پاکستانی سیلاب، بھارت کی آڑ میں دشمنی کس نے کی؟

پاکستان ایک بار پھر مون سون کی بے رحم بارشوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کی لپیٹ میں ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی دریاؤں کے کناروں پر بستے ہزاروں گاؤں اجڑ گئے، لاکھوں لوگ اپنا سب کچھ چھوڑ کر عارضی پناہ گاہوں کی طرف نکل پڑے اور ہزاروں خاندانوں کی زندگیوں پر ایک نیا زخم ثبت ہوگیا۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کی تازہ رپورٹ کے مطابق اب تک ملک بھر میں سیلاب سے اموات کی تعداد 800 سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ صرف پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ڈیرھ لاکھ سے زیادہ افراد کو اپنے گھروں سے بیدخل ہو کر محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہونا پڑا۔
یہ کہانی محض قدرتی آفت کی نہیں بلکہ ایک ایسے نظام کی ہے جو دہائیوں سے اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے بجائے عوام پر بوجھ ڈال رہا ہے۔ مون سون کا موسم پاکستان کے لیے نیا نہیں۔ ہر سال جولائی اور اگست میں بارشیں ہوتی ہیں، دریاؤں میں طغیانی آتی ہے اور نشیبی علاقے ڈوب جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دہائیوں کے تجربے کے باوجود ہم آج بھی پیش بندی کیوں نہیں کر پاتے؟
پنجاب کے مشرقی اضلاع میں بھارتی ڈیموں سے پانی چھوڑنے کے بعد خطرہ اور بھی بڑھ گیا۔ حکومت نے 150,000 افراد کو بروقت محفوظ مقامات پر منتقل کیا لیکن اس کے باوجود ہزاروں خاندان بے یار و مددگار کھلے آسمان تلے شب و روز گزارنے پر مجبور ہیں۔ خیمے کم ہیں، صاف پانی اور خوراک کی فراہمی ناکافی ہے اور صحت کی سہولتیں تو جیسے غائب ہی ہیں۔
خیبر پختونخوا کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں۔ صوبائی حکومت کو سیلاب متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی کے لیے صرف چھ دن کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے لیکن ابھی تک متاثرین کی اکثریت امداد کی راہ تک رہی ہے۔ پنجاب میں 24,000 سے زیادہ خاندان نقل مکانی کر چکے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ یہ لوگ کہاں جائیں؟ سرکاری سکول اور عارضی کیمپ تو ایک دو دن کے لیے سہارا بن سکتے ہیں مگر طویل المدتی زندگی وہاں کیسے گزرے گی؟
یہ حقیقت ہے کہ سیلاب صرف گھروں کو نہیں ڈبوتا بلکہ مستقبل کو بھی بہا لے جاتا ہے۔ کھیت کھنڈرات میں بدل جاتے ہیں، مویشی مر جاتے ہیں، چھوٹی چھوٹی دکانیں ختم ہو جاتی ہیں۔ ایک کسان جب اپنی کھڑی فصل کو پانی میں غرق دیکھتا ہے تو وہ صرف ایک سیزن نہیں ہارتا بلکہ اپنی آئندہ نسلوں کی امیدیں بھی کھو دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں کے لوگ سیلاب کے بعد سب سے زیادہ غربت اور محرومی کا شکار ہوتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں سیلاب کو ہمیشہ وقتی بحران سمجھا جاتا ہے۔ حکومتیں بڑے بڑے دورے کرتی ہیں، ہیلی کاپٹروں سے فضائی جائزے لیے جاتے ہیں، امدادی اعلانات کیے جاتے ہیں لیکن جب پانی اترتا ہے تو متاثرین اپنے حال پر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ اگلے سال پھر یہی منظرنامہ دہرا دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟
ماحولیاتی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے ماہرین ایک عرصے سے چیخ چلا رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث بارشوں کے پیٹرن بدل رہے ہیں۔ کہیں کم بارش ہوتی ہے تو کہیں ریکارڈ توڑ بارش۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے نے گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار تیز کر دی ہے لہذا دریاؤں میں اچانک طغیانی آتی ہے لیکن ہمارے انفراسٹرکچر، ڈیمز اور حفاظتی پشتے اب بھی پرانے دور کے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹی سی بارش بھی بڑی تباہی لے آتی ہے۔
آج متاثرین کی حالت زار دیکھنے والا ہر شخص یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ہمارے حکمران کب اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں گے؟ ایک طرف لوگ چھت سے محروم ہیں تو دوسری طرف حکومت اور اپوزیشن سیاسی تنازعات میں الجھی ہوئی ہے۔ انجینئر محمد علی مرزا کی گرفتاری ہو یا کسی جماعت کے استعفے، یہ سب معاملات اہم ضرور ہیں لیکن ان کا تعلق عوام کی فوری زندگی اور موت کے مسائل سے نہیں۔ جب متاثرین کے پاس پینے کا پانی، دوائی اور خیمہ موجود نہیں تو انہیں سیاسی بیانات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اپنے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے نظام کو ازسرنو ترتیب دے۔ ہمیں مقامی حکومتوں کو فعال بنانا ہوگا تاکہ وہ بروقت امداد فراہم کر سکیں۔ بڑے ڈیمز کے ساتھ ساتھ چھوٹے آبی ذخائر کی تعمیر پر بھی توجہ دینا ہوگی تاکہ بارش کے پانی کو محفوظ کرکے آنے والے وقت میں استعمال کیا جا سکے۔ ہر ہاؤسنگ سوسائٹی کو پانی چوس کنویں بنانے کا پابند کرنا ہوگا، تعلیمی نصاب میں بھی سیلاب اور دیگر قدرتی آفات سے بچاؤ کی تربیت شامل کرنا ناگزیر ہے تاکہ آئندہ نسلیں باشعور ہو سکیں۔
سچ یہ ہے کہ سیلاب صرف قدرتی حادثہ نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی رویے کا بھی عکاس ہے۔ ہم جب تک وقتی بیانات اور اعلانات کے بجائے سنجیدہ منصوبہ بندی نہیں کریں گے تب تک ہر سال یہی منظرنامہ دہرایا جاتا رہے گا۔ عوام اپنا سب کچھ کھو کر پھر سے زندگی شروع کریں گے اور حکمران فوٹو سیشن کروا کر آگے بڑھ جائیں گے۔

