جین زی، ملین فالورز مگر جان لیوا تنہائی

اگر آپ کی عمر بیس سے پچیس سال کے درمیان ہے۔ آپ کے ہاتھ میں سمارٹ فون ہے جس پر دن بھر انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور سنیپ چیٹ کے نوٹیفکیشن بجتے رہتے ہیں تو آپ کا سوشل سرکل بہت وسیع ہوگا لیکن سچ یہ ہے کہ آپ کے دل کے کسی کونے میں ایک عجیب سا خلا موجود ہے۔ آپ ایک ان دیکھی تنہائی کا شکار ہو رہے ہیں۔ دوستوں کے اس ہجوم میں تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ صرف آپ کے ساتھ نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں جین زی اس کا شکار ہو چکی ہے۔
جین زی وہ نسل ہے جو 1997 کے بعد پیدا ہوئی اور اب تیزی سے تنہائی، ڈپریشن اور بے سمتی کا شکار ہو رہی ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ آج کے دور میں جب رابطے صرف ایک ٹچ کی دوری پر ہیں، انسان پہلے سے زیادہ کٹا ہوا، خاموش اور خود کو اندر سے خالی محسوس کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا نے ہمیں ایک دوسرے کے قریب تو کر دیا ہے مگر دلوں میں فاصلے بڑھا دئیے ہیں۔ کنگز کالج لندن کی ایک تازہ تحقیق کہتی ہے کہ ان نوجوانوں میں تنہائی کا احساس 40 فیصد زیادہ پایا گیا ہے جو دن میں تین گھنٹے سے زیادہ سوشل میڈیا پر وقت گزارتے ہیں۔
ایک اور بین الاقوامی ریسرچ (BMC Psychology 2023) کے مطابق تنہائی اور سوشل میڈیا کا ضرورت سے زیادہ استعمال ایک شیطانی چکر ہے۔ یعنی جتنا کوئی شخص اکیلا ہوتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ فون پر پناہ ڈھونڈتا ہے اور جتنا فون استعمال کرتا ہے اتنا ہی اکیلا ہو جاتا ہے۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ ایک اجتماعی نفسیاتی بحران ہے۔ سوشل میڈیا نے رشتوں کی نوعیت بدل دی ہے۔ اب ہم چیٹ میں ہا ہا لکھ کر ہنسنے کا تاثر دیتے ہیں مگر کیا یہ سچ نہیں کہ ہمارا یہ قہقہہ مصنوعی ہوتا ہے اور حقیقت میں ہمارے چہرے پر مسکراہٹ نہیں ہوتی۔
ہمارے آن لائن دوستوں کی فہرست لمبی ہے مگر کوئی ایک شخص نہیں جسے دل کی بات کہی جا سکے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تنہائی صرف "ساتھی نہ ہونے" کا نام نہیں بلکہ وہ کیفیت ہے جب انسان خود کو غیر اہم محسوس کرنے لگے۔ وہ سمجھے کہ اس کی بات کوئی نہیں سنتا، اس کی موجودگی یا غیر موجودگی کسی کے لیے معنی نہیں رکھتی۔ یہی احساس سب سے زیادہ تب پیدا ہوتا ہے جب ہم دوسروں کی خوشحال زندگی انسٹاگرام پر دیکھتے ہیں۔ ہر تصویر اور ہر ویڈیو ہمیں احساس دلاتی ہے کہ شاید ہماری زندگی اتنی رنگین نہیں۔
یونیورسٹی آف پٹسبرگ کی ایک تحقیق کے مطابق جو نوجوان دن میں دو گھنٹے سے زیادہ انسٹاگرام استعمال کرتے ہیں ان میں احساسِ تنہائی 30 فیصد زیادہ پایا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سوشل کمپیریزن ایفیکٹ ہے یعنی دوسروں کی بہتر زندگی دیکھ کر اپنی زندگی کم تر لگنے لگتی ہے۔ یہ کیفیت اب نفسیاتی سطح پر باقاعدہ بیماری کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ عالمی ادار صحت (WHO) نے 2024 میں Loneliness Epidemic کی اصطلاح استعمال کی۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر چھٹا شخص مستقل تنہائی کا شکار ہے اور ان میں سب سے زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے۔ اس تنہائی کے نتائج صرف نفسیاتی نہیں بلکہ جسمانی بھی ہیں۔ یہ براہ راست دل کی بیماریوں، نیند کے بگاڑ، قوتِ مدافعت کی کمزوری اور ذہنی تھکن کا سبب بن رہی ہے دلچسپ مگر افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جن ایپس نے "رابطہ" بڑھانے کا وعدہ کیا وہی سب سے زیادہ "اجنبیت" پھیلا رہی ہیں۔
ایک امریکی یونیورسٹی کی تحقیق کہتی ہے کہ چیٹ ایپس (جیسے واٹس ایپ یا میسنجر) اگرچہ فوری رابطے دیتی ہیں مگر وہ جذباتی قربت پیدا نہیں کر سکتیں۔ انسان کو انسان کے لمس، آنکھوں کی بات اور خاموش ساتھ کی ضرورت ہے جسے ڈیجیٹل الفاظ پورا نہیں کر سکتے۔ یہ تنہائی کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ پوری ایک نسل کی اجتماعی کہانی ہے۔ آج جین زی کے پاس علم زیادہ ہے مگر اعتماد کم۔ رابطے زیادہ ہیں مگر رشتے کمزور۔ آوازیں بہت ہیں مگر سننے والا کوئی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں Gen Z کے 70 فیصد نوجوان خود کو Socially disconnected محسوس کرتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس صورتحال کا حل کیا ہے؟ سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ہوگا کہ ڈیجیٹل دوستی حقیقی تعلقات کا نعم البدل نہیں۔
سوشل میڈیا کی چمک دمک وقتی خوشی دیتی ہے مگر دیرپا اطمینان نہیں۔ ہمیں روزانہ کے معمول میں کچھ وقت آف لائن رہنے کی عادت ڈالنا ہوگی چاہے وہ کتاب پڑھنا ہو، سیر پر جانا ہو، یا کسی دوست کے ساتھ کافی پینا۔ ماہرین اسے Digital Detox کہتے ہیں۔ یعنی وقتاً فوقتاً خود کو ڈیجیٹل دنیا سے الگ کرکے حقیقی دنیا سے جڑنا۔ دوسرا قدم ہے Authentic Connection یعنی تعلقات میں سچائی پیدا کریں۔ وہ بات چیت جس میں کوئی دکھاوا نہ ہو بلکہ صرف احساس ہو۔ تیسرا قدم ہے "سیلف اویئرنیس" خود سے سوال کرنا کہ کیا میرا سوشل میڈیا استعمال میرے لیے خوشی لاتا ہے یا اضطراب؟
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں انسان کے پاس رابطے کے ہزار ذرائع ہیں، مگر سننے والا کوئی نہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اس خاموش شور میں خود کو کھو دیں یا اپنے اندر کی آواز سننا سیکھیں۔ یقیناََ سوشل میڈیا بُرا نہیں مگر وہ خالی پن جو ہم اس کے پیچھے چھپانے لگے ہیں وہ خطرناک ہے۔ انسان کو ہمیشہ انسان کی ضرورت رہے گی۔ ایک نظر، ایک مسکراہٹ اور گھنٹوں ایک ساتھ خاموش بیٹھ کر ایک دوسرے کو محسوس کرنے کا احساس زندگی ہے۔ شاید یہی وہ دوا ہے جس کی جین زی کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

