رینکرز کا دکھ ترقی کر گیا

"پولیس کا مورال پہلے سے کہیں زیادہ بلند ہے" یہ وہ جملہ ہے جو ہم مسلسل سن رہے ہیں۔ سینئر پولیس افسران سے لے کر جونیئر رینک تک کے ملازمین یہ بات اتنے تواتر سے کہتے ہیں کہ گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید یہ مورال اوج ثریا سے بھی آگے جا چکا ہوگا۔ یہ تو اب معلوم ہوا کہ ماتحت عملہ ہی نہیں بلکہ پی ایس پی افسران بھی اپنا مورال کھو رہے ہیں۔ پاکستان جن حالات سے دو چار ہے اس میں پولیس کا مورال حقیقی معنوں میں بلند ہونا بہت ضروری ہے لیکن یہاں ترقیوں اور ٹرانسفر پوسٹنگ کے معاملات زلف یار سے بھی زیادہ الجھ چکے ہیں۔
حالیہ واقعات کے بعد رینکرز کا کہنا ہے کہ اس بار صیاد خود اپنے ہی دام میں آ رہا ہے۔ کبھی پروموشن کے مسائل رینکرز تک محدود تھے اور وہ ہر پانچ سال بعد کنفرم ترقی پانے والے پی ایس پیز کو حسد کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اب سنا ہے بعض پی ایس پی بھی کچھ رینکرز کو ایسی ہی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ محکمہ پولیس میں ایسے کانسٹیبلز موجود ہیں جنہوں نے ایک ہی رینک پر 20 سال سے زیادہ عرصہ گزار دیا لیکن افسران کے ڈر سے "مورال بلند ہے " کا نعرہ لگاتے رہے۔
پولیس کا مخصوص "چھتر" گواہ ہے کہ ایسے اہلکار ترقی سے مایوس ہونے کی وجہ سے میجر سزائوں اور ترقی رکنے جیسے خوف سے بھی آزاد ہو گئے اور پھر انہوں نے محکمانہ ترقی کی بجائے "مالی" ترقی پر توجہ دیتے ہوئے محکمہ اور عوام دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک دیا۔ میں اس "چھتر کرپشن" کا ذمہ دار ان افسران کو بھی سمجھتا ہوں جنہوں نے رینکرز کو ناری مخلوخ سمجھتے ہوئے ترقی سے محروم رکھا۔
موجودہ آئی جی پنجاب نے پروموشنز پر کام کیا تو ان کی کافی تعریف ہوئی اور بلاشبہ انہوں نے ماتحت فورس کو جتنی ترقیاں دلوائیں اس کی مثال نہیں ملتی لیکن اب ان ترقیوں پر بھی پسند ناپسند کے الزامات لگنے شروع ہو گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں ڈی ایس پیز کی پروموشن ہوئی تو ترقی نہ پانے والے ایک ڈی ایس پی نے استعفی دے دیا۔ سروس کے آخری عرصہ میں اپنی پینشن، واجبات اور دیگر مراعات کو ٹھکرا کر ملازمت سے الگ ہونا انتہائی سطح کا فیصلہ ہے جو بتاتا ہے کہ ماتحت فورس کتنی مایوس ہو چکی ہے۔ چند ہفتے قبل ایک ڈی آئی جی سے پروموشنز کے بارے میں بات ہو رہی تھی تو پتا لگا رینکرز کا یہ "دکھ" اب ترقی
کرکے پی ایس پی کلاس تک پہنچ چکا ہے۔ کہنے لگے پچھلے سال ہمارا پروموشن بورڈ ہی نہیں ہوا، اس سال امید ہے ترقی ملے گی لیکن اس سال جن افسران کو ترقی ملی اس میں ان کا نام شامل نہیں تھا۔ ترقی نہ پانے والے ایک پی ایس پی آفیسر عمران کشور نے بھی استعفی دے دیا اور ڈی آئی جی ایڈمن لاہور کے عہدے سے الگ ہو گئے۔ استعفیٰ کے بعد آئی جی پنجاب اور سی سی پی او لاہور انہیں منانے کی کوشش کرتے رہے لیکن ناکام ہوئے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ ان افسران نے استعفی دینے والے ڈی ایس پی کو بھی منایا تھا یا نہیں۔
عمران کشور کا "دکھ" ایک سال کا دکھ ہے۔ یہ دکھ کئی اور افسران بھی اپنے دل میں لیے بیٹھے ہیں۔ عمران کشور کی سروس کا آغاز سوات آپریشن سے ہوا تھا۔ انہیں وار اینڈ ٹیرر میں کام کرنے کا جو تجربہ حاصل ہے وہ ان کے دیگر ساتھیوں کے پاس نہیں ہے۔ ایسا آفیسر پولیس سروس کی ضرورت ہے۔ ان کے تحفظات دور کرکے انہیں واپس سروس میں لانا چاہیے۔ مجھے امید ہے واپس آ کر وہ اپنے ماتحت عملہ کا یہ "دکھ" محسوس کرتے رہیں گے اور اس "دکھ " کا ازالہ کرتے رہیں گے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان میں ایک ان دیکھی جنگ چھڑ چکی ہے۔
بھارتی خفیہ ایجنسی را ہی نہیں افغانستان سے بھی دہشت گرد پاکستان کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔ ان حالات میں ایسے پولیس افسران کو کمانڈنگ پوسٹوں پر تعینات کرنا بہت ضروری ہے جو وار اینڈ ٹیرر کا تجربہ رکھتے ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوام دوست بھی ہوں۔ ایسے افسران جو کسی بھی غیر معمولی واقعہ میں عوام کو ہینڈل کرنا جانتے ہوں تاکہ انتشار اور فساد کو روکا جا سکے۔ گزشتہ برسوں میں شاید ٹک ٹاک سے کام چل جاتا ہو لیکن اس وقت وار اینڈ ٹیرر کا تجربہ رکھنے والے خوش مزاج فیلڈ آفیسرز کی فیلڈ پوسٹنگ اہم ضرورت ہے۔
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ پنجاب میں ایسے آفیسرز کو ہی کارنر کیا ہوا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب اگر آفیسرز کی پروفائل دیکھیں تو ایک اچھی ٹیم سامنے آ سکتی ہے۔ عمران کشور جیسے آفیسر کو واپس لانا چاہیے۔ اسی طرح ایڈیشنل آئی جی کے رینک پر ترقی پانے والوں میں شہزادہ سلطان کا نام بھی شامل ہے لیکن وہ پرانی سیٹ پر کام کر رہے ہیں۔ وہ ماضی میں ڈی جی نیکٹا رہے ہیں جبکہ علم و ادب سے بھی ان کا گہرا تعلق ہے۔
ہارڈ کرمینل کے ڈیٹا بیس پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر لوگوں کو غالب کا شعر سنا کر ان کے اعصاب کو کنٹرول کرنے کا فن جاننے والا یہ آفیسر موجودہ حالات میں اہمیت کا متقاضی ہے۔ عوامی سطح پر نرم مزاج اور محکمانہ سطح پر ڈسپلن مزاج ایک آفیسر مرزا فاران بیگ ٹریفک پولیس کے ایڈیشنل آئی جی ہیں۔ پنجاب بھر میں ٹریفک پولیس کا مزاج جس طرح وہ تبدیل کر رہے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ کام نہ کرنے پر سی ٹی اوز کے دفاتر کو تالے لگا کر انہیں فیلڈ میں بھیجنے سے لے کر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے پولیس ملازمین کو گرفتار کروانے تک وہ قانون پسند آفیسر ہیں تو دوسری طرف عوام میں گھل مل کر انہیں نرم مزاجی سے ہینڈل کرنا ان کی دوسری خوبی ہے۔
محکمانہ اصلاحات اور جدت ان کی تیسری خوبی ہے جو عام طور پر بیوروکریسی میں کم ہی نظر آتی ہے۔ ٹریفک پولیس کی کمانڈ ہونا اچھا ہے لیکن ایسے آفیسر کے پاس اس سے زیادہ اہم شعبے کی کمانڈ ہونی چاہیے۔ اسی طرح ڈی آئی جی عبد الغفار قیصرانی ماضی میں کالم بھی لکھا کرتے تھے پھر وہ بھی سی ٹی ڈی میں تعینات ہو گئے۔ مجھے معلوم نہیں کہ آج کل وہ کہاں ہیں، غالب امکان یہ ہے کہ پنجاب سے باہر تعینات ہیں لیکن ان کی پروفائل بھی ایسی ہی ہے۔ ایک طرف وہ کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کا تجربہ رکھتے ہیں دوسری جانب عوام میں گھل مل جانے والے نرم مزاج آفیسر کی سی شہرت رکھتے ہیں۔ انہیں لاہور جیسے اہم شہر میں ہونا چاہیے۔
ماضی میں لاہور پولیس میں بے پناہ کام کرنے اور شہریوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والے ایک آفیسر اب لاہور میں نہیں لیکن شکر ہے کہ انہیں کمانڈنگ پوسٹ پر تعینات کیا ہوا ہے۔ سی پی او گوجرانولہ رانا ایاز سلیم کی مسلسل کامیابیاں عوامی سطح پر ہی نہیں بلکہ وزیراعلیٰ کے اپنے انڈیکس پر بھی ٹاپ پوزیشنز پر نظر آتی ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام آفیسرز دہشت گردی اور ہارڈ کرمینلز کے خلاف کام کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ان سب کی پرفارمنس بھی ہمیشہ بہترین رہی ہے اور سب سے اہم یہ کہ انہیں ٹک ٹاک کی بجائے فیلڈ میں دیکھا جاتا ہے۔ وار اینڈ ٹیرر اور پبلک ڈیلنگ کا امتزاج رکھنے والے ایسے سنجیدہ مزاج آفیسرز کو فرنٹ فٹ پر رکھتے ہوئے وزیراعلی پنجاب بہترین ٹیم تشکیل دے سکتی ہیں۔