فیس لیس یوٹیوب، غربت سے نکلنے کا نیا دروازہ؟

دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ وہ دور گزر گیا جب نوکری ہی واحد ذریعہ آمدن سمجھی جاتی تھی۔ اب "ڈیجیٹل معیشت" کا زمانہ آ چکا ہے جہاں سوشل میڈیا پلیٹ فارم صرف تفریح نہیں بلکہ روزگار کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ انہی پلیٹ فارمز میں سب سے بڑا نام یوٹیوب ہے اور یوٹیوب کی دنیا میں اس وقت سب سے تیزی سے بڑھتا ہوا رجحان "فیس لیس یوٹیوب چینل" کا ہے یعنی ایسا چینل جس پر ویڈیوز تو آپ کی ہوں مگر چہرہ نظر نہ آئے۔
یہ دراصل جدید دور کا "ورچوئل کریئیٹر ماڈل" ہے۔ مطلب یہ کہ آپ پسِ پردہ رہ کر صرف آواز، معلوماتی مواد، تصاویر یا ویڈیو کلپس کے ذریعے ویڈیوز بناتے ہیں۔ مثال کے طور پر "دنیا کے 10 حیرت انگیز حقائق"، "اسلامی تعلیمات"، "موٹیویشنل کہانیاں"، "دنیا کی تاریخ"، "پراسرار واقعات" یا "لگژری لائف اسٹائل" جیسے موضوعات پر ہزاروں پاکستانی چینلز کام کر رہے ہیں اور ان میں سے کئی ماہانہ لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق 2024 تک پاکستان میں ایسے تقریباً 38 ہزار یوٹیوب چینلز متحرک تھے جو فیس لیس انداز میں چلائے جا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک کامیاب چینل اوسطاً پچاس ہزار سے تین لاکھ روپے ماہانہ کماتا ہے جبکہ چند بڑے چینلز جیسے "ورلڈ اِنفو باکس"، "مائنڈ فیکٹس"، "فیکٹس ٹی وی" اور "ٹاپ 10 اسٹوڈیو" کی آمدنی دس ہزار ڈالر ماہانہ (تقریباً 28 لاکھ روپے) تک پہنچ چکی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر چینلز کے مالک پاکستانی نوجوان ہیں جنہوں نے اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر صرف تحقیق، وائس اوور اور ویڈیو ایڈیٹنگ کے ذریعے کامیابی حاصل کی۔ مثال کے طور پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نے "اسلامک اِن فو" نامی فیس لیس چینل کے ذریعے ماہانہ دو لاکھ روپے سے زائد کمائی حاصل کی جبکہ کراچی میں مقیم ایک چھوٹی ٹیم "ہسٹری ہب" نامی چینل سے چار لاکھ روپے ماہانہ کما رہی ہے۔ ایک اور مثال اسلام آباد کے احمد خان کی ہے جن کا فیس لیس چینل "ڈیلی فیکٹس" یوٹیوب پارٹنر پروگرام کے تحت ماہانہ آٹھ ہزار ڈالر یعنی تقریباً 28 لاکھ روپے تک کما رہا ہے۔ ان کی ٹیم میں صرف تین افراد ہیں ایک ریسرچر، ایک وائس اوور آرٹسٹ اور ایک ویڈیو ایڈیٹر۔
یوٹیوب آمدنی کا طریقہ بڑا سادہ ہے۔ جب آپ کی ویڈیوز زیادہ دیکھی جاتی ہیں تو یوٹیوب آپ کو اشتہارات کے ذریعے پیسے دیتا ہے۔ اسے یوٹیوب پارٹنر پروگرام کہا جاتا ہے۔ ہر ہزار ویوز پر آمدنی کا ایک اوسط نرخ ہوتا ہے جسے "سی پی ایم" (یعنی کاسٹ فی ہزار ویوز) کہا جاتا ہے۔ اگر آپ کی ویڈیوز امریکہ یا یورپ میں دیکھی جائیں تو یہ نرخ 5 سے 10 ڈالر تک ہو سکتا ہے جبکہ پاکستان میں اوسطاً 1 سے 2 ڈالر رہتا ہے۔ اس طرح اگر کسی چینل پر ماہانہ دس لاکھ ویوز آ رہے ہوں تو آمدنی دو لاکھ روپے یا اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
ہمارے سامنے سوال فیس لیس یوٹیوب چینل کا نہیں ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی بے روزگاری اور غربت سے نکلنے کا راستہ ہے؟ یہ سوال ہم سب کو اچھا لگتا ہے لیکن اس کا جواب تھوڑا پیچیدہ ہے۔ آسان جواب تو یہی ہے کہ فیس لیس یوٹیوب چینلز لوگوں کو معاشی مسائل سے نکال رہے ہیں لیکن مکمل جواب یہ ہے کہ یوٹیوب صرف اُن کے لیے ہے جو محنت اور تسلسل سے کام کریں۔ فیس لیس یوٹیوب میں کامیابی کا راز "ڈیجیٹل ذہانت"، صبر اور منصوبہ بندی ہے۔ اس کے لیے مہنگا کیمرہ یا اسٹوڈیو نہیں چاہیے۔ بس ایک عام لیپ ٹاپ، انٹرنیٹ کنکشن اور تھوڑا سا تخلیقی دماغ ہو تو آپ کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص روزانہ دو سے تین گھنٹے مستقل کام کرے تو چھ سے آٹھ ماہ میں اس کا چینل مونیٹائز (آمدنی والا) ہو سکتا ہے۔
ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ جو کریئیٹر روزانہ ویڈیو آپ لوڈ کرتا ہے اس کے چینل کے وائرل ہونے کے امکانات سات گنا بڑھ جاتے ہیں۔ اسے ماہرین "الگورتھم انٹیلیجنس" کا اصول کہتے ہیں یعنی یوٹیوب کا نظام مستقل محنت کرنے والوں کو ترجیح دیتا ہے۔ بہت سے پاکستانی نوجوان یہ کام پارٹ ٹائم طور پر بھی کر رہے ہیں۔ دن میں نوکری یا تعلیم اور شام میں ویڈیو تیاری۔ وہ ماہانہ 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے باآسانی کما لیتے ہیں۔ کچھ افراد نے تو اپنی ٹیمیں بنا کر "ڈیجیٹل پروڈکشن ہاؤس" کی شکل دے دی ہے جہاں سکرپٹ رائٹر، وائس اوور آرٹسٹ آن لائن مل کر کام کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے تو اپنے گھروں سے ہی مائیک اور لیپ ٹاپ کے ذریعے کام شروع کیا اور آج وہ اپنی ٹیم کے ساتھ ماہانہ لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ فیس لیس یوٹیوب صرف ویڈیوز کا کھیل نہیں بلکہ ایک مکمل ڈیجیٹل کاروباری نظام ہے۔ اگر آپ اپنے موضوع، اندازِ گفتگو اور تلاش کے اصولوں (ایس۔ ای۔ او) کو سمجھ لیں تو آپ بغیر چہرہ دکھائے بھی اپنا برانڈ بنا سکتے ہیں۔
یاد رکھیں کہ دنیا اب اس مقام پر ہے جہاں ڈگری سے زیادہ "ڈیجیٹل مہارت" کامیابی کا پیمانہ بن چکی ہے۔ فیس لیس یوٹیوب اُن لاکھوں نوجوانوں کے لیے امید کی کرن ہے جو اپنے وقت، ذہانت اور تخلیقی صلاحیت سے غربت کے اندھیروں سے نکل کر خود مختاری کی روشنی میں قدم رکھنا چاہتے ہیں۔ آپ بھی ان میں شامل ہو سکتے ہیں۔ آپ کو صرف سکل، لیب ٹاپ اور انٹرنیٹ کنکشن کی ضرورت ہے۔

