوں کے ذریعہ کراچی منتقل ہوتا تھا اور مختلف راستوں سے بحیرہ عرب میں منتقل ہو جاتا ہے۔ ملیر ندی اور لیاری ندی اس پانی کو بحیرہ عرب منتقل کرتی تھی اور ان ندیوں کا پانی آب پاشی اور پینے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ فہیم الزماں کراچی یونیورسٹی کی ترقی پسند طلبہ کو ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف منظم کرتے تھے۔ تعلیم کو عام اور سستا کرنے کے حق کے لیے طلبہ کو بیدار کرنے کی کوششیں کرتے تھے۔

پھر کراچی یونیورسٹی سے فلسفہ کی ڈگری لینے کے بعد امریکا چلے گئے اور کمرشل پائلٹ کا لائسنس حاصل کیا۔ این ای ڈی یونیورسٹی کے استاد اور مارکسٹ دانشور پروفیسر نعمان (مرحوم )کے ساتھ مل کر ایدھی ایئر ایمبولینس قائم کی اور ایدھی فاؤنڈیشن میں جدید وائرلیس نظام بھی تنصیب کیا۔

پھر پیپلز پارٹی کے دوسرے دور میں بلدیہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ اس وقت کراچی میں ایک طرح کی سی سول وار ہو رہی تھی۔ اس پر اشوب دور میں فہیم الزماں نے کراچی کے مسائل کے حل کے لیے شہری سہولتیں فراہم کرنے والے تمام اداروں کو کراچی میونسپل کارپوریشن کے ماتحت کرنے کا نظریہ پیش کیا تھا تا کہ دنیا کے جدید شہروں کی طرح کراچی کے مسائل بھی جدید سائنسی طریقوں سے حل ہو سکیں۔ انھوں نے اپنے مختصر دور میں کچھ منصوبے شروع کیے تھے۔ کچھ کاغذوں میں رہے۔

فہیم نے استعفیٰ دیدیا مگر فہیم الزماں کی کراچی سے محبت اس تجربہ کے باوجود کم نہ ہوئی۔ فہیم الزماں موجودہ صورتحال کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کراچی میں نیچرل ڈرینج سسٹم موجود تھا۔ اداروں کی نااہلی، شہریوں کی غفلت اور ناقص منصوبہ بندی کی بناء پر نیچرل ڈرینج سسٹم بند ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ مختلف برادریوں کی ہجرت کا سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ یہ برادریاں بستیوں میں بس گئیں۔ پھر کراچی اور دیگر میگا سٹی میں ایک بنیادی فرق ہے۔ لندن، نیویارک اور ٹوکیو وغیرہ کی آبادی بتدریج بڑھی۔ کراچی کی آبادی 1947 میں 4 لاکھ کے قریب تھی مگر ہندوستان کے بٹوارہ کے بعد کراچی کی آبادی لاکھوں سے کروڑوں میں تبدیل ہوگئی۔ یوں ایک اندازہ کے مطابق اب کراچی کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہے۔ ان کا تجزیہ ہے کہ 1971کے بعد کراچی میں بے ہنگم کچی بستیاں قائم ہونے لگیں۔

یہ کچی بستیاں ملیر اور لیاری ندی میں بھی قائم ہوئیں اور چھوٹے بڑے نالوں پر بھی۔ فہیم الزماں کہتے ہیں کہ کراچی میں دو واٹر ٹریٹ منٹ پلانٹ تھے، ایک محمود آباد میں اور ایک گٹر باغیچہ میں۔ یہ دونوں پلانٹ ختم ہوگئے۔ ایم کیو ایم والوں نے چائنا کٹنگ کے اصول کے تحت محمود آباد پلانٹ کی زمین پر پلاٹ بنا دیے، یوں پانی کے ٹریٹ منٹ کا معاملہ ختم ہو گیا۔ بلدیہ کراچی اور سٹی گورنمنٹ کے عہدیداروں نے اپنے اہم معاملات پر توجہ نہیں دی۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ کراچی دنیا کا بڑا شہر تو ہے مگر یہاں وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور دیگر خود مختار علاقوں کی زمینوں پر اجارہ داری ہے، یوں 50 فیصد علاقہ بلدیہ کراچی کی حدود سے باہر ہے۔ اس طرح بلدیہ کراچی کا دائرہ بہت محدود ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کراچی کو ایک سپر خودمختار میونسپل کارپوریشن کی ضرورت ہے جس کا میئر کوآرڈیشن کا فریضہ انجام دے اور تمام ادارے، اتھارٹیز اور دیگر اداروں کی زمینوں اور سڑکوں سے اس کارپوریشن کو ٹیکس وصول کرنے کا حق ہو اور صرف ایک ادارہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پورے شہر کی تعمیر سمیت مالیاتی معاملات کی نگرانی کرے۔ فہیم الزماں کا مدعا ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومت کے ذریعہ کراچی کو گرانٹ فراہم کرے اور سندھ کی حکومت صوبائی مالیاتی کمیشن قائم کر کے ترقیاقی منصوبوں کے لیے رقوم مہیا کرے۔

ان کے تجربات کی روشنی میں یہ بھی کہنا ہے کہ ہر میٹروپولیٹن کارپوریشن میں شہر کے تمام علاقوں کے شہریوں کے نمائندے ہونے چاہئیں اور ہر میٹروپولیٹن کارپوریشن شہر کے تمام ترقیاتی منصوبوں کا تعین کرے اور پورے شہر سے ٹیکس وصول کرے۔ فہیم الزماں کاکہنا ہے کہ اس شہر کی بدقسمتی ہے کہ اب تک اس کا ایک جامع ماسٹر پلان نہیں ہے جب کہ جب تک پورے شہر میں میٹروپولیٹن کارپوریشن کی اجارہ داری نہیں ہو گی حالات دگرگوں رہیں گے۔ کراچی کے امور کے ماہر عارف حسن نے اپنے مختلف انٹرویوز میں بتایا ہے کہ ایک ادارے نے پانی کی نکاسی کے چار قدیم نالوں کو بند کر دیا، جس کے نتیجہ میں منگورز ختم ہو گئے۔

یوں پوش علاقے پانی میں ڈوب گئے۔ سندھ کے گورنر یہ خوش خبری سنا رہے ہیں کہ وزیر اعظم کراچی کے لیے خطیر رقم کے پیکیج کا اعلان کریں گے۔ مقتدرہ کے دباؤ پر وفاقی اور صوبائی حکومتیں کراچی کی تعمیر نو پر متفق ہوئی ہیں مگر یہ عارضی اقدامات ہیں۔ کراچی کے مسئلہ کا مستقل حل ایک سپر خود مختار میونسپل کارپوریشن کے قیام میں مضمر ہے۔ کراچی کی حالت بقول شاعر کچھ یوں ہے:

ساحل پہ کھڑے ہو تمہیں کیا غم ہے چلے جانا

میں ڈوب رہا ہوں ا

Check Also

Khyber Pakhtunkhwa Ka Jahannam

By Najam Wali Khan