Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Sohail Iqbal Bhatti
  3. Qaumi Asason Ka Dukh

Qaumi Asason Ka Dukh

قومی اثاثوں کا دکھ

مشہورچینی کہاوت ہے آپ گھر کی چیزیں بیچ کر، گھر کے حالات ٹھیک نہیں کر سکتے، یہ کہاوت ہے تو اُن دنوں کی ہے جب پورا چین نشے کی لت کا شکار تھا اور لوگ روز مرہ ضروریات پوری کرنے کے لیے گھر کی چیزیں بیچ رہے تھے۔ تاہم اس کہاوت کی یاد اِن دنوں آئی جب بر سراقتدار حکومت بنا نشے کے گھر کی چیزیں بیچنے کا سوچ چکی ہے۔ آپ درست سمجھے میرا اشارہ روز ویلـٹ، ہوٹل ہی ہے۔ اِس قومی اثاثے کا دکھ سنانے سے قبل صاحب اختیارعمران خان صاحب سے اپیل کروں گا اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ خود کریں، کیوں کہ بعض اوقات ہوتا یہ ہے اعلیٰ قیادت کودرست تصویر نہیں دکھائی جاتیـ، آنکھوں میں دھول جھونک کرغلط فیصلے کروالئے جاتے ہیں ـ، جن پرقوم صدیوں ندامت کے آنسو بہاتی ہے۔

پی آئی اے کا19منزلہ روز ویلٹ ہوٹل نیویارک کے علاقے مین ہیٹن مڈ ٹاؤن میں واقع ہے جو حکومت پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہے۔ روز ویلٹ ہوٹل کو لیز پر حاصل کیے جانے کے بعد سے بڑا منافع حاصل کیا جا رہا تھا اور 1999میں ہوٹل کو منافع کی رقم سے خریدا گیا۔ 2015تک روز ویلٹ ہوٹل سالانہ 70سے80لاکھ جبکہ 2018تک 40سے50لاکھ ڈالر سالانہ منافع کما رہا تھا۔ سالانہ 40سے 50لاکھ ڈالر منافع حاصل کرنے کے باوجود اکتوبر 2018میں موجودہ حکومت کی جانب سے روز ویلٹ ہوٹل اور سکرائب ہوٹل پیرس کو سرکاری ادارو ں کی نجکاری فہرست میں شامل کیا گیا۔ حکومت کی جانب سے 11ایسے سرکاری اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا جو سرکاری خزانے پر بوجھ تھے۔ 2019کے بعد روز ویلٹ ہوٹل کے نقصان میں تیزی سے اضافہ ہوا جو 40سے55لاکھ ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ پی آئی اے کی جا نب سے ہوٹل کے اچانک نقصانات کے حوالے سے عام سی وجوہات فراہم کی گئیں جبکہ اس حوالے سے کوئی متعلقہ ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا، جس کے باعث معاملہ پراسرار ہو گیا۔

روز ویلٹ ہوٹل کی جا نب سے2017ء میں جے پی مورگن سے 15کروڑ70لاکھ ڈالر کا قرض حاصل کیا گیا، جس کی ادائیگی ہوٹل کے منافع سے کی جارہی تھی۔ 2020تک قرض کی رقم کم ہو کر 10کروڑ5لاکھ ڈالر ہو گئی۔ جے پی مورگن کی جانب سے بقیہ قرض ایم ایس ڈی کو فروخت کر دیا گیا۔ پی آئی اے کے مطابق ایم ایس ڈی روز ویلٹ ہوٹل حاصل کرنے کی خواہاں تھی۔ جولائی 2020میں پی آئی اے آئی ایل کی جانب سے پی آئی اے اور ایوی ایشن ڈویژن کے ذریعے حکومت پاکستان سے اچانک رجوع کیا گیا۔ جس میں روز ویلٹ ہوٹل کا آپریشن مستقل طور پر بند کرنے اوریونین سے مذاکرات شروع کرنے کی سفارش کی گئی۔ حکومت پاکستان سے روز ویلٹ ہوٹل کے اخراجات کیلئے 50لاکھ ڈالر منظور کرکے ستمبر2020تک فراہم کرنے کی سفارش کی گئی۔ پی آئی اے آئی ایل کا موجودہ کیش بیلنس 30 لاکھ ڈالر ہے۔ پی آئی اے آئی ایل کی جانب سے 9ستمبر2020کی ادائی کی تاریخ سے قبل ایم ایس ڈی کو10کروڑ 5لاکھ ڈالراور 5 لاکھ 25ہزار ڈالر ایگزٹ فیس کا قبل از وقت ادائیگی کا نوٹس جاری کیا جائے گا۔ 9اکتوبر2020سے پانچ دن قبل نیویارک میں کیش فنڈ کی دستیابی کی سفارش کی گئی۔ حکومت پاکستان سے 14کروڑ20لاکھ ڈالر نیویارک میں وقتی بنیادوں پر دستیابی کی سفارش کی گئی، جس میں یونین اور نان یونین ملازمین کو کنٹریکٹ سے علیحدگی کیلئے 1کروڑ37لاکھ ڈالر، پنشن فنڈ کیلئے 1کروڑ80لاکھ ڈالر، قرض دہندگان کیلئے 34 لاکھ ڈالر جبکہ20لاکھ ڈالر کلوزنگ کاسٹ کی رقم شامل تھی۔ روز ویلٹ ہوٹل کے جوائنٹ وینچر یا حتمی لیز تک 1کروڑ30لاکھ ڈالر سالانہ فراہم کرنے کی سفارش کی گئی۔

ای سی سی اور ایوی ایشن ڈویژن کو ان اعداد وشمار کے حوالے سے کوئی دلیل فراہم نہیں کی گئی۔ ای سی سی کی جانب سے ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کی سربراہی میں سیکرٹری فنانس، سیکرٹری ایوی ایشن ڈویژن اور سیکرٹری قانون پر مشتمل کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ کمیٹی کی جانب سے روز ویلٹ ہوٹل کو بند کرنے اوردوسری ادائیگیوں کے ساتھ 14کروڑ20لاکھ ڈالرکی ادائیگی کی تجویز دی گئی۔ کمیٹی کی جانب سے ادائیگی کے حوالے سے فزیبلٹی نہیں کی گئی۔ حتیٰ کہ متعلقہ وزارت کی جانب سے بھی اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ قرض کی ادائیگی کے بعد اور 60لاکھ ڈالر سالانہ سود کی ادائیگی میں بچت سے ہوٹل کو منافع بخش بنایا جا سکتا تھا۔ ہوٹل کو بند کرنے کا کوئی جواز موجود نہیں تھا۔ ہوٹل کو بند کرنے سے قومی خزانے کو اضافی5کروڑ56لاکھ ڈالر کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا جس میں سال2020کے آخر تک کے اخراجات50لاکھ ڈالر، ایگزٹ فیس 5لاکھ25ہزار ڈالر، پنشن فنڈ 1کروڑ80لاکھ ڈالر، قرض دہند گا ن کو34لاکھ ڈالر کی ادائی، کلوزنگ کاسٹ20لاکھ ڈالرجبکہ 1کروڑ 30لاکھ ڈالر کی کیئرینگ کاسٹ شامل ہے۔ ہوٹل کو بند کرنے سے سرکاری خزانے پر مزید بوجھ پڑ ے گا جو ہوٹل کے مکمل اور آدھے آپریشن سے ہونیوالے نقصان سے کہیں زیادہ ہے۔ قرض کی ادائیگی کے بعد روز ویلٹ ہوٹل کو بند کرنے سے قومی خزانے کو 5کروڑ56 لاکھ ڈالر کا نقصان جبکہ ہوٹل کے امور کو چلانے سے سالانہ45لاکھ ڈالر منافع حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ادھر کورونا وبا کے دوران جوائنٹ وینچر کی توجیح پیش نہیں کی جاسکتی۔ منافع کے باوجود روز ویلٹ ہوٹل کو نجکاری فہرست میں شامل کرنا مستقبل میں ہوٹل کی نجکاری کے حوالے سے بڑی سکیم کا حصہ ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے سینیٹ الیکشن کے باعث گزشتہ رو ز ایگزیکٹوبورڈ نے معاملہ وقتی طور پر مؤخرکردیا ہے مگر واضح ر ہے کہ روز ویلٹ کا معاملہ آنیوالے دنوں میں کئی وزراء اور سرکاری افسران کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا چکا ہے۔ مظفررزمی نے سچ کہا تھا:

یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے!

لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

Check Also

Qasoor To Hamara Hai?

By Javed Ayaz Khan