سی آئی اے سے سی سی ڈی تک کا سفر

پنجاب پولیس میں ایک یونٹ ایسا ہے جس پر آج بھی لوگوں کو یقین ہے۔ سی آئی اے کے حوالے سے بہت کچھ کہا جاتا ہے، اس یونٹ پر کئی اعتراضات بھی ہیں۔ اس کے طریقہ کار پر بھی کئی سوال اٹھتے ہیں اور اس کے حوالے سے جو خوف اور دہشت عوام میں پایا جاتا ہے وہ روایتی پولیس کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ ہر شریف شہری یہ دعا کرتا ہے کہ اس کا کبھی سی آئی اے سے واسطہ نہ پڑے دوسری جانب جب کسی شریف شہری کے ساتھ کوئی واردات ہو تو اس کی اولین خواہش بھی یہی ہوتی ہے کہ اس کا کیس سی آئی اے کو ٹرانسفر کر دیا جائے۔ ہم دوہرے چہروں کے مالک ہیں۔ ہمیں ایک چیز دوسروں کے لیے بری لگتی ہے لیکن ضرورت پڑنے پر وہی چیز اپنے لیے بہتر لگتی ہے۔ ہم سی آئی اے کے طریقہ کار پر اعتراض بھی کرتے ہیں اور بوقت ضرورت اسی طریقہ کار کے مطابق اپنے ساتھ ہوئی واردات کی تفتیش کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔
سی آئی اے میں گزشتہ ایک سال کے دوران تیزی سے تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔ اسے آرگنائز کرائم یونٹ میں تبدیل کیا گیا جس کے ساتھ ہی اس کے سربراہ کی سیٹ کو ایس ایس پی کی بجائے ڈی آئی جی کی سیٹ میں آپ گریڈ کر دیا گیا۔ اس میں ایس پیز کی تعداد بھی بڑھا دی گئی ہے اور اب ایک کی بجائے چار ایس پیز کے عہدے ہیں جبکہ ان کے ماتحت ڈی ایس پیز اور دیگر آفیسرز کی تعداد بھی اسی طرح بڑھائی جا چکی ہے، لاہور کو ساؤتھ اور ویسٹ زون میں تبدیل کیا گیا اور نئے سرکل بنائے گئے اس کے علاوہ ایڈمنسٹریشن اور اینٹی کار لفٹنگ سرکل بھی بنائے گئے ہیں جنہیں ایس پی عہدے کے آفیسرز کمانڈ کر رہے ہیں۔ بات یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ سی آئی اے کا دائرہ کار مزید بڑھاتے ہوئے اسے پہلے آرگنائز کرائم یونٹ میں تبدیل کیا گیا اور یہ یونٹ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کی بجائے براہ راست سی سی پی او لاہور کو رپورٹنگ یونٹ بن گیا۔
اب اسے پنجاب کی سطح پر سنٹرلائز کیا جا رہا ہے تاکہ تمام اضلاع سے انفارمیشن شیئرنگ کا نیٹ ورک بنا کر مزید مؤثر کارروائیاں کی جا سکیں۔ اس مقصد کے لیے اب حال ہی میں پنجاب حکومت نے منظم جرائم کے خلاف کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (CCD) کے قیام کی باضابطہ منظوری دے دی ہے جس کا ہیڈ کوارٹر لاہور کے قربان لائنز میں قائم کیا جا رہا ہے۔ اس میں 4,000 افسران اور اہلکار تعینات کیے جائیں گے، جو جرائم کی بیخ کنی میں مہارت رکھتے ہوں گے۔ اس سلسلہ میں ایڈیشنل انسپکٹر جنرل سہیل ظفر چٹھہ کو CCD کا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے مزید معلوم ہوا ہے کہ سی سی ڈی کو مقدمات کی تحقیقات کرنے کا مکمل اختیار ہوگا اور یہ عدالتوں میں چالان جمع کرا سکے گا جبکہ منظم جرائم کے خلاف پنجاب بھر میں کارروائیاں انجام دے سکے گا۔
یہ صورت حال واضح کرتی ہے کہ پنجاب حکومت اور پنجاب پولیس کی کمانڈ منظم جرائم کے خلاف واضح حکمت عملی اور ویژن رکھتی ہے۔ چند سال پہلے تک جس سی آئی اے کی سربراہی ایس ایس پی کے عہدے کے آفیسر کے پاس ہوتی تھی اور سی آئی اے، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کے ماتحت ایک یونٹ تھا اب آرگنائز کرائم یونٹ سے ہوتے ہوئے کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ تک کا سفر طے کر چکی ہے۔ گزشتہ ایک سال میں جس تیزی سے یہ سب ہوا ہے وہ انتہائی متاثر کن ہے۔ اب نہ صرف اس کی کمانڈ لاہور میں ڈی آئی جی سطح کے آفیسر کے پاس ہے بلکہ ایڈیشنل آئی جی سطح کے آفیسر اس کے مرکزی کمانڈر ہیں جو پورے صوبے میں اسے منظم انداز میں لیڈ کریں گے جبکہ تمام اضلاع میں ایس ایس پی سطح کا آفیسر اسے کمانڈ کرے گا۔
ماضی میں ہم نے کئی بار اس بات کا رونا رویا کہ کس طرح جرائم پیشہ عناصر خصوصا منظم گینگ جتنے طاقتور ہو چکے ہیں ان کے مقابلے کے لیے پولیس کو بھی جدید ٹیکنالوجی اور وسیع اختیارات کی ضرورت ہے تاکہ فوری کارروائی کرتے ہوئے ایسے عناصر کا بھرپور مقابلہ کیا جا سکے۔ یہ بات قابل اطمینان ہے کہ حکومت اور پولیس قیادت اس جانب متوجہ ہوئی اور منظم جرائم کے خلاف پولیس فورس کا ایسا یونٹ میدان میں اتارا جو پہلے ہی اپنی پہچان رکھتا ہے۔
اس یونٹ کو مزید مضبوط کرنے اور اختیارات دینے سے منظم جرائم پیشہ گینگز کا تیزی سے خاتمہ ہوگا۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس کے چیک اینڈ بیلنس کا بھی میکانزم ہونا بہت ضروری ہے اور سی سی ڈی کے لیے الگ سے ایک بااختیار انٹرنل اکاؤنٹ بیلٹی یونٹ بھی ہونا چاہیے تاکہ کوئی کالی بھیڑ اس باوقار یونٹ کے اختیارات کا غلط استعمال کرکے محکمہ کے لیے بدنامی کا باعث نہ بنے۔ یہ جتنا طاقتور اور بااختیار یونٹ بن رہا ہے اتنا ہی حساس بھی ہے۔ اختیارات اگر دائرہ کار سے باہر نکلیں تو ڈیتھ سکواڈ کو جنم دیتے ہیں۔
پنجاب پولیس کے روایتی انٹرنل اکاؤنٹ بیلٹی سسٹم کے ساتھ ساتھ سی سی ڈی کی مانیٹرنگ کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی طرز پر اعلیٰ سطحی کمیشن یا اکاؤنٹ بیلٹی یونٹ بھی تشکیل دیا جائے جو ہائیکورٹ کے جج کی زیر نگرانی ہو اور اس میں دیگر خفیہ ایجنسیوں کی نمائندگی بھی شامل ہو۔ یہ اکاؤنٹ بیلٹی یونٹ ہی سی ڈی ڈی سے متعلقہ شکایات سننے اور اس پر کارروائی کا اختیار رکھتا ہو۔ ایک بہت اچھے ڈیپارٹمنٹ کو آغاز سے ہی کالی بھیڑوں سے محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے تاکہ سی سی ڈی عوام کے حقیقی محافظ ڈیپارٹمنٹ کے طور پر اپنا کام کرتا رہے۔