تصوف سے سمندری تجارت تک

پاکستان میں روایتی نظام تعلیم کے برابر ایک نئی فکری اور تعلیمی روایت ابھر رہی ہے جو محض نصابی تعلیم تک محدود نہیں رہتی بلکہ انسان کی باطنی تشکیل کو بھی اہمیت دیتی ہے۔ اگلے روز سینئر صحافی ندیم چوہدری کی دعوت پر منہاج یونیورسٹی لاہور میں صحافیوں کی ایک نشست ہوئی جس میں جامعہ کے وائس چانسلر ساجد محمود شہزاد نے اپنی گفتگو سے سب کو چونکا دیا۔ یہ محض ایک تعارفی ملاقات نہ تھی بلکہ اس میں پاکستان کی معاشی سمت، سمندری تجارت اور سی فوڈ انڈسٹری جیسے بڑے موضوعات پر ایسی بامعنی بات ہوئی جو ہمارے علمی ماحول میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
دلچسپ پہلو یہ تھا کہ لاہور جیسا شہر جو سمندر سے میلوں دور ہے وہاں کی ایک یونیورسٹی اپنے طلبہ کے لیے سی فوڈ اور میری ٹائم ٹریڈ جیسے شعبوں میں باقاعدہ کورسز متعارف کرا رہی ہے۔ یہ قدم صرف ایک تعلیمی تجربہ نہیں بلکہ ایک وسیع وژن کی علامت ہے۔ اس نشست میں یہ جان کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی کہ پاکستان میں تصوف جیسے نازک اور اعلیٰ فکری شعبے کو بھی باقاعدہ تدریسی ڈھانچے میں شامل کیا جا رہا ہے۔
القادر یونیورسٹی کا نام کئی حوالوں سے زیادہ سنا گیا مگر اس حوالے سے خبر کم ملی کہ انہوں نے عملی طور پر کیا کیا۔ یہاں معلوم ہوا کہ منہاج یونیورسٹی نے صرف طلبہ کے لیے نہیں بلکہ ملک بھر کے گدی نشین خاندانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں یعنی مستقبل کے روحانی پیشواؤں کے لیے ایک تربیتی پروگرام بھی تشکیل دیا ہے۔ یہ پروگرام محض وظائف یا روایتی درس تک محدود نہیں بلکہ اس میں اخلاقیات، انسان دوستی، باطنی اصلاح اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق سماجی کردار پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
یہ بات بھی خاصی اہم ہے کہ اس شعبے میں داخلے کے لیے صرف مسلمان ہونا لازمی نہیں رکھا گیا۔ کوئی بھی شخص جو روحانی تربیت چاہتا ہو اس پروگرام میں شامل ہو سکتا ہے اور اسے اس کے اپنے مذہب اور عقائد کے مطابق نفس کی تربیت اور روحانی رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔ یہ خیال بظاہر عجیب لگتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ روحانیت کی بنیاد انسان کی اندرونی اصلاح ہے نہ کہ کسی ایک مذہبی شناخت کی شرط ہے۔
پاکستان اس وقت ایسے کئی بحرانوں سے گزر رہا ہے جنہوں نے معاشرے کی مجموعی ذہنی فضا کو بے سکونی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک میں 80 لاکھ افراد بے روزگار ہیں۔ یہ تعداد صرف معاشی زوال کا اشارہ نہیں بلکہ سماجی اضطراب کی بھی نشانی ہے۔ روزگار کے غیر یقینی حالات انسان کو اندر سے کمزور کرتے ہیں۔ کمزور دل و دماغ غصے، چڑچڑے پن اور بے ربط فیصلوں کی طرف جھک جاتے ہیں۔ جب معاشی مسائل بڑھتے ہیں تو گھریلو ماحول بھی متاثر ہوتا ہے۔ ہر سطح پر کشیدگی بڑھ جاتی ہے۔ ایسا ماحول فرد کے ذہن کو تھکا دیتا ہے۔ اب ایسے حالات میں صرف معاشی پالیسیوں کی اصلاح کافی نہیں ہوتی بلکہ ذہن اور کردار کی تعمیر بھی ضروری ہو جاتی ہے۔ یہیں سے روحانی تربیت، تصوف اور اخلاقی رہنمائی کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔
ہمارا نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرتا ہے مگر وہ ایسی سمتوں میں دھکیلا جاتا ہے جہاں اسے اندرونی سکون نہیں ملتا۔ اس کے سامنے مقابلے کی ایسی فضا ہوتی ہے جس میں کامیابی کے پیمانے بھی بدل گئے ہیں۔ نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ کئی سی ایس پی افسران خودکشیاں کر چکے ہیں۔ اس ماحول میں اگر کسی ادارے میں ایسا نصاب ہو جو انسان کو اس کی اصل کی طرف لوٹائے اور اسے اپنی ذات کے اندر جھانکنے کی دعوت دے تو یہ کسی احسان سے کم نہیں۔ تزکیہ نفس کا بنیادی تصور یہی ہے کہ انسان اپنی سوچ اور عمل کو اس طرح تراشے کہ اس کے اندر خیر کا غلبہ ہو۔ یہ خیال آج زیادہ ضروری ہے کیونکہ ہمارے نوجوان کے سامنے فکری انتشار بڑھ رہا ہے۔ معلومات کا شور بہت ہے مگر اس شور میں ذہنی سکون کم ہے۔
درسگاہیں اگر صرف ڈگریاں دینے کے مراکز رہ جائیں تو وہ اپنی اصل ذمہ داری سے محروم ہو جائیں گی۔ تعلیم کا مقصد انسان کو وسیع وژن دینا ہے۔ آج کی دنیا میں مہارتیں ضروری ہیں مگر صرف مہارت سے معاشرہ بہتر نہیں بنتا۔ کردار کی مضبوطی اصل ستون ہے۔ اگر کوئی یونیورسٹی اپنے طلبہ کو روحانی اور اخلاقی تربیت بھی فراہم کرے تو یہ نہ صرف ایک مثبت قدم ہے بلکہ وقت کی ضرورت بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منہاج یونیورسٹی جیسے ادارے اس سمت میں آگے بڑھ کر ایک نئی مثال قائم کر رہے ہیں۔ ان کا یہ خیال کہ روحانی تربیت کسی مذہب کے خلاف نہیں بلکہ ہر مذہب کے اندر ایک مشترکہ انسانی قدر ہے اس سوچ کو مزید قیمتی بناتا ہے۔
پاکستان کی جامعات کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ محض کتابوں اور نمبروں تک محدود تعلیم نوجوانوں کو بہتر انسان نہیں بناتی۔ ضروری ہے کہ ہم اپنے تعلیمی ڈھانچے میں ایسی جگہ پیدا کریں جہاں طلبہ اپنی شخصیت کو بھی بہتر بنا سکیں۔ دنیاوی ڈگریاں بلاشبہ ضروری ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ اگر انسان کے اندر برداشت، حسن اخلاق، بردباری اور سکون کے عناصر پیدا نہ ہوں تو معاشرہ تلخیوں میں گھرا رہتا ہے۔ نوجوان اگر ذہنی طور پر مضبوط ہوں گے تو وہ خود بھی کامیاب ہوں گے اور ملک کو بھی استحکام دیں گے۔ اس کے لیے ایسے کورسز کا فروغ ناگزیر ہے جن میں روحانیت اور اخلاقیات کو علم کے ساتھ جوڑا جائے۔ یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ پاکستان میں کچھ ادارے اس سمت میں قدم بڑھا چکے ہیں۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ باقی جامعات بھی اسی طرح کے پروگرام شروع کریں۔ یہ کورسز بھاری بھرکم کتابوں سے زیادہ زندگی کے عملی تجربات سے جڑے ہوتے ہیں اور انسان کو اندر سے بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی تبدیلی کسی معاشرے کو پُرامن بھی کرتی ہے اور ترقی کا قابل بھروسہ راستہ بھی دکھاتی ہے۔ اگر ہمارے تعلیمی ادارے اس پہلو پر توجہ دیں تو آنے والے برسوں میں ایسا نوجوان تیار کیا جا سکتا ہے جو نہ صرف پیشہ ورانہ طور پر کامیاب ہو بلکہ اخلاقی طور پر بھی مضبوط اور متوازن ہو۔ یہی وہ سفر ہے جو آج کے پاکستان کو سب سے زیادہ درکار ہے۔

