ہاتھوں کی گرہ دانتوں سے نہیں کھل رہی

وقت کو کبھی ہنسی میں نہ اڑائیں، یہ پلٹتا ہے تو لمحہ لمحہ کا حساب مانگتا ہے۔ سیاست بھی کچھ ایسی ہی ظالم محبوبہ ہے جو کبھی گلاب جامن کی طرح میٹھی لگتی ہے اور کبھی وہی شیرینی حلق میں اٹک کر سانس روک دیتی ہے۔ آج جو جشن مناتے ہیں، کل انہی کی دیگیں الٹ جاتی ہیں۔
تاریخ کسی ہوٹل کی ویٹر نہیں بلکہ ایک حساس خانساماں ہے جو ہر واقعے کو محفوظ رکھتی ہے اور وقت آنے پر وہی پرانا کھانا گرم کرکے پلیٹ میں رکھ دیتی ہے، بدذائقہ، بدبو دار اور عبرت آموز۔ سیاست میں سب سے خطرناک شے فتح کا غرور ہے اور سب سے کمزور دلیل سیاسی قانون سازی۔ جو قانون مخالفین کو گرانے کے لیے بنایا جاتا ہے، وہ اکثر اپنے ہی بانیوں کے گلے کا پھندا بن جاتا ہے۔ یہ پاکستانی سیاست کا پرانا کھیل ہے: سانپ سیڑھی، مگر سیڑھیاں چھوٹی اور سانپ لمبے۔
انسداد دہشت گردی عدالت نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث تحریک انصاف کے سرکردہ رہنماؤں کو دہشت گردی، بغاوت اور ریاستی اداروں پر حملے کے الزامات میں دس دس سال قید کی سزا سنا دی۔ یہ فیصلے محض عدالتی کارروائیاں نہیں بلکہ تاریخ کے صفحات پر لکھی وہ داستانیں ہیں جو مورخ سنایا کرے گا۔ یاد آتا ہے، 2018 میں جب نواز شریف اور مریم نواز کو ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا سنائی گئی، تو تحریک انصاف کے کیمپ میں خوشی کی لڈیاں ڈال کر مٹھائیاں بانٹی گئیں۔ وہ بھی ایسا وقت تھا جب انصاف کو "سیاسی کامیابی" کا نام دے کر کیمروں کے سامنے پیش کیا گیا۔
آج وہی کیمرے خاموش ہیں اور منظر بدل چکا ہے۔ کل کے قیدی آج کے حکمران بن گئے اور کل کے حکمران آج کی جیلوں میں۔ اصل تماشا تب ہوا جب ن لیگ کو دیوار سے لگانے کے لیے بنایا گیا قانون خود تحریک انصاف کے گلے میں فٹ ہوگیا۔ نومبر 2021 میں تحریک انصاف کی حکومت نے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کی جس کے تحت کوئی بھی منتخب رکن اگر 60 دن کے اندر حلف نہ لے تو اس کی نشست ختم ہو جائے گی۔ اس ترمیم کو اس وقت "انتخابی شفافیت" کہا گیا مگر حقیقت میں یہ ن لیگ کے ان رہنماؤں کو نشانہ بنانے کا ہتھیار تھا جو عدالتوں میں پیش نہیں ہو سکتے تھے۔
اب وہی قانون مراد سعید کی گردن میں زنجیر بن چکا ہے۔ وہ سینیٹر منتخب ہو چکے مگر گرفتاری کے ڈر سے حلف نہیں اٹھا رہے۔ اگر وہ 60 دن کے اندر عدالت سے ریلیف نہ لے سکے تو ان کی نشست ختم ہو جائے گی۔ قانون نے اپنا چہرہ نہیں بدلا، بس ہدف بدل لیا ہے۔ یہی وہ سبق ہے جو ہمارے سیاستدان آج تک نہیں سیکھ پائے۔ جب قانون آپ کے حق میں ہو تو وہ "انصاف" بن جاتا ہے اور جب وہی قانون آپ کے خلاف ہو جائے تو "سیاسی انتقام" کہلانے لگتا ہے۔
سیاست کا یہی وہ المیہ ہے جس نے اس ملک کو ادارہ جاتی کمزوری اور اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار بنایا۔ یاسمین راشد جو کل تک میڈیا پر نظریاتی بیانیے کی ترجمان تھیں آج دہشت گردی کی دفعات میں قید کاٹ رہی ہیں۔ میاں محمود الرشید جو اخلاقیات کی دہائیاں دیتے تھے آج ریاستی اداروں پر حملے کے الزام میں مجرم ٹھہرے ہیں اور مراد سعید جو اسمبلی میں پارٹی کی سب سے توانا آواز تھے اب خاموشی کی چادر اوڑھے پناہ کی تلاش میں ہیں۔ یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ وہی
مکافاتِ عمل ہے جسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی۔ سیاسی قانون سازی اگر ذاتی دشمنی کے تحت ہوگی، انصاف صرف مخالفین کے لیے مختص ہوگا اور مٹھائیوں میں طاقت کی خوشبو لپیٹی جائے گی تو پھر وقت بھی وہی پلیٹ واپس رکھے گا۔ مجھے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو ملنے والی سزاؤں پر دکھ ہے۔ مجھے امید ہے کہ وقت بدلتے ہی یہ سزائیں معاف ہو جائیں گی اور دس سال حقیقتاً دس سال نہیں رہیں گے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ یہاں سزائیں حالات کے تابع ہوتی ہیں اور بیانیہ یا حالات بدلتے ہی معافیاں بھی بانٹ دی جاتی ہیں۔ مگر تحریک انصاف کو اس بار سیکھنا چاہیے کہ قانون کو کبھی ذاتی دشمنی کا ہتھیار نہ بنائو ورنہ کل کو وہی قانون گلے کا پھندا بن جائے گا۔ ہمیں اجتماعی طور پر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ قانون سازی صرف مخالفین کو دبانے کے لیے نہیں بلکہ ایک منصفانہ اور مستحکم جمہوریت کے لیے ہو۔ بصورت دیگر گلاب جامن بھی گلے میں اٹک جاتا ہے اور ہاتھوں سے لگی گرہ دانتوں سے بھی نہیں کھلتی۔

