آبی جنگ روایتی جنگ سے زیادہ خطرناک

پاکستان کی تاریخ میں اگر ہم جنگوں اور سیلابوں کے نقصانات کا موازنہ کریں تو ایک تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سیلاب نے پاکستان کو جنگوں سے بھی زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ 1948،1965،1971 اور 1999 کی جنگوں میں پاکستان نے ہزاروں فوجیوں اور شہریوں کی قربانیاں دیں، اربوں ڈالر کے مالی نقصانات برداشت کیے اور مشرقی پاکستان جیسے بڑے حصے سے محروم ہوا لیکن ان جنگوں کے اثرات زیادہ تر فوجی محاذ تک محدود رہے اور ریاست چند برسوں میں معیشت کو کسی نہ کسی حد تک سنبھالنے میں کامیاب ہوگئی۔
دوسری طرف جب سیلاب آتا ہے تو وہ براہِ راست شہریوں کو متاثر کرتا ہے۔ کسان اپنی فصل کھو دیتا ہے، مزدور اپنی مزدوری سے محروم ہو جاتا ہے، بچہ سکول نہیں جا پاتا اور عورت کھلے آسمان تلے کیمپ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج پانی کی تباہ کاریاں ہیں جو ایک روایتی جنگ سے زیادہ مہنگی ثابت ہو رہی ہیں۔ اگر جنگوں کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو 1948 کی پہلی جنگِ کشمیر میں پاکستان کے تقریباً پندرہ سو فوجی اور شہری مارے گئے۔ 1965 کی جنگ میں سرکاری اور غیر سرکاری تخمینوں کے مطابق 3800 پاکستانی فوجی شہید ہوئے اور چھ ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ اسی جنگ میں معاشی نقصان کا تخمینہ موجودہ کرنسی میں تقریباً 3 ارب ڈالر کے مساوی تھا۔
1971 کی جنگ میں پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ آٹھ ہزار فوجی شہید ہوئے، 25 ہزار کے قریب زخمی ہوئے اور نوے ہزار فوجی جنگی قیدی بنے۔ مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے سے نہ صرف جغرافیائی صدمہ ہوا بلکہ معیشت کو بھی تقریباً 4 ارب ڈالر کا دھچکا لگا۔ کارگل کی 1999 کی جنگ محدود نوعیت کی تھی لیکن اس میں بھی تقریباً 500 پاکستانی فوجی شہید ہوئے اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ اس جنگ میں مالی نقصان نسبتاً کم تھا۔ مجموعی طور پر ان چار جنگوں میں پاکستان کے تقریباً 12 ہزار فوجی اور شہری جان سے گئے، 30 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے اور مجموعی مالی نقصان 7 ارب ڈالر کے قریب تھا۔ دوسری جانب اگر سیلابوں کے اعداد و شمار دیکھیں تو صورتحال مزید ہولناک ہو جاتی ہے۔
2010 کا سیلاب پاکستان کی تاریخ کا بدترین سانحہ تھا۔ اس میں تقریباً 2000 لوگ جاں بحق ہوئے، 20 ملین سے زائد افراد براہِ راست متاثر ہوئے اور 2 ملین گھروں کو نقصان پہنچا۔ تقریباً 2.1 ملین ایکڑ زرعی زمین ڈوب گئی اور معاشی نقصان کا تخمینہ 10 ارب ڈالر سے زائد لگایا گیا۔ یہ وہ نقصان تھا جو 1965 اور 1971 کی جنگوں کے مشترکہ مالی نقصان سے بھی زیادہ تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس سیلاب نے پاکستان کی معیشت کو کئی سال پیچھے دھکیل دیا۔ لاکھوں کسان غربت کا شکار ہو گئے اور خوراک کی قلت نے مہنگائی کو آسمان پر پہنچا دیا۔
2014 میں بھارت نے اچانک اپنے ڈیموں سے پانی چھوڑا جس کے نتیجے میں پنجاب کے اضلاع قصور، اوکاڑہ، نارووال اور سیالکوٹ شدید متاثر ہوئے۔ اس آفت میں کم از کم 300 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے اور ہزاروں ایکڑ زرعی زمین تباہ ہوگئی۔ حکومت پاکستان نے اس واقعے کو سیلابی جارحیت قرار دیا کیونکہ پانی چھوڑنے کی بروقت اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ اس نقصان کو اگر مالی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ کئی سو ملین ڈالر کے برابر تھا۔
2022 میں مون سون بارشوں نے سندھ اور بلوچستان میں ایسی تباہی مچائی کہ دو کروڑ سے زیادہ افراد براہِ راست متاثر ہوئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1700 سے زائد اموات ہوئیں، سات لاکھ مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے، 20 لاکھ ایکڑ سے زیادہ زمین متاثر ہوئی اور معاشی نقصان کا تخمینہ 30 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ یہ نقصان نہ صرف 1971 کی جنگ سے زیادہ تھا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے لیے مالی امداد کی سب سے بڑی اپیل کی بنیاد بھی بنا۔
2025 کا حالیہ سیلاب بھی اسی تسلسل کی ایک کڑی ہے۔ پنجاب کے مختلف علاقوں میں نو سو سے زائد افراد جاں بحق ہوئی چکے ہیں، 4.4 ملین افراد متاثر ہوئے اور ہزاروں دیہات پانی میں ڈوب گئے۔ ابتدائی تخمینے کے مطابق معاشی نقصان 500 ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں، سڑکیں اور پل بہہ گئے، سکول اور ہسپتال ناقابلِ استعمال ہو گئے۔ اس نقصان کی شدت ایسی تھی کہ عالمی میڈیا نے اسے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا انسانی بحران قرار دیا۔
الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ متاثرہ افراد کے پاس کھانے پینے کی اشیا تک محدود ہوگئیں جبکہ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ پانی اترنے کے بعد بھی لاکھوں لوگ اپنے گھروں کو واپس جانے کے قابل نہیں ہیں۔ یہ سب اعداد و شمار ہمیں یہ تلخ حقیقت سے روشناس کراتے ہیں کہ روایتی پاک بھارت جنگوں میں اگرچہ ہزاروں جانوں کا نقصان ہوا اور اربوں ڈالر کا بوجھ پڑا لیکن بھارت کی آبی جارحیت اور سیلابوں نے براہِ راست عوام کی زندگی، معیشت اور مستقبل کو تباہ کیا۔
جنگ میں فوجی قربانیاں دیتے ہیں اور محاذ زیادہ تر سرحدی علاقوں تک محدود رہتا ہے لیکن سیلاب ہر گاؤں، ہر کھیت اور ہر شہری کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ جنگ ختم ہو جائے تو ریاست چند برس میں دوبارہ کھڑی ہو سکتی ہے لیکن سیلاب کے بعد تباہ شدہ فصلیں کئی برسوں تک غریب کسان کو سنبھلنے نہیں دیتیں۔ بچے تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں اور بنیادی ڈھانچے کی بحالی میں دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے لیے اصل جنگ اب پانی کی جنگ ہے۔ اگر ملک نے ڈیموں کی تعمیر، آبی ذخائر کی بہتری اور بھارت کی مبینہ سیلابی جارحیت کے تدارک پر توجہ نہ دی تو ہر نیا سیلاب ایک نئی جنگ ثابت ہوگا۔ یہ جنگ کسی بارڈر پر توپ اور ٹینک سے نہیں بلکہ ہمارے کھیتوں، گھروں اور شہروں میں لڑی جائے گی۔
روایتی جنگوں نے ہمیں وقتی نقصان پہنچایا لیکن سیلاب نے ہماری زمین، ہماری معیشت اور ہماری آنے والی نسلوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ اب جنگ پانی پت ہی نہیں لڑی جائے گی بلکہ پانی سے بھی لڑی جا رہی ہے۔ بھارت کے آبی حملے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو نہ صرف اپنے بھرپور وسائل استعمال کرنا ہوں گے بلکہ ہر فورم پر واضح اور مضبوط موقف اپنانا ہوگا۔ پاکستان کو اس آبی جنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے دفاعی آبی انتظامات پر توجہ دینا ہوگی تاکہ آئندہ برسوں میں یہ صورت حال پیش نہ آئے۔ حقیقت کو تسلیم کرنا ہی وہ پہلا قدم ہے جو پاکستان کو اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے اٹھانا ہوگا۔

