Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Syed Badar Saeed
  3. Pakistani Nojawan, Berozgari Ya 447 Arab Ki Deal

Pakistani Nojawan, Berozgari Ya 447 Arab Ki Deal

پاکستانی نوجوان، بیروزگاری یا 447 ارب کی ڈیل

دنیا کی رفتار بدل چکی ہے۔ وہ زمانہ گزر گیا جب کامیابی صرف زمین، سونا یا کارخانوں سے ناپی جاتی تھی۔ اب طاقت اور دولت کی نئی شکل ڈیٹا، معلومات اور مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی کمپنیاں ڈیٹا اور ڈیجیٹل نظاموں پر قابض ہیں جن میں گوگل، ایمیزون، مائیکروسافٹ اور اوپن اے آئی سرفہرست ہیں۔ اس بدلتی دنیا میں اب پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے بھی موقع ہے کہ وہ اس نئی دوڑ میں اپنی جگہ بنائے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستانی دماغ بھی عالمی سطح پر اپنا جھنڈا گاڑ رہے ہیں اور حالیہ دنوں میں اس کی ایک شاندار مثال دنیا کے سامنے آئی ہے۔

چند روز قبل ٹیکنالوجی کی دنیا میں اس غیر معمولی خبر نے سب کو حیران کر دیا۔ پاکستانی نژاد ٹیکنالوجی ماہر ریحان جلیل کی کمپنی Securiti AI کو امریکی سافٹ ویئر کمپنی Veeam Software نے 1.73 ارب امریکی ڈالر یعنی تقریباََ 477 ارب روپے میں خرید لیا۔ یہ کسی پاکستانی کی قیادت میں ہونے والی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کی ڈیل ہے۔ ریحان جلیل کا تعلق کراچی سے ہے اور انہوں نے این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے تعلیم حاصل کی۔ اب Veeam میں صدر برائے سکیورٹی و مصنوعی ذہانت کے عہدے پر فائز ہوں گے۔ ان کی کمپنی Securiti AI نے "ڈیٹا کمانڈ سینٹر" کے نام سے ایک جدید پلیٹ فارم تیار کیا جو عالمی اداروں کو اپنے ڈیٹا کی تلاش، حفاظت اور نظم و نسق میں مدد دیتا ہے۔

یہ کامیابی پاکستان کے نوجوانوں کے لیے امید کا پیغام ہے کہ اگر وژن، محنت اور ہنر ہو تو دنیا کے کسی کونے میں بھی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ مصنوعی ذہانت آج کی معیشت کا سب سے طاقتور ہتھیار بن چکی ہے۔ دنیا بھر میں اس صنعت کی مالیت 2024 میں تقریباََ 240 ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھی اور اندازہ ہے کہ 2030 تک یہ 500 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان چند برسوں میں لاکھوں نئی نوکریاں پیدا ہوں گی لیکن ان کے لیے مہارت درکار ہوگی، ڈگری نہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق 2030 تک 97 ملین نئی نوکریاں صرف مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے میدان میں پیدا ہوں گی۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کے نوجوان اس موقع سے کس حد تک فائدہ اٹھا پائیں گے؟

پاکستان میں 8 سے 9 فیصد آبادی روزگار سے محروم ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی 64 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر ہے یعنی دنیا کی سب سے بڑی نوجوان آبادیوں میں سے ایک ہم ہیں۔ اگر اس نوجوان طبقے کو مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل میڈیا اور ای کامرس کی تربیت فراہم کی جائے تو یہی بے روزگار طبقہ ملک کی معیشت کو نئی سمت دے سکتا ہے۔

نیشنل اے آئی پالیسی 2024 کے مطابق حکومتِ پاکستان نے آئندہ پانچ سالوں میں پچاس ہزار نوجوانوں کو مصنوعی ذہانت کی تربیت دینے کا ہدف رکھا ہے۔ اگر یہ ہدف حقیقی معنوں میں حاصل ہوگیا تو پاکستان خطے میں ڈیجیٹل ہنر رکھنے والے ممالک میں شامل ہو سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا کرے گی بلکہ زراعت، صحت، تعلیم اور انتظامیہ جیسے شعبوں میں کارکردگی کو کئی گنا بہتر بنا سکتی ہے۔

اسی طرح ڈیجیٹل میڈیا بھی صرف اظہارِ خیال کا ذریعہ نہیں رہا بلکہ یہ ایک بڑی معیشت بن چکا ہے۔ پاکستان میں یوٹیوب، فیس بک اور انسٹاگرام سے لاکھوں نوجوان اپنا روزگار کما رہے ہیں۔ یوٹیوب کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی کانٹنٹ کریئیٹرز نے ایک سال میں تقریباََ ایک ارب ڈالر کی آمدن حاصل کی۔ یہ وہ آمدن ہے جو پہلے ممکن ہی نہیں تھی۔ اب ایک عام نوجوان صرف ایک موبائل فون، انٹرنیٹ کنکشن اور تھوڑے سے علم کے ساتھ اپنا ڈیجیٹل کاروبار شروع کر سکتا ہے۔ اگر حکومت انٹرنیٹ پالیسیوں کو بہتر بنائے اور ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام کو مستحکم کرے تو یہ آمدن کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔

اسی طرح ای کامرس بھی پاکستان کے لیے امید کی کرن ہے۔ اس وقت دنیا میں ای کامرس مارکیٹ کی کل مالیت 6.3 ٹریلین ڈالر ہے جبکہ پاکستان کا حصہ محض 8 ارب ڈالر کے قریب ہے مگر خوش آئند پہلو یہ ہے کہ یہ شعبہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ پاکستان میں تقریباََ 40 ہزار آن لائن سٹورز فعال ہیں۔ دراز، میگا مارٹ اور مقامی ویب شاپس پر لاکھوں صارفین خریداری کر رہے ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق اگر پاکستان میں ای کامرس، فری لانسنگ اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ کو فروغ دیا جائے تو پانچ سال میں بیس لاکھ سے زائد نئی نوکریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

ریحان جلیل کی کامیابی دراصل اس سوچ کی جیت ہے جو "نوکری تلاش کرنے" کے بجائے "مواقع تخلیق کرنے" پر یقین رکھتی ہے۔ انہوں نے ایک ایسے وقت میں ڈیٹا پرائیویسی اور سکیورٹی کے کاروبار کا آغاز کیا جب دنیا اس میدان کو ابھی سمجھنا شروع کر رہی تھی۔ آج جب ان کی کمپنی اربوں ڈالر میں خریدی گئی ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ علم، وژن اور تخلیقی سوچ کسی بھی ملک کی سب سے بڑی دولت ہے۔ اگر ہمارے نوجوان بھی اسی سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں تو پاکستان صرف صارف نہیں بلکہ جدت پیدا کرنے والا ملک بن سکتا ہے۔

پاکستان کو اب اپنی تعلیمی پالیسی کو نئی سمت دینا ہوگی۔ ہمارے سکولوں اور کالجز میں ابھی تک انگریزی گرامر، ریاضی اور تاریخ پر زور دیا جاتا ہے لیکن ڈیجیٹل لٹریسی، پروگرامنگ اور مصنوعی ذہانت پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ وقت آگیا ہے کہ ہر طالب علم کو بنیادی ڈیجیٹل مہارت سکھائی جائے۔ اسی طرح حکومت کو اسٹارٹ آپ انکیوبیشن سینٹرز بڑھانے چاہئیں جہاں نوجوانوں کے آئیڈیاز کو کاروباری منصوبوں میں بدلا جا سکے۔ میڈیا کو بھی اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ نوجوانوں کو معلوم ہو کہ جدید دور میں سوشل میڈیا صرف تفریح نہیں بلکہ ایک مکمل معیشت ہے۔

ریحان جلیل کی کہانی دراصل ایک راستہ دکھاتی ہے کہ اگر ایک نوجوان کراچی سے نکل کر اپنی محنت اور علم سے دنیا کی سب سے بڑی ٹیک کمپنیوں کے برابر پہنچ سکتا ہے تو پاکستان کے لاکھوں نوجوان کیوں نہیں؟ ہمیں بس اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ یقین پیدا کرنا ہوگا کہ ہم ڈیجیٹل دور کے پیچھے نہیں بلکہ اس کے رہنما بن سکتے ہیں۔

سچ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت ڈیجیٹل میڈیا اور ای کامرس محض ٹیکنالوجی کے شعبے نہیں بلکہ غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کا حقیقی راستہ ہیں۔ اگر ہم نے آج اس سمت میں سرمایہ کاری کر لی تو کل پاکستان نہ صرف کامیاب ڈیجیٹل قوم کہلائے گا بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں فخر سے کھڑا ہوگا۔ ریحان جلیل کی کامیابی اس خواب کی عملی تعبیر ہے۔ ایک ایسا خواب جو اب نہ صرف لاکھوں پاکستانی نوجوان بھی دیکھ سکتے ہیں بلکہ اسے پورا کر سکتے ہیں۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari