سرکار کے پراپرٹی فراڈ کا شکار غریب عوام
اب تک سنتے آئے تھے کہ پراپرٹی میں بہت فراڈ ہوتا ہے۔ طاقتور مافیا غریب شہریوں کو لوٹ لیتا ہے، کہیں کاغذات میں دو نمبری ہو جاتی ہے، کہیں رقم دینے کے باوجود زمین کا قبضہ نہیں ملتا۔ ماضی میں تو پورا ریکارڈ ہی جلا دیا جاتا تھا، ریکارڈ جلنے کے بعد پرانی تاریخوں میں جو "ریکارڈ" بنایا جاتا تھا اس کے نتیجے میں قبضہ مافیا، رسہ گیر اور بدمعاش سفید کاٹن کا سوٹ اور واسکٹ پہنے معزز بنتے چلے گئے، کئی ایک تو اسی پیسے سے حج تک کر آئے۔ غریب اور بے بس پاکستانیوں کی آہوں اور سسکیوں پر کئی ایسے ہی "معززین" کے محلات کی بنیادیں رکھی گئیں۔ اسی طرح ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے نام پر بھی بہت فراڈ ہوا۔ زیادہ تر ہاؤسنگ سوسائٹیاں آباد ہوئیں لیکن جہاں فراڈ مافیا پہنچ گیا وہاں سیکڑوں شرفا کی عمر بھر کی کمائی لٹ گئی اور وہ عدالتوں کے دھکے کھاتے نظر آئے۔
یہ کہانی نجی کمپنیوں کی ہے لیکن اگر ریاست خود اپنے ہی شہریوں کے ساتھ پراپرٹی کے نام پر فراڈ کر جائے تو عوام کس کا در کھٹکھٹائے؟ ایسی ہی ایک داستان سامنے آئی تو دل کانپ اٹھا، ہماری اپنی حکومت اور اپنے اداروں نے جس طرح غریب شہریوں کو "چونا" لگایا وہ حیران کن ہے۔ یہ کہانی بہاولنگر کی ہے۔ یہاں سرکار لگ بھگ دو دہائیوں سے شہریوں سے زمین کے نام پر فراڈ کیے بیٹھی ہے۔ اپنے کاروبار کا خواب دیکھنے والے 18 سال سے حکومت اور محکمہ زراعت کا منہ دیکھ رہے ہیں جو سرکاری سطح پر دکانوں کے نام پر شہریوں کی جمع پونجی لے کر ہڑپ کر چکا ہے۔
2006 میں محکمہ زراعت کی جانب سے بہاولنگر میں نیو مدرسہ غلہ منڈی کے نام سے ایک پراجیکٹ شروع کیا گیا جس کی باقاعدہ حکومتی منظوری ہوئی۔ سرکاری مارکیٹ کمیٹی نے یہاں غلہ منڈی بنانے کا اعلان کیا اور لگ بھگ سو سے زیادہ افراد نے نیو مدرسہ غلہ منڈی میں دکان کے لیے سرکار سے جگہ خرید لی۔ بدقسمتی سے یہ غلہ منڈی آج تک نہیں بن سکی۔ متاثرین آج بھی اس امید پر جی رہے ہیں کہ شاید حکومت انہیں اپنی ہی منظور شدہ غلہ منڈی بنا کر دے گی اور وہ وہاں کاروبار کرکے اپنے خاندان کی کفالت کر سکیں گے۔ جوان آنکھیں اپنے روزگار کا خواب دیکھتے دیکھتے بوڑھی ہو چکی ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ مارکیٹ کمیٹی نے لوگوں سے پیسے لے کر مبینہ غلہ منڈی میں دکان نمبر تک الاٹ کر دیئے لیکن غلہ منڈی نہ بنائی۔
ان اٹھارہ برس میں صورت حال نے ایسا پلٹا کھایا کہ جس شخص سے سرکاری مارکیٹ کمیٹی بہاولنگر نے غلہ منڈی کی جگہ خریدی تھی وہ وفات پا گیا۔ اب اس کے ورثا نے دعویٰ کر دیا کہ یہ زمین ان کے والد نے حکومت کو بیچی ہی نہیں تھی۔ یعنی وہ زمین جو حکومت غلہ منڈی کے نام پر نہ صرف عوام کو بیچ کر دکان نمبر تک الاٹ کر چکی تھی اس پر دعویٰ آ گیا کہ یہ تو حکومت کی ملکیت ہی نہیں ہے۔ سول کورٹ میں یہ کیس مارکیٹ کمیٹی جیت گئی جبکہ سیشن کورٹ میں ہار گئی۔ کیس ہائی کورٹ تک پہنچ گیا۔
مارکیٹ کمیٹی اور محکمہ زراعت کی نااہلی کا اندازہ لگائیں کہ اس کیس میں ان سو سے زائد افراد کو فریق ہی نہیں بنایا گیا جنہیں کاغذات میں اس زمین پر دکانیں بیچی ہوئی ہیں۔ چند سال قبل جب یہاں"غائبانہ" دکان خریدنے والے بعض افراد نے شور مچایا کہ مارکیٹ کمیٹی دکانیں بیچنے کے باوجود غلہ منڈی نہیں بنا رہی تو مارکیٹ کمیٹی کا انتہائی پھسپھسا سا موقف سامنے آیا کہ ہم نے دکانوں کی جگہ بیچ دی ہے اب لوگوں کو چاہیے وہ دکانیں بنا کر کام شروع کریں۔
سوال یہ ہے کہ اس زمین کے ٹکڑے پر کس جگہ کس کی دکان ہوگی اس کی نشاندہی کس نے کرنی ہے؟ غلہ منڈی میں بجلی و پانی کی سپلائی کس نے دینی ہے؟ غلہ منڈی میں مسجد اور بنک کا انتظام کس کے ذمہ ہوتا ہے؟ سیوریج کا نظام کون بناتا ہے؟ سکیورٹی کا بندوبست کون کرتا ہے اور سب سے اہم یہ ہے کہ وہاں داخلی راستے پر موجود نالے پر سے ہیوی ٹریفک کے گزرنے کے لیے ایک پل بننا ہے جو اٹھارہ سال میں ایک بار بھی نہیں بنایا گیا۔ یہ کیسی ریاست ہے جو شہریوں کو کہہ رہی ہے کہ مٹی کے اس ڈھیر پر دکان بنا کر خود ہی سرکاری غلہ منڈی بنا کر چلا لو؟
پاک فوج کی جانب سے ایگری کلچر ریفارمز پر کام ہو رہا ہے، گرین پاکستان کے تحت کاشت کاروں کو زرعی زمینیں لیز پر دی جا رہی ہیں، ملک میں زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے پاک فوج شاندار کام کر رہی ہے، دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی ایگریکلچر ریفارمز پر کام شروع کر دیا ہے جبکہ انہی کی ناک کے نیچے 18 سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود بہاولنگر مارکیٹ کمیٹی اور محکمہ زراعت ایک غلہ منڈی ہی آپریشنل نہیں کر سکا، سیکڑوں شہری جنہوں نے سرکار پر اعتماد کرکے اپنی جمع پونجی لگائی وہ سرکاری فراڈ کا شکار ہو کر دو دہائیوں سے دہائی دے رہے ہیں۔
کاشت کاروں کو یا تو 20 کلومیٹر دور جا کر اپنی اجناس بیچنا پڑ رہی ہیں یا پھر دکانوں میں ہونے والے مافیا کے کاروبار کا حصہ بننا پڑ رہا ہے۔ کیا ریاست کی رٹ اور سیکرٹری ایگریکلچر کے احکامات مقامی سطح کے مافیا کے سامنے مٹی کا ڈھیر ہو چکے ہیں۔ اس علاقہ میں سیاست دان اور مقامی مافیا اس غلہ منڈی کے راستے میں رکاوٹ رہا ہے کیونکہ اس سے ان کا نجی دکانوں میں سجنے والا دھندہ متاثر ہوتا ہے۔ کیا مارکیٹ کمیٹی بھی انہی کی سہولت کار بن چکی ہے؟
ایک طرف مسلم لیگ ن کی حکومت پراپرٹی ریکارڈ ڈیجیٹلائز کرنے کا کریڈٹ لیتی ہے اور دوسری جانب غریب شہری اپنے ساتھ پراپرٹی کے نام پر ہونے والے فراڈ پر انصاف کے لیے 18 سال سے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اگر ذاتی دلچسپی لے کر اس صورت حال کو دیکھیں تو شاید ان سیکڑوں شہریوں کو ان کا حق مل جائے جن سے زمین کے نام پر حکومت نے ہی فراڈ کر لیا۔ اعلیٰ عدلیہ کا ایک سوموٹو ایکشن 18 سال سے انصاف کے منتظر ان مظلوموں کو ان کا حق دلا سکتا ہے۔ یہ ساری کہانی مارکیٹ کمیٹی بہاولنگر کی نااہلی اور لاپروائی کی ہے۔
سیکرٹری ایگریکلچر کو اگر اپنے ہی محکمہ کی اس قبضہ گیری اور لاپروائی کا علم نہیں تو اس پر بھی سوال اٹھتا ہے۔ ان کے ایک فیصلہ سے سو سے زیادہ خاندانوں کا جائز روزگار جڑا ہے۔ انہیں ان کا حق مل گیا تو یہ سرکاری ریونیو میں اضافے کے ساتھ ساتھ کاشت کاروں کی سہولت کا باعث بھی بنے گا۔ یاد رہے کفر کی حکومت تو چل جاتی ہے لیکن ظلم کہ حکومت نہیں چل پاتی۔ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے لیکن اگر ماں ناگن ہو تو اپنے ہی بچے کھا جاتی ہے، بہاولنگر نیو مدرسہ غلہ منڈی میں 18 سال قبل دکان خریدنے والوں کے لیے ریاست ہی ناگن بنی ہوئی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب ماضی کے اس ظلم کا خاتمہ کر سکتی ہیں۔