1.  Home/
  2. Sohail Danish/
  3. October, Kuch Yaadein Kuch Baatein

October, Kuch Yaadein Kuch Baatein

اکتوبر ۔۔۔کچھ یادیں کچھ باتیں

امریکہ اس حوالے سے پاکستان پر علی الاعلان دبائو ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ بات تو بہت لمبی ہے اور الزامات کی فہرست بھی۔ ایم آئی 6اور سی آئی اے کی رپورٹوں کے مطابق ڈاکٹر خان نے پہلے اس ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے بعض ممالک سے رابطہ کیا۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ اس دوران ڈاکٹر خان نے اس حوالے سے پرزہ جات اور مختلف کیمیکلز اور آلات کی حصولیابی میں انڈر ورلڈ سے بھی رابطے کئے۔ ایک مغربی مبصر نے تو یہاں تک لکھا کہ ڈاکٹر خان نے ان ممالک کو اس منصوبے کی کامیابی کے بعد انہیں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا تھا۔ اس حوالے سے لیبیا کے کرنل قذافی نے پاکستان کو بے دریغ مالی امداد فراہم کی۔ ایک مبصر نے لکھا امریکیوں کو علم تھا کہ پاکستان بڑی تیزی سے اس منصوبے پر کام کر رہا ہے لیکن ضیاء الحق کے پورے دور میں جب امریکیوں کو افغانستان میں پاکستان کی مدد کی ضرورت تھی۔ انہوں نے آنکھیں بند رکھیں۔

1984ء میں سی آئی اے نے امریکی صدر کو بتا دیا تھا کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کے بالکل قریب پہنچ چکا ہے۔ 1984ء کے آخر میں ڈاکٹر خان نے صدر ضیاء الحق کو یہ خوش خبری سنائی کہ ہم ایک ہفتے کے نوٹس پر ایٹمی دھماکہ کر سکتے ہیں۔ مئی 1998ء میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تو امریکیوں نے ایک بار پھر پاکستان پر نوازشات اور ترغیبات کی بارش کر دی لیکن شرط یہ تھی کہ وہ ایٹمی دھماکہ نہ کرے۔ جب پاکستان باضابطہ طور پر ایٹمی ملکوں کے کلب کا ممبر بن گیا، تو امریکہ کو یہ فکر لاحق تھی کہ بات اب یہاں نہیں رکے گی۔ انہوں نے ڈاکٹر خان پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کا سارا سبق ایران، کوریا اور کئی ممالک کو پڑھا دیا ہے۔

امریکیوں نے ڈاکٹر خان کے متعلق تمام رپورٹوں کی روشنی میں پاکستان کے فوجی حکمران کو متنبہ کیا کہ اگر ڈاکٹر خان کو محدود نہ کیا گیا، تو وہ پاکستان کے خلاف راست اقدام کرے گا، جنرل مشرف ایک بار پھر اسی طرح سہم گئے، جس طرح وہ نائن الیون کے بعد امریکیوں کی دھمکی کے بعد خوفزدہ ہو گئے تھے۔ گو کہ جنرل مشرف کا استدلال یہ تھا کہ انہوں نے یہ اقدام اٹھا کر ڈاکٹر خان کو تحفظ فراہم کیا اور ان کی کڑی نگرانی اس لئے کی گئی، تاکہ وہ کسی بھی ممکنہ کارروائی سے محفوظ رہ سکیں۔ لیکن جب ڈاکٹر خان سے اس متعلق سوال دریافت کیا گیا تو انہوں نے بتایا تھا کہ دنیا میں کامیابی کی ایک قیمت ہوتی ہے، مجھے بھی قیمت ادا کرنی پڑی، اب یہ قیمت بہت محسوس ہوتی ہے۔

وہ بتا رہے تھے پرویز مشرف نے مجھے قربانی کا بکرا بنا دیا اور میرے کام اور میرے احسانات کا ایک لمحے بھی پاس نہیں کیا، جنرل مشرف نے سارا الزام میرے سر ڈال دیا، اس سوال پر کہ آپ انہیں منع بھی کر سکتے تھے، وہ بتانے لگے کہ چودھری شجاعت میرے پاس آئے میری ان سے محبت اور احترام والی دوستی تھی۔ انہوں نے میرے گھٹنوں کو ہاتھ لگائے۔ انہوں نے مجھ سے کہا ڈاکٹر صاحب اس ملک کو آپ کی ضرورت ہے آپ نے مہربانی نہ کی تو امریکہ پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دیدے گا۔ وہ ہمارے جوہری پروگرام کو بھی غیر محفوظ ثابت کر دے گا۔ آپ ان کی بات بھی نہ مانتے۔ وہ بولے پاکستان کے خلاف انکوائری شروع ہو جاتی اور ہمارے جوہری پلانٹ کو دنیا کے لئے خطرہ قرار دیدیا جاتا۔

یہ الفت و راز و نیاز کی داستان ہے۔ جس میں اعتماد کی مضبوط دیواریں کس طرح ملیا میٹ ہوئیں اور اقتدار کے حصول کے لئے باہم تعلقات اور تمام اخلاقی حدود کس طرح پھلانگی گئیں، یہ 7اکتوبر 1958ء کی شب ایوان صدر کراچی کے صدارتی آفس میں جنرل ایوب اور اسکندر مرزا ملک میں مارشل لاء کے فرمان افروز پر دستخط کر رہے تھے اسی رات اسکندر مرزا کی اہلیہ ناہید اسکندر مرزا انتہائی برہمی سے اپنے شوہر سے کہہ رہی تھیں، میں نے تم جیسا بیوقوف آدمی نہیں دیکھا تم نے تو اپنے ہاتھ سے وہ شاخ کاٹ دی جس پر تم براجمان تھے۔ جب تم نے ایوب کو خود اپنے ہاتھوں سے تمام اختیار دیدیے۔ تو اب تم اتنے بے اختیار صدر ہو جس کا حکم اب شاید اس کی ذات پر بھی نہیں چل سکے۔ چند روز بعد ایوب خان صدر اسکندر مرزا سے ملنے آئے تو ایک باوردی ویٹر خوبصورت گلاسوں میں دنیا کی اعلیٰ ترین شراب لے کر کمرے میں داخل ہوا۔

اسکندر مرزا نے چسکی لگائی اور راز دارانہ انداز سے ایوب کے کان میں کہا آپ نے بتایا نہیں آپ میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ ایوب کو جیسے کرنٹ لگا جیسے ان کی چوری پکڑی گئی ہو۔ وہ کھڑے ہوئے ایڑھی بجائی اور بھر پور انداز سے سلیوٹ کرتے ہوئے کہا۔ آپ صدر ہیں میرے باس ہیں میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ بارہ دن بعد یہ 26اور 27اکتوبر کی درمیانی شب ہے۔ ایوان صدر کراچی کے سبزہ زار پر کھانے کی محفل سجی ہے۔ اس کے میزبان خود صدر مملکت اسکندر مرزا ہیں، اس ڈنر میں ایوب کے ساتھ فوج کی اعلیٰ قیادت موجود ہے۔ خوش گپیاں چل رہی ہیں اور انتہائی لذیذ کھانوں سے مہمانوں کی خاطر مدارت ہو رہی ہے۔ نصف شب کو مہمان رخصت ہو جاتے ہیں لیکن ابھی چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ ایک ملازم نے صدر کو آگاہ کیا کہ فوج آ گئی ہے۔ صدر سلیپنگ سوٹ میں ہی باہر آئے تو ایوان صدر کے کوریڈور اور راہداریوں میں اسٹین گنوں سے مسلح فوجی جوان دکھائی دیے۔

لفٹیننٹ جنرل اعظم، لفٹیننٹ جنرل برکی اور لفٹیننٹ جنرل شیخ سامنے کھڑے تھے۔ صدر نے جنرل اعظم سے کہا کہ جنرل صاحب تشریف لائیں۔ دونوں ڈرائنگ روم میں گئے جہاں جنرل اعظم کا ایک مسودہ ان کے سامنے رکھ دیا جس میں صدر اسکندر مرزا نے مستعفی ہونا تھا۔ یہ بات جنرل اعظم نے مجھے آج سے 30سال قبل آغا خان ہسپتال کے سامنے واقع اس گھر میں بتائی تھی جو ان کے دیرینہ دوست کی رہائش گاہ تھی اور جہاں وہ کراچی آنے پر قیام کرتے تھے۔ اپنے چیف ایڈیٹر محترم مجید نظامی کی ہدایت پر ہی ان کی خود نوشت لکھ رہا تھا، جنرل اعظم بتا رہے تھے کہ اسکندر مرزا مسودہ پڑھ کر سناٹے میں آ گئے انہوں نے کہا کہ کیا میں اوپر سے جا کر دستخط کے لئے قلم لے آئوں جس پر جنرل اعظم نے اپنی جیب سے پن نکال کر ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا سر یہ لیں بس دستخط کر دیں۔

جنرل اعظم نے اس بلات کی تردید کی تھی کہ انہوں نے صدر پر کوئی بندوق تانی تھی۔ ہاں اس لمحے ناہید اسکندر مرزا سیڑھیاں اترتی ہوئی دکھائی دیں، وہ بڑی زیرک اور نظر شناس خاتون تھیں انہوں نے جنرل اعظم سے پوچھا کہ جنرل صاحب ہمارے ساتھ کیا سلوک ہو گا۔ جنرل اعظم نے ان سے صرف اتنا کہا کہ آپ لوگوں کو برطانیہ جانا ہو گا۔ انہوں نے باہر آ کر استعفیٰ کی دستاویز جنرل برکی کو دی کہ وہ یہ ایوب خان کو دیدیں اور خود محترمہ فاطمہ جناح کے پاس چلے گئے تاکہ مادر ملت کو آگاہ کر سکیں کہ اسکندر مرزا کا دور ختم ہو گیا۔

Check Also

Taxi Driver

By Javed Ayaz Khan