Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Syed Badar Saeed
  3. Fitrat Ka Tahafuz, Cholistan Se Abu Dhabi Tak

Fitrat Ka Tahafuz, Cholistan Se Abu Dhabi Tak

فطرت کا تحفظ، چولستان سے ابوظہبی تک

پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے پر محیط ایک ایسی تاریخ کے حامل ہیں جو اعتماد اور باہمی احترام کی بنیاد پر استوار ہے۔ خلیج کے اس اہم ملک نے ہر دور میں پاکستان کے ساتھ عملی تعاون کیا ہے اور پاکستان نے بھی ہمیشہ امارات کو قریبی دوست اور قابل اعتماد ساتھی کے طور پر دیکھا ہے۔ خطے کے بدلتے ہوئے سیاسی اور معاشی منظرنامے میں یہ تعلقات نہ صرف مستحکم ہیں بلکہ نئے امکانات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

موجودہ دور میں دونوں ممالک کے درمیان وہ مشترکہ مفادات اور موضوعات نمایاں ہو چکے ہیں جو مستقبل کی پالیسی سازی میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں تجارت، سرمایہ کاری، انسانی ترقی اور ماحولیات وہ اہم شعبے ہیں جن میں دونوں حکومتیں ایک دوسرے کے تجربات سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی قیادت خصوصاً امارات کے کنگ شیخ محمد بن زاید النہیان کی وژنری پالیسیوں نے خطے کی سیاست، معیشت اور ماحولیات میں نئی جہتیں پیدا کی ہیں۔ ان کی قیادت میں امارات ایسے منصوبوں پر توجہ دے رہا ہے جو نہ صرف اس کے اپنے شہریوں بلکہ علاقائی ممالک کے لیے ترقی کا ذریعہ بنیں۔

پاکستان کے ساتھ دوستی کو بھی انہوں نے ہمیشہ عزت دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر بڑے موقع پر دونوں ممالک کی قیادت کے درمیان رابطے مضبوط ہوئے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی اور معاشی صورتحال میں جہاں کہیں بھی بہتری کے مواقع پیدا ہوئے وہاں امارات نے مثبت کردار ادا کیا ہے اور اس کردار کی سفارتی دنیا میں ہمیشہ قدر کی گئی ہے۔ پاکستان میں اماراتی سفارت خانہ نہایت پیشہ ورانہ مہارت اور سفارتی معیار کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہے۔

سفارتی حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ اسلام آباد میں موجود اماراتی سفارتی مشن اپنی محنت، نظم اور بہتر رابطہ کاری کے باعث قابل تعریف سمجھا جاتا ہے۔ تجارتی وفود کی میزبانی، سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھولنے کے لیے متعلقہ اداروں سے مسلسل رابطے اور انسانی فلاح کے منصوبوں میں فعال کردار نے اس سفارت خانے کو دونوں ممالک کے درمیان ایک مضبوط پل کا درجہ دے دیا ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں امارات کے تعاون سے چلنے والے فلاحی اور ترقیاتی منصوبے اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ سفارتی تعلق صرف کاغذی نوعیت کا نہیں بلکہ عملی بنیادوں پر استوار ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان توجہ کا ایک اہم شعبہ ماحولیات اور قدرتی وسائل کا تحفظ بھی بنتا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق گلوبل وارمنگ کے اثرات خلیجی خطے اور جنوبی ایشیا دونوں پر گہرے انداز میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ پانی کے ذخائر پر دباؤ بڑھ رہا ہے، بارشوں کے پیٹرن تبدیل ہو رہے ہیں اور صحرائی خطوں میں حیاتیاتی تنوع متاثر ہو رہا ہے۔ ایسے وقت میں پاکستان اور امارات دونوں ان تجربات اور سائنسی تحقیقات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو انہوں نے دہائیوں کے سفر میں حاصل کی ہیں۔

امارات نے صحرائی ماحول میں زراعت، پانی کے نظم اور حیاتیاتی تحفظ کے حوالے سے عالمی معیار کے منصوبے تیار کیے ہیں جن میں جدید ٹیکنالوجی بھی شامل ہے۔ پاکستان خصوصاً پنجاب اور سندھ کے وسیع صحرائی علاقوں میں ان منصوبوں سے رہنمائی لے سکتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے قدرتی ماحول اور جنگلی حیات کے شعبوں میں موجود ماہرین امارات کے ساتھ مشترکہ تحقیقی منصوبوں میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔ یہاں چولستان کا ذکر ناگزیر ہے جو پاکستان کے جنوبی پنجاب میں ایک وسیع اور قدیم صحرائی ثقافت کا مرکز ہے۔ چولستان نہ صرف اپنی روایات فنون اور طرزِ زندگی کے باعث منفرد ہے بلکہ یہ خطہ پاکستان کے ان علاقوں میں شامل ہے جہاں حیاتیاتی تنوع ابھی تک اپنی قدرتی صورت میں موجود ہے۔

پاکستان میں صحرائی انوائرمنٹ کے تحفظ کے لیے جو کوششیں ہو رہی ہیں ان میں ہوبارہ فاؤنڈیشن کی کارکردگی نمایاں ہے۔ اس فاؤنڈیشن نے نہ صرف ہوبارہ بسٹرڈ جیسی نایاب پرندوں کی افزائش اور تحفظ میں اہم قدم اٹھائے ہیں بلکہ مقامی ماحولیات کی بحالی اور تحقیق کے ایسے منصوبے شروع کیے ہیں جن کی مثال خطے میں کم ہی ملتی ہے۔ اس فاؤنڈیشن نے جہاں چولستانی کلچر کی بقا اور عام پاکستانیوں کے لیے فلاحی منصوبوں میں اہم کردار ادا کیا ہے وہیں سرکاری یونیورسٹیوں کے طلبا کو نہ صرف ریسرچ کے لیے سکالرز شپس دئیے بلکہ ان یونیورسٹیوں کو باقاعدہ پاکستان کے اس ماحولیاتی کلچر کا حصہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

ان منصوبوں میں امارات کے تعاون کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اور یہ تعاون اس بات کی علامت ہے کہ دونوں ممالک قدرتی ماحول کی حفاظت کو ایک مشترکہ مقصد سمجھتے ہیں۔ چولستان میں نباتات اور حیاتیات کی بحالی کے لیے جاری کام عالمی ماہرین کی توجہ حاصل کر رہا ہے۔ صحرائی جنگلات کی بحالی بارانی زراعت کے تجربات اور ایسے نباتات کا انتخاب جو موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کر سکیں ان تمام پہلووں پر ہوبارہ فاؤنڈیشن اور اماراتی ماہرین کی مشترکہ کاوشیں بہترین نتائج دے رہی ہیں۔ اس طرح کے منصوبے صرف حیاتیات تک محدود نہیں بلکہ مقامی آبادی کی معاشی بہتری اور صحت مند ماحول کی فراہمی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔

پاکستان کی حکومت کے لیے یہ ایک اہم موقع ہے کہ وہ ان تجربات کو قومی سطح تک توسیع دے اور ایسے منصوبے شروع کرے جن میں امارات کے ساتھ تکنیکی اور تحقیقی تعاون مزید مضبوط ہو۔ دونوں ممالک کے بڑھتے ہوئے تعلقات میں ایک اور قابل ذکر پہلو مستقبل کی معیشت ہے۔ امارات نے گرین اکانومی، قابل تجدید توانائی اور ماحول دوست ٹیکنالوجیز میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔ پاکستان ان تجربات سے فائدہ اٹھا کر اپنی توانائی کے بحران کو کم کر سکتا ہے اور ایسے منصوبے شروع کر سکتا ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں مدد دیں۔ امارات نے بڑے شہروں میں سمارٹ انوائرمنٹ کے ذریعے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ پاکستان کے لیے مثالی ہیں۔

اسی طرح پاکستان کے زرعی شعبے میں جو قدرتی قوت اور تجربہ موجود ہے وہ امارات کے لیے بھی قابل قدر ہے اور یہ تعاون دونوں کیلئے سودمند ثابت ہوتا ہے۔ دنیا اس وقت نئے سفارتی اور اقتصادی بلاکس کے تشکیل کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔ ان حالات میں پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات میں مزید وسعت پیدا ہونا ایک مثبت اشارہ ہے۔ دونوں حکومتوں کی قیادت میں جس اعتدال اور سمجھداری کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے وہ خطے میں استحکام اور ترقی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ یہ تعلق صرف روایتی دوستی تک محدود نہیں رہا بلکہ مستقبل کی عالمی سیاست معیشت اور ماحولیات میں ایک مشترکہ کردار کی شکل اختیار کر رہا ہے۔

اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعاون کے جو نئے دروازے کھل رہے ہیں ان سے نہ صرف دونوں ممالک کے عوام مستفید ہوں گے بلکہ خطے میں بھی امن اور ترقی کی فضا مزید مضبوط ہوگی۔ چولستان کے صحرائی خطے سے لے کر امارات کی جدید ریاست تک یہ دوستی ایک ایسی مثال ہے جس میں روایت، جدت اور ذمہ داری یکجا ہوتی نظر آتی ہے۔ یہ تعلق آنے والے برسوں میں مزید گہرا ہوگا کیونکہ اس کی بنیاد خلیجی رشتوں کی گرم جوشی اور جنوبی ایشیا کی روایت پر قائم ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan