انفارمیشن اوورلوڈ، اہم مسئلہ

ایک وقت تھا کہ علم کو ذہنی سکون اور قلبی روشنی کہا جاتا تھا لیکن آج یہی علم بوجھ اور دباؤ بنتا جا رہا ہے۔ ایک عام شخص صبح آنکھ کھلتے ہی موبائل فون اٹھاتا ہے اور اسکرین پر خبریں، سوشل میڈیا پوسٹس، اشتہارات، ویڈیوز اور میسجز کی یلغار اس پر حملہ آور ہو جاتی ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جسے ماہرین "انفارمیشن اوورلوڈ" کہتے ہیں۔ یہ انسانی دماغ کے لیے ایک نیا چیلنج ہے کہ اتنی زیادہ معلومات کے شور میں اصل حقیقت کھو جاتی ہے اور ذہن فیصلہ سازی کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔ ہم سب اب اسی "انفارمیشن اوور لوڈ" کا شکار ہو چکے ہیں۔
انفارمیشن اوورلوڈ کا مطلب ہے کہ انسان اتنی زیادہ معلومات ایک ساتھ حاصل کرے کہ اس کا دماغ ان سب کو پروسیس نہ کر پائے۔ اس کیفیت میں مبتلا شخص نہ صرف الجھن کا شکار ہوتا ہے بلکہ سچ اور جھوٹ، ضروری اور غیر ضروری میں فرق کرنے کی صلاحیت بھی کھو دیتا ہے۔ یہ مسئلہ خاص طور پر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں شدت اختیار کر چکا ہے۔ جس وقت ہمیں ایک خبر پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے عین اسی لمحے دس اور نوٹیفکیشن دماغ پر دستک دینے لگتے ہیں۔ یوں انسان ذہنی سکون کی بجائے مزید اضطراب میں مبتلا ہونے لگتا ہے۔
ماہرین کے مطابق آج کا انسان ایک دن میں اتنی معلومات دیکھتا اور سنتا ہے جتنی پانچ سو سال پہلے کا انسان پوری زندگی میں بھی نہیں دیکھتا تھا۔ "یونیورسٹی آف کیلیفورنیا" کی ایک تحقیق کے مطابق ایک شخص روزانہ اوسطاً 34 گیگا بائٹس معلومات اپنے دماغ میں ڈالتا ہے۔ یہ حجم تقریباً ڈیڑھ لاکھ کتابوں کے برابر ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا انسانی دماغ اس بوجھ کو سنبھالنے کے قابل ہے؟ جواب واضح ہے: نہیں۔ نیوروسائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ کی یادداشت اور توجہ کی گنجائش محدود ہے۔ جب یہ گنجائش بھر جاتی ہے تو نئی معلومات یا تو ضائع ہو جاتی ہے یا پھر ذہنی دباؤ کا سبب بنتی ہے۔
انفارمیشن اوورلوڈ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان مسلسل ذہنی دباؤ کا شکار رہتا ہے۔ بار بار خبر سننا، بار بار سوشل میڈیا اسکرول کرنا اور ہر نئی آپ ڈیٹ کو دیکھنا "فیصلہ کرنے کی صلاحیت" کو مفلوج کر دیتا ہے۔ اسی کو ماہرین "Decision Fatigue" کہتے ہیں۔ اس کیفیت میں مبتلا شخص ایک وقت کے بعد معمولی فیصلے کرنے میں بھی وقت ضائع کرتا ہے اور اکثر مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ دفتر کے کام ہوں یا ذاتی زندگی کے فیصلے، ہر جگہ الجھن اور غیر یقینی پن بڑھ جاتا ہے۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں خبروں کی رفتار بہت تیز ہے، انفارمیشن اوورلوڈ ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ ہر نیوز چینل ایک ہی خبر کو درجنوں بار "بریکنگ" کے انداز میں پیش کرتا ہے۔ بعض اوقات ایک ہی واقعے پر مختلف چینلز مختلف زاویے سے رپورٹنگ کرتے ہیں جس سے قاری یا ناظر مزید الجھن کا شکار ہو جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر تو صورتحال اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ ایک ہی خبر پر سینکڑوں آراء سامنے آتی ہیں، ہر کوئی اپنا ویژن "حقیقت" کے طور پر پیش کرتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عام شخص سمجھ ہی نہیں پاتا کہ کس پر یقین کرے اور کس کو نظر انداز کرے۔
نوجوان نسل پر اس کے اثرات سب سے زیادہ نظر آتے ہیں۔ وہ ہر وقت نئی ٹرینڈز، نیوز آپ ڈیٹس، ویڈیوز اور پوسٹس کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ امتحان کی تیاری ہو یا نوکری کی تلاش، ضرورت سے زیادہ معلومات ان کی یکسوئی ختم کر دیتی ہے۔ ایک نوجوان اگر یوٹیوب پر امتحان کی تیاری کی ویڈیوز دیکھنے بیٹھے تو اس کے سامنے بیسیوں لنکس آ جاتے ہیں، ہر استاد اپنی کتاب اور طریقہ سب سے بہتر قرار دیتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طالب علم پڑھائی سے زیادہ کنفیوڑن کا شکار ہو جاتا ہے۔ بعض نوجوان ہر وقت "اپڈیٹڈ" رہنے کے جنون میں اصل زندگی کے مواقع کھو بیٹھتے ہیں۔
یہ مسئلہ صرف فرد تک محدود نہیں بلکہ خاندانی اور سماجی سطح پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ والدین اور بچے ایک دوسرے سے بات کرنے کے بجائے معلومات کے سمندر میں ڈوبے رہتے ہیں۔ ایک ہی گھر میں بیٹھے افراد آپس میں گفتگو کم کرتے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر دوستوں اور گروپس میں گھنٹوں وقت ضائع کرتے ہیں۔ سچ کہیں تو ہمارے رشتے کمزور ہو رہے ہیں کیونکہ بات چیت اور تعلقات کی جگہ اب "فارورڈ کیے گئے میسجز" نے لے لی ہے۔ خاندان کے کھانے کے اوقات میں بھی اکثر افراد موبائل فون میں مگن رہتے ہیں اور حقیقی تعلقات پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔
"انفارمیشن اوورلوڈ" سے بچنے کے لیے کچھ عملی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے آپ کو اپنی "ڈیجیٹل عادات" کا جائزہ لینا ہوگا۔ خبریں اور سوشل میڈیا چیک کرنے کے لیے مخصوص وقت مقرر کریں۔ غیرضروری ایپس اور گروپس کو بلاک یا میوٹ کریں۔ "ڈیجیٹل مائنڈ فلنیس" کی عادت اپنائیں، یعنی صرف وہی معلومات لیں جو آپ کے لیے اہم ہوں۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو انفارمیشن فلٹر کرنے کا شعور دیں تاکہ وہ بے کار مواد میں وقت ضائع نہ کریں۔ میڈیا کو بھی اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے کہ ہر خبر کو "بریکنگ" نہ بنائیں بلکہ صرف مستند اور اہم معلومات فراہم کریں۔
انفارمیشن اوورلوڈ آج کے دور کا سب سے بڑا نفسیاتی دباؤ ہے۔ انسان علم کا بھوکا ہے مگر یہ بھوک اب ایک بوجھ بن چکی ہے۔ اگر ہم نے معلومات کو فلٹر کرنا اور اپنی ترجیحات طے کرنا نہ سیکھا تو یہ بوجھ ہماری سوچ، ذہانت اور تعلقات سب کچھ دبا دے گا۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ زیادہ معلومات ہمیشہ زیادہ علم نہیں ہوتیں۔ اصل علم وہی ہے جو ذہن کو سکون دے اور زندگی کو سنوارے۔

