چائے کا ایک کپ زندگی بدل سکتا ہے

چائے بیچ کر بھی کوئی بڑا بزنس کھڑا کیا جا سکتا ہے؟ یہ سوال اگر چند برس پہلے پوچھا جاتا تو زیادہ تر لوگ ہنس کر ٹال دیتے۔ مگر آج اسلام آباد، راولپنڈی اور پنجاب کے شہروں میں کوئٹہ کیفے کی لہر اس کا بھرپور جواب ہے۔ بلوچستان کے باسیوں نے ہجرت کے بعد جس چھوٹے پیمانے پر چائے کے ڈھابے شروع کیے تھے وہ اب ایک باقاعدہ شناخت بن چکے ہیں۔
یہ کیفے یا ڈھابے محض چائے پینے کی جگہ نہیں رہے بلکہ ایک سماجی اور ثقافتی مرکز کی صورت اختیار کر گئے ہیں جہاں طلبہ، ملازمین، کاروباری حضرات اور عام لوگ یکساں طور پر بیٹھتے ہیں، بات کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے جڑتے ہیں۔ ان کی کامیابی کی کہانی سادہ مگر مثر ہے۔ کوئٹہ کیفے کی اصل پراڈکٹ صرف اور صرف چائے ہے اور یہی ان کا بنیادی ہتھیار ہے البتہ بعد میں چائے کے ساتھ پراٹھے اور بعض جگہ کھانا بھی شامل کر لیا گیا۔ محض چائے وہ بزنس ماڈل ہے جو بتاتا ہے کہ ایک محدود مینو رکھنے سے نہ صرف اخراجات کم رہتے ہیں بلکہ سروس بھی تیز اور معیاری رہتی ہے۔
اس بزنس ماڈل کا دوسرا بڑا نکتہ کم لاگت سیٹ آپ ہے۔ کھلی فضا میں رکھی گئی کرسیاں، چھوٹے کچن، سادہ مگر صاف ستھرا ماحول مل کر اخراجات کو کم کرتے ہیں اور بزنس کو پائیدار بناتے ہیں۔ تیسرا عنصر مستقل ذائقہ ہے جو کہ اصل کمال ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ کوئٹہ کیفے میں جو چائے ملے گی وہ ہر بار ایک جیسی ہوگی، خالص دودھ اور متوازن اجزا کے ساتھ۔ یہ مستقل مزاجی ہی کسٹمر لائلٹی پیدا کرتی ہے۔ یاد رکھیں یہ ایک بزنس ماڈل ہے کیونکہ ملک بھر میں کوئٹہ کیفے کے نام سے کھلے ہزاروں ڈھابے کسی ایک فرد یا قبیلے کی پراپرٹی نہیں ہے۔ ان سب کے مالک الگ الگ ہیں لیکن بزنس ماڈل تقریباََ ملتا جلتا ہے اسی طرح قیمت بھی ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں معاشی
دبا زیادہ ہے وہاں مناسب قیمت والی چائے وسیع کسٹمرز کو متوجہ کرتی ہے۔ اسی طرح لوکیشن کا انتخاب بھی ان کی اہم حکمت عملی کا حصہ ہے۔ یونیورسٹیوں، دفاتر اور مصروف بازاروں کے قریب کیفے کھولنے سے کسٹمر خود بخود آتا ہے اور یوں مارکیٹنگ پر زیادہ خرچ نہیں کرنا پڑتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض شہروں میں کوئٹہ کیفے مالکان نے اپنی ایک یونین بھی بنا رکھی ہے جو قیمتوں، معیار اور حکومتی اداروں سے تعلقات میں ان کی رہنمائی کرتی ہے۔ اس طرح اگرچہ یہ سب الگ الگ مالکان ہیں مگر ایک مشترکہ برانڈ اور شناخت کے تحت کام کرتے ہیں اور ان کا معیار ہی نہیں قیمتیں بھی یکساں رہتی ہیں کوئٹہ کیفے نامی ان ڈھابوں کے اعداد و شمار بھی حیران کن ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق صرف اسلام آباد اور راولپنڈی میں تقریباََ بارہ سو کوئٹہ کیفے موجود ہیں جو روزگار کے ہزاروں مواقع پیدا کر رہے ہیں۔ یہ کلاسیکی فرنچائز چین نہیں ہے جس کا ایک ہی مالک ہو بلکہ مختلف افراد کی ملکیت ہیں جو ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ اس اتحاد نے ان چھوٹے ڈھابوں کو ایک مضبوط سماجی اور کاروباری طاقت بنا دیا ہے۔ اگر اس بزنس ماڈل کو قریب سے دیکھا جائے تو یہ ایک لو کاسٹ ہائی ٹرن اوور ماڈل ہے۔ یعنی سرمایہ کاری کم مگر روزانہ کی فروخت زیادہ ہے۔ ایک چھوٹے سے کیفے میں روزانہ درجنوں نہیں بلکہ سیکڑوں کپ چائے فروخت ہوتی ہے۔ اس میں آپ سیلنگ بھی شامل ہے، جیسے ڈبل دودھ، الائچی یا ادرک کی چائے وغیرہ اس کے علاہ ہلکی فوڈ آئٹمز جیسے پراٹھا یا بن-پتی فروخت کرکے ٹکٹ سائز بڑھایا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا بھی اس سفر میں ایک خاموش پارٹنر ہے۔ چائے ڈالنے اور ابالنے کی ویڈیوز اکثر وائرل ہو جاتی ہیں اور یوں مفت میں برانڈنگ ہوتی ہے۔ پنجاب کے بڑے شہروں میں اس ماڈل کے مزید امکانات ہیں۔ لاہور، فیصل آباد، ملتان اور گوجرانوالہ جیسے شہروں میں بڑی مارکیٹیں، تعلیمی ادارے اور انڈسٹریل بیلٹس موجود ہیں۔ وہاں لوگ پہلے ہی دودھ پتی اور ملائی والی چائے کے شوقین ہیں، اس لیے مارکیٹ ایجوکیشن کی ضرورت کم ہے۔ اصل فرق صرف یہ ہے کہ کون بہتر لوکیشن منتخب کرتا ہے، کون مستقل ذائقہ فراہم کرتا ہے اور کون اپنی شناخت کو زیادہ نمایاں کر پاتا ہے۔
کوئٹہ کیفے کی یہ کہانی مڈل کلاس طبقے کے لیے ہے کیونکہ یہ کہانی سبق دیتی ہے کہ کامیابی کے لیے ہمیشہ بڑے سرمایہ یا پیچیدہ منصوبوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر پراڈکٹ معیاری ہو، قیمت مناسب ہو اور سروس مستقل مزاجی سے دی جائے تو چھوٹے پیمانے سے شروع کیا گیا کاروبار بھی ایک تحریک بن سکتا ہے۔ یہ ماڈل صرف چائے بیچنے کا نہیں بلکہ تعلق بیچنے کا ہے۔ گاہک چائے پینے آتا ہے مگر ساتھ ساتھ دوستوں کے ساتھ وقت گزارتا ہے، بحث کرتا ہے، یا بس کچھ لمحے سکون کے گزارتا ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جو ان کیفوں کو دوسرے عام ڈھابوں سے ممتاز کرتا ہے۔ ان میں سے کوئی برانڈ نیم کا جھگڑا نہیں کرتا، کوئی دوسرے کے کسٹمر توڑ کر رزق بڑھانے کا حربہ استعمال نہیں کرتا۔ اس کے برعکس انہوں نے اتحاد کے ساتھ کم بجٹ کاروبار کو بڑے برانڈ کی شکل دے دی اور ریٹ بھی یکساں کر دیئے۔
صورت حال یہ ہے کہ آپ کسی بھی جگہ کوئٹہ کیفے کو دیکھ کر وہاں بیٹھ سکتے ہیں۔ اگر ہم روزانہ صرف ایک فیصد بہتری لاتے رہیں تو چند ماہ میں ایک چھوٹا سا کیفے بھی اپنی شناخت قائم کر سکتا ہے۔ بیروزگاری اور مہنگائی کے اس دور میں اگر آپ کے پاس خواب ہے، عزم ہے اور محنت کرنے کی ہمت ہے تو چائے کا ایک کپ بھی آپ کی زندگی بدل سکتا ہے۔ خواب چھوٹے نہیں ہوتے، صرف حوصلہ چھوٹا ہوتا ہے۔ کوئٹہ کیفے کی لہر اس بات کا عملی ثبوت ہے۔

