Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Syed Badar Saeed
  3. Afghanistan, Fateheen Ka Qabristan Ya Charagah?

Afghanistan, Fateheen Ka Qabristan Ya Charagah?

افغانستان، فاتحین کا قبرستان یا چراگاہ؟

پاک افغان کشیدگی کے حوالے سے بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر حیرت کا اظہار کرتے نظر آئے۔ بحیثیت مجموعی ہم خوابوں اور دعووں کے اسیر رہے ہیں۔ کابل میں چائے کا کپ پینے کی تصویر ہو یا لاہور مینار پاکستان کے کسی جلسہ عام میں لگایا گیا جذباتی نعرہ ہو، ہمارے یہاں یہ سمجھا جاتا رہا کہ افغانستان ہمارے ساتھ ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ افغانستان میں بھارتی لابی زیادہ مضبوط رہی ہے۔

میں نے ایک بار جنرل حمید گل مرحوم کا انٹرویو کیا تو انہوں نے واضح کہا تھا افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ ہے۔ افغانستان میں قید رہنے والے پاکستانی صحافی فیض اللہ بخوبی جانتے ہیں کہ افغانیوں میں پاکستان مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔ یہ بات افغان امور کے ماہرین بھی جانتے ہیں۔ نجیب اللہ ہو یا کرزئی حکومت ہو، کابل سرکار بھارت نواز ہی رہی ہے۔ اب کابل میں طالبان کی حکومت ہے لیکن عوامی اور سرکاری سطح پر صورت حالات اتنی تبدیل نہیں ہوئی۔

پاکستان پر براہ راست جنگ مسلط کرنے والوں کو تو اب یہی سمجھ نہیں آ رہی کہ امریکی صدر کے اس ڈھول کا کیا کریں جو ہر جگہ جا کر سات بھارتی رافیل گرانے کا نعرہ لگا رہا ہے۔ اتنا تو پاکستان نے ڈھنڈورا نہیں پیٹا جتنا امریکی صدر نے پیٹ دیا ہے۔ پاک بھارت جنگ کے بعد افغانستان کو بیس کیمپ بنا کر پاکستان پر حملہ کیا گیا تو اس پر بھی منہ کی کھانا پڑی۔ اکثر افغان مؤرخین اور دانشور دعویٰ کرتے ہیں کہ افغانستان ایک ایسا ملک ہے جسے کبھی کوئی مکمل طور پر فتح نہیں کر سکا۔ ان کے مطابق یہ وہ سرزمین ہے جسے دنیا فاتحین کا قبرستان کہتی ہے۔ مگر تاریخ کے اوراق کھولے جائیں تو ایک مختلف حقیقت سامنے آتی ہے۔

تاریخی سچ یہ ہے کہ افغانستان فاتحین کا قبرستان ہے اور نہ ہی ناقابلِ تسخیر ملک رہا ہے بلکہ یہ ہمیشہ سے فاتحین کی چراگاہ رہا ہے۔ صدیوں سے مختلف سلطنتیں اور بیرونی طاقتیں یہاں آتی رہیں، حکومت کرتی رہیں، اپنی تہذیبیں چھوڑ کر واپس چلی گئیں۔ افغان قیادت اکثر اوقات کسی نہ کسی طاقت کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنی رہی اور عوام بیرونی اثرات کے نیچے دب کر رہ گئے۔ پاک افغان جنگ کے دوران میں نے ایک بار پھر افغانستان کے ناقابل تسخیر ہونے اور سپر پاورز کے قبرستان بننے کے دعویٰ کو پرکھا۔

مجھے افغانستان کے قبرستانوں میں افغانیوں کی لاشیں ہی نظر آئیں۔ اگر ہم تاریخ کی ترتیب دیکھیں تو سب سے پہلے 550 قبل مسیح میں ہخامنشی سلطنت (فارسی سلطنت) نے افغانستان پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد 330 قبل مسیح میں یونان کے مشہور بادشاہ سکندر اعظم نے یہاں حکومت قائم کی۔ پھر سلوقی سلطنت 323 تا 250 قبل مسیح موریا سلطنت 305 تا 185 قبل مسیح) اور یونانی بختر سلطنت 250 تا 155 قبل مسیح نے یہاں اپنی حکومتیں بنائیں۔ یہ تمام ادوار اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ افغانستان کا اپنا کوئی مقامی اقتدار اس وقت موجود نہیں تھا۔

یہ خطہ مختلف بیرونی طاقتوں کے درمیان جنگوں اور حکمرانی کا مرکز رہا۔ اسلام سے قبل کے درمیانی صدیوں میں بھی افغانستان غیر ملکی سلطنتوں کے زیرِ اثر رہا۔ ساسانی سلطنت (230 تا 650 عیسوی) نے یہاں حکومت کی جس کے بعد سفید چنوں 450 تا 565 عیسوی نے قبضہ جمایا۔ پھر ترک شاہی خاندان 600 تا 850 عیسوی نے بامیان اور کابل پر حکومت کی۔ یہ وہ دور تھا جب افغانستان کے قبائل کمزور اور منتشر تھے اور کوئی بھی مقامی طاقت ملک کی قیادت کے قابل نہیں سمجھی جاتی تھی۔ اس کے بعد اسلامی دور کا آغاز ہوا تو بھی افغانوں کو خودمختاری حاصل نہ ہو سکی۔

غوری سلطنت (1148 تا 1215) کے بعد منگولوں (1219 تا 1350) نے افغانستان پر قبضہ کیا۔ چودھویں سے سترھویں صدی تک افغانستان کبھی مغل سلطنت کا حصہ رہا اور کبھی صفوی سلطنت (ایران) کے زیرِ اثر۔ افغانوں نے اس دور میں بھی اپنی الگ ریاست قائم نہیں کی بلکہ وہ بڑی سلطنتوں کے تابع رہے۔ اٹھارہویں صدی میں اگرچہ درانی سلطنت (1747 تا 1823) کے قیام کے بعد افغانستان کو وقتی آزادی ملی مگر یہ بھی بیرونی طاقتوں کے توازن کا نتیجہ تھی۔

انیسویں صدی میں برطانوی سلطنت (1839 تا 1919) نے افغانستان پر اثر جمایا۔ تین بڑی افغان انگریز جنگیں ہوئیں اور کٹھ پتلی افغان بادشاہ انگریزوں کی مرضی سے آتے اور جاتے رہے۔ اس کے بعد 1979 میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا اور پورے دس سال تک (1979 تا 1989) افغانستان روسی تسلط میں رہا۔ اس دوران افغان قیادت روسی اور امریکی مفادات کی جنگ کا حصہ بنی رہی جبکہ عوام بدترین تباہی کا سامنا کرتے رہے۔

تاریخی سچ یہ ہے کہ آج کا افغانستان کسی ایک قوم کا ملک نہیں رہا بلکہ چودہ مختلف اقوام کا مجموعہ بن چکا ہے۔ ان میں پشتون، تاجک، ہزارہ، ازبک، ترکمن، ایماق، بلوچ، نورستانی، قزلباش، عرب، گوجر، قزاق، قرغیز اور پامیری شامل ہیں۔ یہ نسلی تنوع دراصل صدیوں پر محیط بیرونی حملوں اور سلطنتوں کے اثرات کا نتیجہ ہے۔ ہر دور کی طاقت نے اپنی قوم، اپنی زبان اور اپنی ثقافت افغانستان میں داخل کی اور یہ ملک ایک مخلوط نسلی و ثقافتی خطہ بن گیا۔

تاریخ کے آئینے میں دیکھا جائے تو یہ کہنا کہ افغانستان پر کبھی کسی نے حکومت نہیں کی ایک رومانوی دعویٰ ضرور ہے مگر تاریخی طور پر غلط ہے۔ یہ خطہ بار بار فتح کیا گیا اور افغان قیادت بار بار کسی نہ کسی طاقت کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنی۔ افغانستان ہمیشہ سے طاقتور اقوام کا میدانِ جنگ رہا ہے۔ ایک ایسی چراگاہ جہاں فاتحین آتے رہے، حکومت کرتے رہے اور اپنی تہذیب کے نقوش چھوڑ کر چلے گئے۔

آج کا افغانستان دراصل انہی ادوار کی باقیات ہے۔ چودہ اقوام پر مشتمل یہ ملک اپنی تاریخ کے بوجھ تلے اب بھی اپنی پہچان تلاش کر رہا ہے۔ یہی افغانستان کی اصل تاریخی حقیقت ہے۔ نہ وہ ناقابلِ تسخیر ملک ہے، نہ فاتحین کا قبرستان، بلکہ فاتحین کی چراگاہ ہے جہاں تاریخ نے بار بار خود کو دہرایا۔ پاکستان ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہے لیکن افغانستان کے سرحدی حملوں سے لگ رہا ہے کہ اس بار افغانستان دور کے بجائے کسی ہمسایہ ملک کی چراہ گاہ بننے میں دلچسپی لے رہا ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari